یہاں عام انتخابات سے فرق نہیں پڑا اور یار لوگ چند نشستوں پرضمنی انتخابات کے نتائج میں‘ مستقبل کی تبدیلیاں ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان چند نشستوں کے انتخابی نتائج سے کیا تبدیلی آ سکتی تھی یا ہے؟ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ عام انتخابات کے بعد 75دنوں میں دہشت گردی کے 70واقعات ہو گئے تھے اور حکمران جماعت جو دہشت گردوں سے مذاکرات کا اعلان کر کے آئی تھی‘ ڈھائی ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ‘ ان سے ایک رابطہ بھی قائم نہ کر پائی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے کئی مرتبہ دہشت گردوں کو انتباہ کیا کہ ان کے ساتھ مذاکرات ہوں گے یا طاقت کا استعمال‘ تو اس کے جواب میں ایک نشئی نے دونوں ہاتھوں میں اسلحہ تھام کے‘ پورے اسلام آباد کو تگنی کا ناچ نچایا۔ اس ایک شخص نے ایٹمی پاکستان کے دارالحکومت میں 5گھنٹے تک‘ تمام سکیورٹی فورسز کی صلاحیتوں کو گیلے کپڑوں کی طرح ارد گرد کی ٹہنیوں پر ٹانگ دیا۔ ایک بہادر شخص زمرد خان نے اس صورتحال سے بیزار ہو کر اپنی جان دائو پر لگائی اور قصہ ختم کیا۔ ظاہر ہے کہ ساڑھے 5گھنٹوں تک ٹیلیویژن کے آگے بیٹھی ہوئی قوم جو شرمندگی کے پسینوں میں ڈوبی ‘بے بسی سے مٹھیاں بھینچ رہی تھی‘ اس نے سکھ کا سانس لیا۔ زمرد خان دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں مایوس عوام کو امید کی کرن دکھا کر‘ ان کا ہیرو بن گیا اور جب کارنامہ انجام پا گیا‘ تووزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان ناممکنات کے سمندر میں کود گئے اور پھر ڈبکیوں پر ڈبکیاں لگاتے ہوئے‘ ایک بہادر پاکستانی کے کارنامے پر‘ دونوں ہاتھوں سے کیچڑ اچھال کر اسے دھندلانے میں لگے ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟ جتنے قصے کہانیاں انہوں نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بیان کئے‘ ان سے تو وہی کچھ لگتا ہے‘ جو تین ماہ کی عمر کو پہنچنے والی نئی نئی حکومت کی پالیسیوں سے لگ رہا ہے۔وہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے لے کر انتخابی میدان میں اتری اور حالت یہ ہے کہ ان چند روز میں قوم کے ساڑھے چارسو ارب روپے خرچ کر کے‘ لوڈشیڈنگ کو ترقی دے بیٹھی۔ بجلی اتنی مہنگی کر دی گئی کہ اس کے اگلے بلوں کو دیکھ کرلوگوں کے ہوش اڑ جائیں گے اور جو کوئی اپنے ہوش برقرار رکھنے میں کامیاب رہا‘ وہ گیس کا بل دیکھ کر ڈھیر ہو جائے گا۔ گزشتہ حکومت نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو؟ کرپشن سے رونقیں لگائے رکھتی تھی۔ کبھی رینٹل پاور کا سکینڈل آ گیا۔ کبھی ایفیڈرین‘ کبھی سٹیل ملز کے قصے تو کبھی بجلی پیدا کرنے والی مشینری کے سکریپ پر حکومت سے اربوں روپے بٹورنے کی کہانیاں پڑھنے سننے کو ملیں اور جس دن کچھ نہیں ہوتا تھا‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اہل خاندان کی سرگرمیاںخبروں کی زینت بن جاتی تھیں۔ صاف نظر آتا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہو ضرور رہا ہے اور آج سب کچھ ہو رہا ہے مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ گردشی قرضے اتارنے کے نام پر سرکاری محکموں سے جو اربوں روپے نکال کر بانٹے گئے‘ ان سے مستفید کون ہوا؟ اور وہ قرضے اداکر کے کتنے اضافی میگاواٹ بجلی‘ عوام کو نصیب ہوئی؟ سابقہ اور موجودہ حکومت میں ایک فرق البتہ نمایاں ہے کہ وہ حکومت جو کچھ کرتی تھی‘ اس کی خبریں تسلسل کے ساتھ منظر عام پر آ جاتیں۔ لوگوں کو اور کچھ نہیں ملتا تھا لیکن خبریں بہت مل جاتیں۔ اب یہ سلسلہ بھی بند ہونے کو ہے۔ میڈیا کی مشکیں کسنے کے لئے ایک سیل قائم کر دیا گیا ہے‘ جو دن رات ’’منصوبہ سازی‘‘ میں مصروف ہے۔ چند ہی روز میں تیارشدہ مال مارکیٹ میں آئے گا‘ تو پتہ چلے گا کہ اب خبریں بھی نہیں ملا کریں گی۔ جو خبر آئے گی‘ وہ کسی اخبار نویس یا ٹیلیویژن کے اینکریا رپورٹر کے بارے میں ہو گی۔ خبریں نہیں رہیں گی۔ خبریں دینے والوں کی خبریں آیا کریں گی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس مرتبہ حکومت اور حزب اختلاف‘ میڈیا کے معاملے میں ایک دوسرے سے مکمل تعاون کریں گی۔ بلکہ ممکن ہے‘ اس تعاون کا دائرہ دہشت گردوں تک وسیع ہو جائے۔ میڈیا کا جو کارکن‘ ایک سے بچے گا‘ دوسرے کے ہاتھ چڑھ جائے گا۔ میڈیا میں ہر طرف خیرہی خیر نظر آئے گی۔ تجربے کی بات ہے کہ جہاں بحران حکومت کے قابو میں نہ رہے اور وہ عوام کو دکھانے کے لئے بھی کوئی کام نہ کر سکے‘ تو پھر آزمودہ نسخہ یہ ہوتا ہے کہ میڈیا کو سیدھا کر دیا جائے۔ یہ کام وفاقی وزیراطلاعات پرویزرشید کے بس کی بات نہیں۔ وہ بنیادی انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کے لئے ایک عمر‘جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ وہ تشدد‘ اذیت‘ جلاوطنی اور قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرتے کرتے‘ اس قدر ’’ناکارہ‘‘ ہو چکے ہیں کہ کسی بھی شہری کے‘ انسانی اور جمہوری حقوق سلب کرنے کے ’’جہاد‘‘ میں کوئی کردار نہیں ادا کر سکیں گے۔ ان کی انہی ’’خرابیوں‘‘ کا اعتراف کرتے ہوئے‘ انہیں ’’جہاد‘‘ میں شریک نہیں کیا گیا۔’’جہادی سیل‘‘ میں جن لوگوں کو رکھا گیا ہے‘ وہ اپنی کارکردگی میں آزاد ہوں گے اور وزیراطلاعات کو ان کی کارکردگی سے بے خبر رکھا جائے گا۔ جب حکومتوں کے پاس کوئی منصوبہ‘ ویژن‘ پروگرام یا ایجنڈا نہ ہو‘ تو ان کی طاقت کا بہت بڑا حصہ فالتو پڑا رہتا ہے۔ ان کے مختلف محکمے‘ شعبے اور ایجنسیاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے تو بیٹھ نہیں سکتیں۔ جو لوگ تنخواہیں لیتے ہیں‘ ان سے کوئی کام لینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں حکومت اپنی فالتو پڑی ہوئی طاقت کو‘ عوام کی آواز دبانے کے لئے استعمال کیاکرتی ہے۔ ریاستی کام کاج پر جمود طاری ہو جاتا ہے۔ بحران کی شدت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ عوام کی بے چینی بڑھنے لگتی ہے اور اس بے چینی کو قرار دینے کے لئے فالتو طاقت کا اندھادھند استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی آمریتیں‘ عدم کارکردگی کا شکار حکومتوں کا آخری سہارا ہوتی ہیں۔ آج کی حکومت آسانی سے کہہ سکتی ہے کہ اسے تو ورثے میں تباہ شدہ معیشت ملی تھی۔ خزانہ خالی تھا۔ شہری سہولتیں فراہم کرنے کے ذرائع ختم ہو چکے تھے۔ اب ہمارے پاس امن و امان قائم رکھنے کے لئے دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں۔ جو لوگ شرپسندی اور بدامنی کے ذریعے حکومت کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔ ان پر قابو پانا ضروری ہے۔ دہشت گردوں نے ‘ حکومت کے کام کو مزید آسان کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت نے‘ دہشت گردی کو کچلنے کے لئے جدید اسلحہ سے لیس مسلح اور تربیت یافتہ افراد پر مشتمل ایک فورس تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پہلے مرحلے میں ’’اغیار‘‘ سے فنڈ لے کر 5ہزار افراد کو تیار کیا جائے گا۔ یہ تعداد بڑھا کر 10ہزار کر دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی پولیس کو نئی ذمہ داریوں کے قابل بنا کر وسائل مہیا کئے جائیں گے۔ یہ طاقت دہشت گردوں کے خلاف نہ کبھی استعمال ہوئی ہے‘ نہ ہو گی۔ ہماری فوج کے بہادر افسر اور جوان برسوں سے دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں لیکن دہشت گردوں کی طاقت میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اب تک جتنے دہشت گردوں کو پکڑا ہے‘ ان میں سے ایک کو بھی پھانسی نہیں دی گئی اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے آزاد ہو کر‘دوبارہ اپنے ساتھیوں سے جا ملتے ہیں۔ جب کسی دہشت گرد کو پھانسی دینے کا فیصلہ ہوتا ہے‘ تو اس کے ساتھیوں کی ایک دھمکی پرفیصلہ بدل دیا جاتا ہے۔ یہ ہے وہ صورتحال‘ جس میں ہمیںحکومتی کارکردگی کا نیا انداز دیکھنا ہو گا۔اس انداز کے تحت روٹی‘ روزگار‘ شہری سہولیات‘ تعلیم اور ضروریات زندگی کی ارزانی جیسے فضول کام چھوڑ کر‘ عوام کو قابو میں لانے کے جدید طریقے اختیار کئے جائیں گے۔ جب حکمران طبقوں کے ہاتھ میں اور کوئی کام نہیں رہتا‘ تو وہ عوام کو کنٹرول کرنے کے لئے ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال مصر کے واقعات ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے ہاں بھی وہی کچھ ہو گا‘ جو مصر میں ہو رہا ہے۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ہماری حکومت کو بھی مسائل حل کرنے کے لئے طاقت استعمال کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نظر نہیں آئے گا۔حکمران طبقوں نے بقائے باہمی کے اصول پر سمجھوتہ کر لیا ہے‘ جس کی تازہ مثال قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا بیان ہے کہ ’’ہم نے کبھی پوچھا ہے کہ ان کے پاس بیرون ملک سرمایہ کاری کے لئے 5ارب ڈالر کہاں سے آئے؟‘‘