الحمد للہ۔روزنامہ’’دنیا‘‘ آج اپنی اشاعت کا پہلا سال پورا کر چکا۔جس طرح آپ نے‘ اس نئے روزنامے کو پذیرائی بخشی‘ اس کی دوسری کوئی مثال موجود نہیں،جتنے بھی نئے اخبار مارکیٹ میں آئے‘ ان سب کو بتدریج قارئین کی توجہ حاصل ہوئی لیکن روزنامہ’’دنیا‘‘ کو پہلے ہی شمارے سے پڑھنے والوں نے‘ جس چاہت اور شوق سے عزت بخشی‘ اس پر ہم اللہ تعالیٰ اور آپ کے شکر گزار ہیں۔اس ایک سال کے دوران‘ لاہور سے اشاعت کا آغاز کرنے والا‘ آپ کا یہ اخبار اب بیک وقت کراچی،فیصل آباد، سرگودھا،گوجرانوالہ اوراسلام آباد سے شائع ہورہا ہے۔ایک ہی سال کے اندر ’’دنیا‘‘ نے ترقی کی جو منزلیں طے کی ہیں‘ ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ اس کی ترقی کی رفتار کیا ہو گی؟اس وقت میں زندگی کے جس حصے میں ہوں‘ یہ ریٹائرمنٹ کا وقت ہوتا ہے۔ ہمارے ایڈیٹر انچیف میاں عامر محمود ،جو کہ ’’دنیا میڈیا گروپ‘‘ کے سربراہ بھی ہیں ،کی قدر افزائی تھی کہ انہوں نے اپنے اخبار کیلئے بطور ’’گروپ ایڈیٹر‘‘میرا انتخاب کیا۔ انہی کے حوصلے اور نیک نیتی کی برکت سے خدا نے مجھے قومی سطح کے ایک اور کامیاب اخبارکی ٹیم کا حصہ بننے کا اعزاز عطا فرمایا۔روزنامہ’’دنیا‘‘ کی ٹیم میںملک کے بہت سے سینئر اور کہنہ مشق صحافی شامل ہیں۔ان میں ہر ایک اپنے اپنے شعبے میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ہمارے لاہور ایڈیشن کے ایڈیٹر‘ جناب ندیم نثار‘ کراچی ایڈیشن کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر‘ جناب احمد حسن‘فیصل آباد اور سرگودھا کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر‘ جناب غلام محی الدین‘ گوجرانوالہ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر‘ جناب کریم اللہ گوندل اور اسلام آباد کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر‘ جناب مسعود ملک‘ صحافت کے جانے پہچانے نام ہیں۔ان سب نے اپنے اپنے ایڈیشن کے لئے‘ دن رات محنت کی اور ہمہ وقت اسی ذوق و شوق اور توانائی کیساتھ ’’دنیا‘‘ کے حسن او ر معیار کو سنوارنے میں‘ بہتر سے بہتر کی جستجو میں رہتے ہیں ۔ ہمارے میگزین ایڈیٹر جناب عامر خاکوانی نے ہفتہ وار میگزین اور دیگر ایڈیشنوں کو ایک نیا انداز دیا اورایک سال کے اندر اندر ’’دنیا‘‘ کا میگزین اور اس کے خصوصی ایڈیشن‘ امتیازی مقام حاصل کر چکے ہیں۔دفتر میں بھاری ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ وہ باقاعدہ کالم بھی لکھتے ہیں اور ان کا شمار ہمارے ملک کے جانے پہچانے دانشوروں اور کالم نویسوں میں ہوتا ہے۔طیبہ بخاری‘ عاصم محمود‘ کرامت بھٹی اور عبدالحفیظ ظفرسنڈے میگزین میں ان کے معاون ہیں۔