ابھی کل ہی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی اس تقریر پر اظہار خیال کیا تھا‘ جس میں انہوں نے فرمایا کہ ’’یہ جنگ ہماری نہیں‘ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔‘‘ لیکن اگلے دن انہوں نے ایک میڈیا بریفنگ میں اپنی سکیورٹی پالیسی کا خاکہ پیش کرتے ہوئے‘ دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ ’’اب دہشت گردوں کے خلاف کھلی جنگ ہو گی۔‘‘ انگریزی اخباروں نے ’’آل آئوٹ وار‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جبکہ اردو اخباروں نے اسی میڈیا بریفنگ کے حوالے سے سرخیاں لگائیں کہ ’’مذاکرات اور جنگ دونوں کے لئے تیار ہیں۔‘‘ ایک بات واضح ہو گئی کہ سکیورٹی پالیسی کا اعلان کرتے وقت چوہدری صاحب کے ذہن میں کوئی مخمصہ نہیں تھا۔ وہ پوری طرح سے یکسو تھے اور انہیںمعلوم تھا کہ دشمن کون ہے؟ چوہدری صاحب! واقعی؟ لیکن انتخابی مہم سے لے کر کوئٹہ جانے تک‘ چوہدری صاحب اور ان کی قیادت‘ اس خوش گمانی میں مبتلا تھی کہ دہشت گردوں سے کسی طرح کا سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ یہی مسلم لیگ (ن) کی بنیادی غلطی تھی۔ جنگ اور امن کے موضوع پر معمولی سدھ بدھ رکھنے والا انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ جو دشمن اپنی قاتلانہ سرگرمیاں روکنے پر تیار نہ ہو اور مذاکرات کی پیشکشیں کرتا رہے‘ اس کی نیت کے بارے میں کوئی شبہ نہیں رہنا چاہیے۔ وہ گندے اور بزدل لوگ‘ جو بے گناہوں کو بلاامتیاز بے رحمی سے شہید کرتے ہوں‘ عورتیں‘ بچے‘ بوڑھے اور بیمار دیکھے بغیر ان کے جسموں کے پرخچے اڑا دیتے ہوں اور پھر کہتے ہوں کہ وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کے نام پر سادہ لوح اور معصوم انسانوں کو جھانسہ بھی دیتے ہوں کہ وہ یہ سارے کام اسلام کی خاطر کرتے ہیں۔ تو یہ سیاست کی ادنیٰ مثالوں میں سے ایک ہے۔ دہشت گردی نے پاکستان کو جتنا نقصان پہنچایا ہے‘ وہ کسی بڑے سے بڑے دشمن نے بھی نہیں پہنچایا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے 50 ہزار بے گناہ بھائی‘ بہنیں اور بچے جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ان میں ہمارے 5ہزار سے زیادہ فوجی افسر اور جوان بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے ناکام سیاستدان‘ دہشت گردوں سے اپنا خوف چھپانے کے لئے‘ ان کے نام نہاد اسلام کی آڑ میں ‘ ان کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں لگے رہتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف رائے عامہ کو منظم ہونے سے روکتے ہیں اور بے حیائی سے کہتے ہیں کہ وہ ہمارے دشمن نہیں۔ انہی کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ یہ وہ کالی بھیڑیں ہیں‘ جو ایک ظالم دشمن کے خلاف برسرپیکار قوم کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ وہ آج بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ دہشت گرد ہمارے اپنے ہیں اور وہ ہمارے دشمن نہیں۔ مگر وہ اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ اگر دشمن نہیں تو ہمارے گھروں‘ ہماری عبادت گاہوں‘ ہمارے سکولوں‘ ہسپتالوں‘ بازاروں‘ طلباوطالبات کی بسوں اور ویگنوں کو بموں سے کیوں اڑاتے ہیں؟ کیا اس طرح کے کام دشمن کے سوا کوئی دوسرا کر سکتا ہے؟ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی قیادت ایسے گمراہ کن تصورات سے متاثر نظر آ رہی تھی۔ ہو سکتا ہے اس میں کسی کا ذاتی خوف بھی ہو۔ مگر ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ دہشت گرد کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ وہ کسی اخلاق‘ مذہب اور اصول پر بھی یقین نہیں رکھتا۔ جس طرح سے دہشت گرد‘ انسانوں کو بلا امتیاز اور بے تحاشا بموں اور گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں‘ اسے دیکھنے کے بعد کون یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ انسانی جذبات سے آشنا ہوں گے؟ نوازشریف نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ‘ دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھا۔ انہوں نے واضح طور سے اعلان کیا کہ وہ ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھالیں‘ دہشت گردوں نے اپنے ایک ساتھی کے خلاف کسی دوسرے فریق کی کارروائی کو جواز بنا کر‘مذاکرات کی پیش کش واپس لینے کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی اپنی کارروائیاں شروع کر دیں۔ نوازشریف کو عملی قدم اٹھانے کا موقع دیئے بغیر انہوں نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور بے گناہ شہریوں پر حملے شروع کر دیئے اور اب نئی حکومت نے پھانسی کی سزائوں پر عملدرآمد کا جو فیصلہ کیا ہے‘ دہشت گردوں نے اسے اپنے خلاف سمجھا اور بی بی سی کی اطلاع ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے انتباہ کر دیا ہے کہ اگر پاکستان میں پھانسی کی سزا بحال کی گئی اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دی گئی‘ جنہیں سزائے موت سنائی جا چکی ہے‘ تو پھر طالبان کی طرف سے پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کو مسلم لیگی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کا اقدام تصور کیا جائے گا اور تحریک طالبان‘ اس کے خلاف کارروائیاں شروع کر دے گی۔ مجھے مذاکرات کی نام نہاد پیشکشوں پر کبھی یقین نہیں تھا۔ یہ لوگ ‘ پاکستان کے خلاف برسرجنگ ہیں اور ہمارے ہر شہری کو جو جمہوریت اور انسانی آزادیوںپر یقین رکھتا ہے‘ اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ وہ دن دور نہیں‘ جب مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے رہنمائوں کو حقائق کا ادراک ہو جائے گا اور وہ یقین کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ دہشت گردوں کی جنگ ‘ جمہوری اور آئینی پاکستان کے خلاف ہے۔ یہی دونوں چیزیں ہمارے وجود کی بنیاد ہیں اور دہشت گرد ‘ ان دونوں پر ہی یقین نہیں رکھتے۔ میں نے یہ کالم لکھنا تو اس خیال سے شروع کیا تھا کہ وہ گمراہ کن پراپیگنڈہ جو دہشت گردوں کے چہرے چھپانے کے لئے یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ وہ ہم میں سے ہیں‘ اس کا جواب دیا جائے۔ لیکن اب چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کے بعد ‘ مجھے یوں لگا کہ مسلم لیگ کی قیادت بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ یہ جنگ اسے لڑنا ہی پڑے گی۔ ہم چاہیں بھی‘ تو اس جنگ کا نتیجہ مذاکرات یا بھائی چارے کی بنیاد پر حاصل نہیں کر سکتے۔ بھائی چارہ وہ ہوتا ہے‘ جس میں ایک دوسرے کا خون بہانے سے گریز کیا جائے۔ لیکن جن لوگوں سے ہمارا واسطہ ہے انہوں نے تو اپنے ہمدردوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ پاک فوج کے بہت سے افسر اور جوان دہشت گردوں کے اسلامی نعرے سن کر یہ باور کر بیٹھتے تھے کہ یہ ہمارے ہی مسلمان بھائی ہیںاور وہ ان پر گولیاں چلانے سے گریز کر جاتے تھے۔ لیکن دہشت گردوں کو جب بھی موقع ملا‘ انہوں نے اپنے ہمدردوں کو بھی بے رحمی سے گولیوں کا نشانہ بنایا۔ یہی نہیں بلکہ بہت سے سادہ لوح مسلمان بھی اس خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ دہشت گردی کے راستے پر چل نکلنے والے ہمارے ہی گمراہ بچے ہیں۔ اگر انہیں مواقع دیئے جائیں‘ تو یہ خونخواری کا راستہ چھوڑ بھی سکتے ہیں۔ مگر دہشت گردوں نے مسجدوں‘ امام بارگاہوں اور قبرستانوں میں جمع لوگوں کے درمیان بم چلاتے ہوئے کبھی سوچا ہے کہ اس مجمعے میں ان کے ہمدرد اور خیرخواہ بھی موجود ہیں؟ وہ کبھی ایسا نہیں کرتے۔ وہ اپنی ہلاکت خیز کارروائیاں کرتے وقت‘ اپنے خیرخواہوں کے جسموں کے پرخچے بھی اسی طرح اڑا دیتے ہیں‘ جس طرح دوسرے بے گناہوں کے۔ وہ تو یہ بھی نہیں سوچتے کہ جن لوگوں کو‘ وہ خودکش بمباروں کے ذریعے ہلاک کر رہے ہیں‘ ان کا قصور کیا ہے؟ انہوں نے دہشت گردوں کو نقصان کیا پہنچایا ہے؟ اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف اعلان جنگ کی خبر پڑھنے کے بعد کیا؟ اب بھی کسی کو شک ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی دوست‘ بھائی یا رشتہ دار ہوتاہے؟ شریف برادران نے ہمیشہ یہی تصور کیا کہ یہ گمراہ نوجوان قابل اصلاح ہیں اور نوازشریف نے عالمی برادری کی پروا نہ کرتے ہوئے‘ دہشت گردوں کو مذاکرات کی پیش کش کی۔ جس کا انہیں نقصان بھی ہوا۔ حالیہ بحران میںبہت سے بھارتی لیڈروں نے یہاں تک کہا کہ نوازشریف انتخابات میں دہشت گردوں کی مدد سے جیتے ہیں۔ وہ کس طرح بھارت کے ساتھ امن کے حامی ہو سکتے ہیں؟ وقت آ گیا ہے کہ ہم دہشت گردوں کے بارے میں تمام مخمصوں سے آزاد ہو کر اسی طرح سوچنا شروع کریں‘ جیسے دہشت گرد ہمارے بارے میں سوچتے ہیں۔ نہ وہ ہمیں کسی رعایت کا مستحق سمجھتے ہیں اور نہ ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔ نیشنل سکیورٹی پالیسی کے تحت جلد ازجلد قومی اتفاق رائے پیدا کر کے‘ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری کرنا چاہیے۔ جب تک دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام موجود رہے گا‘ ہم دنیا میں تنہا بھی رہیں گے‘ بے یارومددگار بھی اور بحرانوں میں گھرے ہوئے بھی۔