جن لوگوں کو نوازشریف کی بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی خواہش پر تکلیف ہو رہی ہے‘ انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ بھارت کے انتہاپسند اور اپنی علاقائی بالادستی قائم کرنے کے خواہش مند بھارتی حکمران طبقے ہی نوازشریف کا ’’بندوبست‘‘ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ نوازشریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے ہیں۔ ان سے زیادہ یہ بات کوئی نہیں جانتا کہ بھارت کے ساتھ مقابلہ آرائی کی حالت میں رہنے کی قیمت کیا ہوتی ہے؟ وہ پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو محاذ آرائی کی پالیسی پر جوش و خروش سے عمل کرتے رہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو تیز کرنے میں جو کچھ انہوں نے کیا‘ ان سے پہلے کسی پاکستانی حکمران نے نہیں کیا تھا۔ انہی کے پہلے دور اقتدار میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی نے زور پکڑا تھا اور اس جدوجہد کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی برادری کی نظروں میں آ گیا تھا۔ کشمیریوں کی مظلومی اور غلامی پر عالمی رائے عامہ کی ہمدردیاںبیدار ہونے لگی تھیں اور بھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ کا دعویٰ ‘ دنیا کی نظر میں مشکوک ہونے لگا تھا، جس پر بھارت کے حکمران بے حد پریشان تھے۔ اسی دور میں بھارتی پنجاب کے اندر سکھوں کی جدوجہد آزادی بھی شدت اختیار کر رہی تھی اور بھارت کے حکمران اس دور میں جس قدر پریشان ہوئے تھے‘ وہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ نوازشریف کے بعد صورتحال میں تبدیلی آنے لگی۔ سکھوں کی تحریک کچل دی گئی اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے کے لئے بھارت نے اپنے ہی آئین اور قوانین کی دھجیاں اڑا کے رکھ دیں اور قابض بھارتی فوج کی تعداد چند ہزار سے لاکھوں میں ہو گئی اور کشمیریوں پر غلامی کا بدترین دور مسلط کر دیا گیا۔ کشمیریوں پر ظلم و ستم کی انتہا ہو رہی تھی اور پاکستان کے نام نہاد جہادی خوشیاں منا رہے تھے کہ ان کی مرادیں پوری ہو رہی ہیں۔ حقیقت میں بھارتی حکمرانوں کی مرادیں پوری ہو رہی تھیں اور انہیں من مانیاںکرنے کے مواقع مل رہے تھے۔ یہ بھارت کے حکمران طبقوں کے لئے ایک سنہرا دور تھا۔ ان کی معیشت تیزی سے پھول پھل رہی تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں دھڑا دھڑ اضافہ ہو رہا تھا۔ شرح ترقی چین کے برابر پہنچتی نظر آ رہی تھی اور بھارت کو علاقائی بالادستی قائم کرنے کے خواب پورے ہوتے ہوئے نظر آنے لگے تھے۔ اس دوران پاکستان میں پھر انتخابات ہوئے اور نوازشریف دوبارہ ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ برصغیر میں دوطرفہ ایٹمی دھماکوں تک نوازشریف کے دور حکومت کا جائزہ لیا جائے‘ تو پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی نقطہ عروج کو پہنچ رہی تھی۔ بھارت کے لئے وہاں قبضہ رکھنا دشوار ہوتا جا رہا تھا۔ بھارتی میڈیا‘ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اظہار تشویش کرتے ہوئے‘ کشمیریوں کے مطالبات پورے کرنے کی تجاویز دینے لگا تھا۔ وہاں کے دانشور اور نوجوان نسل تنازعہ کشمیر سے جان چھڑانے کے مطالبے کررہے تھے۔ یہ مطالبے کرنے والوں میں عالمگیر شہرت کی مالک ارون دھتی رائے پیش پیش تھیں۔ تنازعہ کشمیر ایک بار پھر عالمی برادری میں اہمیت اختیار کرنے لگا تھااور بھارت پر دبائو بڑھتا جا رہا تھا کہ وہ تنازعہ کشمیر حل کرنے پر توجہ دے۔ یہ تھی وہ صورتحال جب بھارت نے اچانک ایٹمی دھماکے کر کے‘ طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنا چاہا۔ یہ نوازشریف ہی تھے‘ جنہوں نے بلاتاخیر جوابی ایٹمی دھماکے کر کے‘ بھارتی بالادستی کا خواب چکناچور کر دیا اور ساتھ ہی دو ایٹمی طاقتوں کے مابین کشیدگی ختم کرنے کے لئے سلسلہ جنبانی شروع کر دی۔ یہ کوشش بارآور ہوئی اور تھوڑے ہی دنوں میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی‘ پاکستان کے دورے پر آ گئے۔ یہاں آ کر انہوں نے مینارپاکستان پر رکھی کتاب میں وہ تاریخی جملے لکھے‘ جن میں بھارتی انتہاپسندوں کے دیرینہ خواب اکھنڈ بھارت کے نعرے سے عملاً دستبردارہوتے ہوئے‘ پاکستان کے وجود کو تسلیم کر لیا گیا اور ساتھ ہی نوازشریف سے وعدہ کیا کہ وہ تنازعہ کشمیر کے پرامن حل پر بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ جیسا کہ میں بارہا لکھ چکا ہوں‘ دونوں وزرائے اعظم‘ تنازعہ حل کرنے کے لئے بنیادی نکات پر اتفاق رائے کر چکے تھے۔ یہی بھی طے ہو گیا تھا کہ 1999ء کے دوران دونوں ملکوں کے وفود وزرائے خارجہ کی قیادت میں یورپ کے کسی مقام پر مذاکرات کریں گے اور تنازعہ کشمیر کے پرامن حل پر سمجھوتے کا ابتدائی مسودہ تیار کر کے‘ اپنی حکومتوں کو پیش کر دیں گے اور اسی سال کشمیری نمائندوں کو مذاکراتی عمل میں شریک کر کے‘ ان کی رضامندی حاصل کی جائے گی اور یہ دیرینہ تنازعہ حل کر کے‘ امن کے ایک نئے دور کا آغاز کیا جائے گا۔ لیکن کارگل کا ایڈونچر کر کے‘ پاکستان کے دو تین جرنیلوں نے ایک عظیم مستقبل کی تعمیر کے خواب کو برف میں دفن کر دیا، جس کی سزا برصغیر کے عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔ بھارت کے حکمران طبقوں کو اس سے فرق نہیں پڑا۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کا سارا خرچ اپنے غریب عوام پر ڈال دیا۔ ان کی زندگی اجیرن ہو گئی، لیکن بھارت کے حکمران طبقوں کے اثاثوں میں تیزرفتاری سے اضافہ ہوا۔ پاکستان میں ایسا نہ ہو سکا۔ پاکستان میں کشیدگی کے بھاری اخراجات عوام کے ساتھ ساتھ حکمران طبقوں پر بھی بوجھ بننے لگے۔ وہ اپنی دولت میں اضافے اور سرمائے کی عالمی منڈی میں اچھی پوزیشن حاصل کرنے کے جو خواب دیکھ رہے تھے‘ وہ ٹوٹ گئے اور انہیں یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑی کہ پاکستان کے سرمایہ دار اس وقت تک ترقی کے عالمی مقابلے میں شریک نہیں ہو سکتے‘ جب تک انہیں بھارت کی بڑی مارکیٹ میں رسائی نہیں ملتی۔ یہ تو آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان میں کون کون بھارت کی بنکنگ اور سٹیل ملز کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے بے تاب ہے اور گھریلو استعمال کی کونسی مصنوعات بنانے والے اپنا مال بھارتی خریداروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو اس بات کی اتنی خبر نہیں‘ جتنی بھارتی سرمایہ داروں کو ہے۔ پاک بھارت کشیدگی اور محاذآرائی میںبھارتی حکمران طبقوں کے مفادات اب کافی بڑھ چکے ہیں۔وہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی کا استعمال کرتے ہوئے‘ کشمیر میں اپنا کنٹرول بڑھاتے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ ریاست کے تمام علاقوں میں‘ مسلمانوں کی اکثریت میں روزبروز کمی کرتے جا رہے ہیں۔ اس عمل کو مزید بیس پچیس برس جاری رکھنے کے لئے‘ انہیں پاکستان کے ساتھ کشیدگی برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی کشیدگی کے نام پروہ بھارت کے اندر مسلمانوں پر بھی دبائو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے غریب عوام کو ‘ اپنے حقوق کی جدوجہد سے روکنے کے لئے بھی‘ کشیدگی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس مرتبہ ملک میں جو عام انتخابات ہوں گے‘ ان میں ہندوقوم پرستی اور پاکستان دشمنی کے جذبات کوشدت سے بھڑکایا جائے گا۔ نوازشریف کی امن کی کوششوں پر برانگیختہ ہونے والے بے فکر رہیں۔ ان کا کام انتہاپسند ہندو لیڈر ‘زیادہ خوش اسلوبی سے پورا کر رہے ہیں۔ انتہاپسند ہندوتنظیم وشوا ہندو پریشد نے رام مندر کی تعمیر کاشوشہ پھر چھوڑ دیا ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے بابری مسجد کے مقام پر جا کر مظاہرے کی کوشش کی‘ جسے صوبائی حکومت نے ناکام بنا دیا۔ اب انہوں نے ایک بڑے مارچ کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف ایک نئی محاذآرائی کی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔ پاکستان مخالف جذبات بھڑکائے جا رہے ہیں اور ہزاروں مسلمانوں کا خون بہانے والا نریندر مودی وزارت عظمیٰ کا امیدوار بن کر میدان میں اترنے والا ہے۔ میں تو کئی روز پہلے لکھ چکا ہوں کہ نوازشریف کے لئے اب امن کا نعرہ لگانا مشکل ہوتا جائے گا۔ پاکستانی جہادی خاطر جمع رکھیں۔ ان کے انتہاپسند ہندو بھائی‘ وہی سب کچھ کرنے جا رہے ہیں‘ جس کے لئے وہ نوازشریف پر دبائو ڈال رہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے نوازشریف جس سمجھوتے کا خواب دیکھ رہے ہیں‘ وہ بھی دوردور تک نظر نہیں آرہا۔ نوٹ:- میرے 24 اگست کے کالم ’’سویرے سویرے‘‘ میں ایک خفیہ میڈیا سیل قائم کرنے کے بارے میں جو بات لکھی گئی تھی‘ وزارت اطلاعات کے ترجمان نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت میڈیا کو مزید فعال دیکھنا چاہتی ہے اور اس کے حکومتی امور پر نگران کا کردار ادا کرنے پر یقین رکھتی ہے اور آزاد میڈیا کے فرائض میں رکاوٹ ڈالنے یا صحافیوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے والا کوئی قدم نہیں اٹھائے گی۔ اس یقین دہانی پر اظہار اطمینان ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود کہ میں نے اس ٹیلیفون کا نمبر بھی لکھ دیا تھا ‘ جہاں سے مجھے پراسرار کال آئی، مگر ابھی تک اس کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ باقی رہی سیل کی بات‘ تو ایسے کاموں کے ثبوت نہیں رکھے جاتے۔ یہ غیررسمی اور غیرسرکاری ہوتے ہیں۔