ایڈیٹوریل سیکشن کے سربراہ جناب سجاد کریم اورانکے ساتھیوں حفیظ قریشی، ملک فیض بخش‘ اسلم کولسری اور عمار چوہدری کی محنت اور عرق ریزی کا اندازہ ہمارے ادارتی صفحات سے کیا جا سکتا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ خبروں اور ایڈیشنوں کے علاوہ‘ ہمارے ادارتی صفحات بھی قارئین‘ انتہائی دلچسپی اور ذ وق و شوق سے پڑھتے ہیں اورکالموں کے بارے میں بجا طور پر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت ہمارے کالم نویس‘ پسندیدہ ترین لکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ملک کے مایہ ناز کالم نگار جناب مجیب الرحمن شامی کے لئے صرف یہی عرض کر سکتا ہوں کہ ’’ان کا نام ہی کافی ہے۔‘‘ جناب ہارون الرشیدصاحب طرز کالم نویس ہیں، انکا اپنامنفرد انداز ہے اور اسلوب تحریر ایسا ہے کہ ان کے مداحین چند سطریں پڑھ کر اندازہ کر لیتے ہیں کہ یہ طرز تحریر ہارون الرشید کا ہی ہو سکتا ہے۔محترمہ انجم نیاز‘ جناب عرفان حسین‘ جناب احمد رشید ، جناب رسول بخش رئیس، چاروں عالمی شہرت کے تجزیہ نگار ہیں۔ان کے کالم انگریزی اخبارات میں شائع ہوتے ہیں اور ساتھ ہی روزنامہ دنیا میں بھی چھپ جاتے ہیں۔نئی دہلی بھارت سے ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک اور افتخار گیلانی ،جو بھارت کے نامور تجزیہ نگار اورممتاز صحافی ہیں ، ہمارے لیے باقاعدہ لکھتے ہیں۔ہمیں ملک کے ممتاز عالمان دین کی تحریر یں شائع کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ان میں حافظ محمد سعید ، جناب علامہ جاوید احمد غامدی اور مولانا طاہر اشرفی کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔جناب محمد اظہار الحق‘ اعلیٰ پائے کے شاعر ہیں مگر کالم نویسی میں بھی منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔مجھے کبھی انکی شاعری اور کالم نویسی میں موازنہ کرنے کیلئے کہا جائے تو یہ میرے لئے انتہائی مشکل کام ہو گا۔میں برسوں سوچ کر بھی کسی ایک کو‘ دوسرے سے بہتر قرار نہیں دے پائوں گا۔وہ ہمارے قارئین کے نہایت پسندیدہ لکھنے والے ہیں۔ اوریا مقبول جان کے لاتعداد مداحین انہیں بے حد پسند کرتے ہیں۔ جناب خالد مسعود خان‘ بلاشبہ اپنے کالم نویس ہم عصروں میں امتیازی مقام رکھتے ہیں۔صاحب طرزشاعر ہیں اور مزاح گوئی میں ان کا لہجہ منفرد ہے۔وہ اردو کے بین الاقوامی سخن فہم حلقوں میں بہت مقبول ہیں اوراپنی تمام تر سفری اور شاعرانہ مصروفیات کے باوجود‘ ہمارے لئے اپنا کالم باقاعدگی سے لکھ رہے ہیں۔ جناب ظفر اقبال آج کی اردو شاعری کے ’’شاہ رخ خان‘‘ تو ہیں ہی‘ کالم نویسی میں بھی ایک وسیع حلقہ قارئین رکھتے ہیں۔بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ظفر اقبال نے مزاح نویسی‘ شاعری کیساتھ ہی شروع کر دی تھی۔ اس دور کے معیاری جریدوں میں انکی تحریریں نمایاں طور سے شائع ہوا کرتی تھیں۔شاعری میں جتنے زود گوہیں‘ کالم نویسی میں بھی اتنے ہی زود نویس ہیں۔جناب رئوف کلاسرانے‘ بطور ایڈیٹر انوسٹی گیشن خصوصی (Exclusive)خبریں دینے کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اگر سال رواں کے دوران سب سے زیادہ اورا ہمیت کی حامل خصوصی (Exclusive)خبروں پر کوئی انعام دینا ہو‘ تو میں بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ یہ انعام صرف رئوف کلاسرا کے پاس جائیگا۔رپورٹنگ کیساتھ وہ اپنا کالم بھی لکھتے ہیں جو ہمارے مقبول ترین کالموں میں نمایاںہے۔ تحریر کا اسلوب‘کاٹ اور تیرونشتر رئوف کلاسرا کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ہمارے مستقل قلمی معاونین میں جناب ڈاکٹر لال خان جانے پہچانے دانشور ہیں ۔ سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد خان‘ چند ہفتے پہلے ہمارے ساتھ آئے ہیں۔ امور خارجہ پر انکا تجربہ ، مہارت اور علم یقینا قارئین ’’دنیا‘‘ کو قابل قدر مطالعے سے لطف اندوز ہونے کے مواقع پیش کرتے ہیں ۔ جناب ڈاکٹر رشید احمد خان دانشور اور سکالر ہیں اور قومی سیاست کا گہر ا شعور رکھتے ہیں۔جناب سہیل احمد اور طاہر سرور میر آرٹ کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔دونوں اپنے اپنے فن کے ماہر ہیں اور سہیل احمد کا ڈرامائی نام ’’عزیزی‘‘ تو ہر خاندان کا حصہ بن چکا ہے۔قومی میڈیا میں ایسی مقبولیت بہت کم فنکاروں کو نصیب ہوئی ہے۔سہیل احمد اور طاہر سرور میر بھی ہمارے کالم نویسوں میں شامل ہیں ۔جناب اکمل علیمی امریکہ کے شہری بن چکے ہیں اور واشنگٹن میں رہتے ہیں لیکن مجھ سے دیرینہ تعلقات کو نبھاتے ہوئے انہوں نے پھر سے لکھنا شروع کر دیا ہے۔انہوں نے صحافت کی ابتدا پاکستان سے ہی کی تھی اور اپنے عہد کے نامور رپورٹر اور کالم نویس تو ہیںہی‘ افسانہ نگاری میں بھی‘ ان کا ایک منفرد مقام ہے۔جناب راجہ انور سیاسی دانشور، کارکن اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں‘ وہ بھی ہمارے کالم نویسوں کیساتھ آملے۔انکی تحریر اپنی پہچان رکھتی ہے اور الفاظ کے استعمال کا جو ہنر انہیں آتا ہے اس کا انداز ہی اور ہے ۔ معیشت کے موضوع پر جناب چوہدری محمد لطیف ہمیں اپنے ماہرانہ تجزیوںسے نوازتے ہیں۔ جناب منیر احمد بلوچ ایک سنیئر کالم نویس ہیں۔ ایک مدت سے اخباروں میں لکھ رہے ہیں‘ وہ بھی پہلے دن سے ہمارے ساتھیوں میں شامل ہیں۔ جناب ایم ابراہیم خان ہمارے کراچی ایڈیشن کی ادارتی ٹیم میں شامل ہیں‘بہت شگفتہ کالم لکھتے ہیں۔ جناب خورشید ندیم بھی روز اول سے ہمارے ساتھی ہیں۔ انکے کالم دلچسپ بھی ہوتے ہیں اور فکر انگیز بھی۔ میرے دوستوں میں نسیم احمد باجوہ کے کالم بھی ’’دنیا‘‘ کی زینت بن رہے ہیں۔ انکا شعبہ صحافت سے نصف صدی کا تعلق ہے۔پی پی ایل کا ممتاز ادارہ‘ جو روزنامہ’’پاکستان ٹائمز‘‘، روزنامہ ’’امروز‘‘ اور ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ شائع کیا کرتا تھا اور جس میں مظہر علی خان‘ فیض احمد فیض‘ احمد ندیم قاسمی اور ملک کے دیگر ممتاز ترین شاعر‘ادیب اور صحافی کام کر چکے ہیں‘ نسیم احمد باجوہ اسی ادارے کے انتظامی امور کے سربراہ تھے۔برسوں پہلے وہ لندن منتقل ہو گئے تھے‘ انکا شمار برطانیہ کے سینئر بیرسٹروں میں ہوتا ہے۔ وہ یورپ کے معاملات پر شگفتہ علمی انداز میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ جناب سید وصی شاہ حال میں ہمارے کالم نویس ساتھیوں میں شامل ہوئے ہیں۔ان کی شاعری کے مداحوں کا حلقہ بہت وسیع ہے‘کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں‘ جو ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ حبیب اکرم ‘عمار چوہدری اور وکیل انجم کے علاوہ بھی بہت سے اہل قلم ہمیں اپنی نگارشات سے نوازتے رہتے ہیں۔ ہمارے تمام رپورٹر جانفشانی سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔اس ٹیم کے لیڈر جمیل چشتی ہیں ۔نیوز روم کے انچارج ممتاز اور سینئر صحافی ذکاء راجپوت ہیں۔آرٹ سیکشن کے نگران جناب طاہر اقبال ہیں۔سب کے نام اورمحاسن کے لئے جگہ دستیاب ہوتی‘ تو میں آٹھ یا بارہ صفحات کا ایک اور ایڈیشن بھی شائع کر سکتا تھا مگر اسکی گنجائش نہیں۔ جو نام رہ گئے ہیں‘ وہ میری کوتاہی اور تنگ دامانی کی وجہ سے شائع نہیں ہو سکے لیکن وہ میرے قلب و ذہن میں ستاروں کی طرح روشن اور پھولوں کی طرح مہک رہے ہیں۔ہمارے ادارے کے ایم ڈی جناب نوید کاشف کی بیشتر ذمہ داریاں انتظامی ہوتی ہیں لیکن ان کی ذہانت اور شخصیت کے رنگ‘ اخبار کے ہر حصے میں دمک رہے ہوتے ہیں۔ اگر ان کی شبانہ روز محنت اور بے پناہ ذہانت اور رہنمائی کا ساتھ میسر نہ ہوتا‘ تو ہم اتنے سکون‘اطمینا ن اور بے فکری کے ماحول میں‘ اپنے اپنے کام نہیں کر سکتے تھے۔ان کی معاونت جدید مینجمنٹ سائنس کے ماہر جناب امجد نیاز کرتے ہیں۔ہمارے مارکیٹنگ کے شعبے کے سربراہ جناب رضوان اشرف کا کام‘ ان کی خوش لباسی کی طرح مرکز نگاہ رہتا ہے۔ہم سب ان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں اور وہ اکثر ہمیں مایوس نہیں کرتے‘ ان کا کام بہت مشکل ہے لیکن ایک نئے اخبار کیلئے جتنی محنت انہوں نے کی ہے ‘وہ آپ ’’دنیا‘‘ کے صفحات پر دیکھتے رہتے ہوں گے اور آخر میں ہمارے ایگزیکٹو ایڈیٹر جناب سلمان غنی کا ذکرکروں گا۔سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان کی کس کس خوبی کا ذکر کروں؟ وہ کہنہ مشق اور محنتی رپورٹر بھی ہیں۔ ہفتہ وار سیاسی ڈائری بھی لکھتے ہیں‘ تحقیقاتی(Investigative) خبریں بھی لاتے ہیں‘تقریبات میں اخبار کی نمائندگی بھی کرتے ہیں‘ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں دادگفتار بھی دیتے ہیں اور’’دنیا نیوز چینل‘‘ کے بیورو چیف بھی ہیں۔یہ سارے کام چوبیس گھنٹے کرنا پڑتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ جناب سلمان غنی کو چوبیس گھنٹوں کی بجائے چالیس گھنٹوں کے دن رات ملتے ہیں‘ ورنہ جتنا کام وہ کرتے ہیں‘ وہ چوبیس گھنٹوں کے روز وشب میں تو نہیں ہو سکتا۔’’دنیا‘‘ کے دفاتر کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے دفاتر سے کم شاندار نہیں‘ایسی صاف ستھری ‘آرام دہ اور پرسکون فضا‘ بہت کم اخباری دفاتر میں میسر آتی ہے۔ کالم کیلئے زیادہ جگہ لینے کے باوجود‘ میں اپنے تمام ساتھیوں کا ذکر نہیں کر پایا‘ جس کے وہ مستحق تھے۔میں ایسے تمام ساتھیوں سے دست بستہ معذرت خواہ ہوں۔