"NNC" (space) message & send to 7575

ٹوٹے

پندرہ بیس برس پہلے کبھی کبھار’’ٹوٹے‘‘ کے عنوان سے‘ خبروں پر چھوٹے چھوٹے تبصرے کیا کرتا تھا۔دوستوں کو یہ سلسلہ پسند آ گیا اور میں یہ عنوان ان کے سپرد کر کے‘ معمول کے کالم لکھنے لگا۔ آج چند خبریں دعوت تحریر دیتی نظر آئیں۔ ان میں سے کسی پر بھی پورا کالم نہیں لکھا جا سکتا تھا۔ نظرانداز کرنا بھی اچھا نہ لگا۔ ’’ٹوٹے‘‘ یاد آگئے۔ سوچا ان چھوٹی چھوٹی خبروں کو نظرانداز کرنے کی بجائے‘ کیوں نہ چند ٹوٹے تیار کرلئے جائیں؟ خبر ہے کہ یورپ میں ایک ایئرپورٹ پر ایسا موبائل فون پکڑا گیا‘ جس میں 22 بور کی گن لگی تھی۔ فون کا انٹینا بیرل کے طور پہ استعمال ہوتا ہے اور ایک وقت میں اس سے 4 رائونڈ فائر کئے جا سکتے ہیں۔ دہشت گردی کے لئے ایسی شاندار سہولت مل جانے کے بعد کس کا دل نہ چاہے گا کہ وہ جہازوں‘ ریل گاڑیوں اور ہجوموں کے اندر جا کر اس سہولت کا فائدہ اٹھائے؟ اصل میں ساری خرابیوں کی جڑ مغرب کے لوگ ہیں۔ خود ہی ایسی چیزیں تیار کرتے ہیں‘ جنہیں دیکھ کر استعمال کے لئے دل للچانے لگتا ہے اور پھر استفادہ کرنے والوں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ دہشت گرد ہیں۔ اصل میں یہ ساری سازش اہل مغرب کی ہے۔ مسلمان بے چارے یونہی بدنام ہیں۔ ہم نے کبھی کوئی خطرناک ہتھیار نہیں بنایا۔ تلوار سے کام چلایا کرتے تھے۔ مغرب والوں نے عمدہ سے عمدہ ہتھیار ایجاد کر کے ہمیں خراب کیا اور اب ہم پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ سازش نہیں تو کیا ہے؟ خبر ہے کہ پیپلزپارٹی کے دونوں سابق وزرائے اعظم‘ پارٹی اور سیاست سے زبردست پرہیز کر رہے ہیں۔وہ آنے والے ضمنی انتخابات میں پارٹی کا کام کرنے سے گریزاں ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ خود عوام کے سامنے نہیں آ رہے اور کچھ کہتے ہیں کہ پارٹی کے جو امیدوار الیکشن میں حصہ لینے کی جرأت کر رہے ہیں‘ جب انہیں کسی سابق وزیراعظم کو بلانے کے لئے کہا جا تا ہے تو وہ دھمکی دیتے ہیں کہ اگر وہ ہماری انتخابی مہم میں شریک ہونے آئے‘ تو ہم الیکشن سے دستبردار ہو جائیں گے۔ کارکنوں کو الگ شکایت ہے۔ وہ کہتے ہیں ‘ جب یہ اقتدار میں تھے‘ تو صرف بھاری بھرکم بنک بیلنس والوں کو ملا کرتے تھے۔ اب انہیں کوئی بھی نہیں ملتا۔ بنک بیلنس والے ان سے دور بھاگتے ہیں اور کارکن ‘ ان کے قریب نہیں جاتے۔ شنید ہے کہ وہ اب پارٹی لیڈر جناب آصف علی زرداری کا ٹیلیفون بھی نہیں سنتے۔ عید کے موقع پر سٹیل ملز کے ملازمین کو 3ماہ کے بعد آخر کار تنخواہ مل ہی گئی۔ ایک اسلامی تہوار کے حوالے سے تمام مسلمان بھائیوں کے ساتھ برابر کا سلوک کیا گیا۔ ایک دفتری مددگار سے لے کر اعلیٰ ترین افسر تک سب کو 7 ہزار روپے دے دیئے گئے۔ بغیر تنخواہ کے 3مہینے گزارنے کے بعد یہ رقم ملنے پر ان کے ہاتھ پائوں پھول گئے ہیں ۔ وہ حساب لگانے میں مصروف ہیں کہ اس رقم سے قرضے اتاریں؟ راشن خریدیں؟ عید کی شاپنگ کریں؟ گیس اور بجلی کے بل دیں؟ یا اس رقم کو خرچ کرنے کے لئے اکائونٹنٹ رکھ لیں؟ میرا مشورہ یہ ہو گا کہ تمام ملازمین‘ وزیرخزانہ جناب اسحق ڈار کا پتہ لے کر یہ رقم انہیں منی آرڈر کر دیںتاکہ وہ گردشی قرضے اتار کے لوڈشیڈنگ کے دورانئے میں اضافہ کر سکیں۔ بہت عرصے کے بعد پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ اور پیپلزپارٹی پنجاب کے گورکن میاں منظوراحمد وٹو ایک بار پھر حرکت میں آ گئے ہیں۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن اور عمران خان میں صلح کی پیش کش کی تھی‘ جسے شکریئے کے ساتھ مسترد کر دیا گیا ہے۔ دونوں خیبرپختونخوا میں اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وٹوصاحب کی پیش کش پر وہ ڈر گئے کہ اگر انہیں صلح کا موقع دے کر دونوں فریقوں کے قریب آنے کی سہولت دے دی‘ تو اقتدار فریقین کے ہاتھ نہیںلگے گا۔ وہ دیکھتے رہ جائیں گے اور منظور وٹو دونوں کا سودا کر کے‘ کوئی بڑی پوزیشن لے اڑیں گے۔ مولانا نے عمران خان کی دھمکیوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پرویزمشرف جیسے آمر کا مقابلہ کر لیا‘ عمران خان کیا چیز ہیں؟ میرے خیال میں عمران خان کو مولانا کے ساتھ مقابلے کا خیال چھوڑ دینا چاہیے۔ پرویزمشرف کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ مولانا نے ان سے قومی اسمبلی کی 70 نشستیں لے کر پرویزمشرف کا منہ توڑ دیا تھا اور پرویزمشرف سے ہی خیبرپختونخوا کی حکومت بھی ہتھیا لی تھی۔ وفاقی کابینہ میں بھی وزارتیں حاصل کر لی تھیں۔ سیاست میں ٹکر لینا اور کس چیز کو کہتے ہیں؟ مولانا آصف زرداری کے سامنے بھی ڈٹ گئے تھے اور ان سے وزارتوں کے علاوہ کئی بڑے بڑے عہدے لے کر انہیں چت کر دیا تھا۔ مولانا نے آج تک کسی حکمران کو معاف نہیں کیا۔ عمران خان کے پاس تو ایک چھوٹی سی صوبائی حکومت ہے۔ وہ عمران خان کو کیا سمجھتے ہیں؟ بلوچستان میں ہونے والی حالیہ ہلاکتوں پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن نے کہا ہے کہ دشمن‘ بلوچستان میں نفرت کے بیج بونے کی سازشیں کر رہے ہیں۔ دونوں معزز لیڈروں کو بلوچستان میں مزید سازش کے لئے گنجائش کہاں نظر آ گئی؟ قوم پرستانہ نفرتیں وہاں عروج پر ہیں۔ فرقہ ورانہ خونریزی وہاں ہو رہی ہے۔ وفاق اور صوبے کے مابین جھگڑا وہاں چل رہا ہے۔ لاپتہ افراد کے خاندان وہاں جدائی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ یوں تو خیر پورے پاکستان میں ہی ہر طرح کی نفرتیں فراواں ہیں‘ لیکن بلوچستان میں تو نفرت کے بیج بونے کے لئے کوئی گنجائش ہی موجود نہیں۔ دشمن‘ نفرت کے بیج بونے کے لئے قسمت آزمائی کہاں کریں گے؟ ق لیگ کے اراکین صوبائی اسمبلی نے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو مشورہ دیا ہے کہ انہیں لندن جانے کی بجائے بلوچستان جانا چاہیے تھا۔وزیر اعلیٰ پنجاب اپنا طبی معائنہ کرانے لندن گئے ہیں۔ بلوچستان میں پنجابیوں کا جو علاج ہوتا ہے فی الحال خدا‘ شہبازشریف کو اس سے محفوظ ہی رکھے۔ اچھی حکومتیں ہمیشہ معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن حکومت پنجاب کے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ اس نے لاہور میں ایک اور بڑی جیل تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گویا یقین کر لیا گیا ہے کہ جرائم میں تو کمی لانا ممکن نہیں‘ ان میں بہرحال اضافہ ہو گا اور مزید سزا یافتہ مجرموں کو رہائشی سہولتیں پہنچانے کے لئے نئی جیلیں ہی تعمیرکرنا پڑیں گی۔ ارادہ برا نہیں ۔ دوراندیشی کا تقاضا یہی ہے کہ نئی پیدا ہونے والی ضرورتیں پوری کرنے کا بندوبست پہلے سے کر لیا جائے۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی عدم موجودگی میں الیکشن کمیشن کے تمام اقدامات غیرقانونی قرار پائیں گے۔ انہیں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ بات تو درست ہے۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔ اس کے آئینی سربراہ کی عدم موجودگی میں یہ ادارہ جو کام بھی کرے گا‘ وہ غیرآئینی ہو گا۔ لیکن الیکشن کمشنر کی موجودگی میں بھی جو کچھ ہوا‘ یعنی جتنے بھی انتخابات ہوئے‘ کیا وہ الیکشن کمیشن نے کرائے ہیں؟ پانی و بجلی کے وزیرخواجہ آصف نے یہ اعلان کر کے عید کا مزہ خراب کر دیا تھا کہ عید کے دنوں میں لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی۔ لیکن انہی کی وزارت کے سیکرٹری سیف اللہ چٹھہ نے یہ اعلان کر کے عوام کی بے چینی دور کر دی کہ وہ عید کے دنوں میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا وعدہ نہیں کر سکتے۔ لوڈشیڈنگ کی بحالی کا اعلان سن کر عوام میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں سے سرکاری افسر ہی زیادہ عوام دوست ہیں۔ خبر ہے کہ شیخوپورہ میں لوڈشیڈنگ 15 گھنٹے رہ گئی ہے۔ گردونواح کے دیہات اور قریبی شہروں میں بسنے والے بہت سے لوگ پروگرام بنا رہے ہیں کہ وہ اپنی بستیوں میں گھربار چھوڑ کے شیخوپورہ منتقل ہو جائیں ۔ 24گھنٹوں میں 9 گھنٹے بجلی مل جائے‘ تو اور کیا چاہیے؟ مگر کچھ لوگوں کو اس خبرپر یقین نہیں آ رہا۔ ان کا خیال ہے کہ 24 گھنٹے میں9 گھنٹے بجلی فراہم کرنے کی نوبت تو 2017ء میں آئے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں