کل جماعتی کانفرنسوں میں بیٹھے‘ بھانت بھانت کے سیاستدانوں کی جنگی مہارتیں کیا کم تھیں؟ کہ اب عدلیہ نے بھی جنگی حکمت عملی میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ مجاز اتھارٹی کی طرف سے فیصلہ کیا گیا تھا کہ مالاکنڈ ڈویژن سے فوج کو واپس بلانے کے فیصلے پر‘ عملدرآمد نہ کیا جائے۔ کیونکہ عدالت عالیہ کے مطابق اگر امن فوج وہاں سے نکل گئی‘ تو عوام کی حفاظت کون کرے گا؟ حکومت جلد بازی نہ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ مشکلات پیدا ہو جائیں۔یقین کیجئے ‘ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ دہشت گردی کے خلاف ہم جنگ کیسے لڑ رہے ہیں؟ پاکستان کے اعلیٰ ترین پالیسی ساز اداروں میں کیسے لوگ بیٹھے ہیں؟ اپنے ہی ملک کے ایک حصے میں ‘ سرد جنگ کے دو حریفوں میں سے‘ ہم نے ایک کے خلاف ‘دوسرے کو جنگ میں جھونکنے کے لئے‘ نان سٹیٹ ایکٹرز کا ایک جنگی مرکز قائم کرا دیا۔ وہاں پر ہماری نگرانی میں دنیا بھر کے ناپسندیدہ اور سماج دشمن عناصر کو لا کر جمع کیا گیا۔ جدید ترین ہتھیار استعمال کرنے کی تربیت دی گئی اور جوش و جذبہ پیدا کرنے کے لئے اس گوریلا جنگ کو جہاد کا نام دے دیا گیا اور ایک پڑوسی ملک کی حکومت کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کرا دیں۔ اس وقت ہم جو کچھ بھی کر رہے تھے‘ ہمارے فیصلہ سازوں کے نزدیک وہ درست تھا۔ کیونکہ انہیں ڈالر مل رہے تھے۔ جنگجوئوں کوتنخواہیں اور مراعات مل رہی تھیں۔ امریکہ کے دشمن سوویت یونین کا خون بہہ رہا تھا ۔ گویا سب مزے میں تھے۔ جنگجو تیار کرنے کی جو فیکٹری ہم نے امریکہ سے لگوائی‘ اس میں عالمی دہشت گرد بھی تربیت پانے لگے۔ جن میں سب سے زیادہ اہمیت چینی جنگجوئوں کو حاصل تھی۔ اس میں امریکہ بہت خوش تھا کہ اس کے ابھرتے ہوئے عالمی حریف کے ملک میں‘ تخریب کاری کرنے کے لئے اسے سہولتیں میسر آ گئی ہیں۔ مگر انہی جنگجوئوں نے‘ اسی فیکٹری میں پوری دنیا میں کارروائیاں کرنے کے لئے ایک نیٹ ورک تیار کر ڈالا۔ سوویت فوجیں واپس چلی گئیں۔ افغانستان میں ہم نے طالبان کی حکومت قائم کر کے‘ اسے ہر طرح کی امداد بہم پہنچائی۔ 9/11 کے واقعات پر امریکہ بپھرا۔ ہمارے حکمرانوں کے پسینے چھوٹ گئے اور انہوں نے ہڑبڑاہٹ میں وعدہ کر لیاکہ وہ اپنی ہی بنائی ہوئی طالبان حکومت کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیں گے۔ غور فرمایئے کہ فیصلے کیا ہو رہے ہیں؟پہلے ایک جنگی مشینری سوویت یونین کے خلاف تیار کر کے‘ امریکہ سے پیسے لئے۔ اپنے زیرسرپرستی افغانستان میں ایک حکومت بنائی اور دنیا سے کہتے پھرے کہ اسے تسلیم کر لو۔ مگر جیسے ہی امریکہ نے پینترا بدلا‘ ہم نے اسی حکومت کے خلاف لڑنے کی ذمہ داری اٹھا لی۔امریکہ نے حملہ کر دیا۔ طالبان جو کہ القاعدہ کے ساتھ متحدہ محاذ بنا چکے تھے‘ اتحادی فوج کا نشانہ بن گئے۔ ان پر بمباری ہوئی‘ تو وہ فرارہو کر پاکستان آ گئے اور ان سب کو بھی ہم نے اپنے علاقے‘ وزیرستان میں مراکز قائم کرنے کی نہ صرف اجازت دی۔ بلکہ ان کی مدد بھی کرنے لگے۔ اب ہم امریکہ کے بھی اتحادی تھے اور امریکہ کے خلاف لڑنے والے طالبان کے بھی مددگار تھے اور سمجھ یہ رہے تھے کہ دنیا بیوقوف ہے۔ ساری عقلمندی‘ چالاکی اور ہوشیاری صرف ہمیں میسر ہے اور ہم جو چاہیں گے کرتے رہیں گے۔ یہ باتیں اب صیغہ راز میں نہیں رہ گئیں۔ امریکہ کو ہماری ’’دہری کارکردگی‘‘ کا علم ہو چکا تھا۔ اس نے ہماری ہی سرزمین کے کچھ لوگ اپنے لئے بھرتی کر کے‘ ہمارے مخالف طالبان کھڑے کر دیئے اور انہیں ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ایک کٹر اور بے رحم اسلامی نظریہ بھی فراہم کر دیا‘ جس کے تحت پاکستان کی جمہوریت کافرانہ اور اس ملک کے رہنے والے کافر ہیں۔ میں پہلا آدمی تھا‘ جس نے فوراً ہی مرض کی نشاندہی کرتے ہوئے‘ پاکستانی اور امریکی طالبان کی اصطلاحیں استعمال کیں۔ جس کا مطلب صاف تھا کہ ہم امریکہ سے لڑنے والے طالبان کی مدد کر رہے ہیں اور امریکی ہمارے خلاف لڑنے والے طالبان کی۔ امریکہ بہرحال ایک سپرپاور ہے۔ اس نے افغانستان میں اڈے قائم کرنے کے مقاصد حاصل کر لئے۔ اب وہ اتحادیوں کی افواج کی بڑی تعداد واپس لے جانا چاہتا ہے اور افغانستان میں اتنی ہی فوج رکھے گا‘ جتنی اڈوں کے دفاع کے لئے ضروری ہو گی۔ باقی ملک کو طالبان اور دیگر افغان جیسے چاہیں سنبھالتے رہیں۔ امریکی طالبان نے اپنے آپ کو ملا عمر سے منسلک کر لیا اور ان دونوں کا اگلا ہدف پاکستان بن گیا۔ گویا گیم الٹ گئی۔ پہلے پاکستان‘ افغانستان کو اپنے زیراثر لانے کی کوشش کر رہا تھا اور اب افغانستان کے طالبان‘ ہمیں اپنے زیراثر لانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے پالیسی ساز تو آج تک موثر دفاعی حکمت عملی بھی تیار نہیں کر پائے۔ لیکن افغانستان کے طالبان کو اپنا ہدف بھی معلوم ہے اور ان کے پاس حکمت عملی بھی ہے۔ وہ اپنے اسلام کو خدا کا دین قرار دیتے ہیں اور اسے دنیا بھر میں پھیلانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔ آپ تحریک طالبان پاکستان کے بیانات اور لٹریچر پڑھ کر دیکھئے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ وہ پاکستان میں اپنی طرز کا اسلام نافذ کر کے‘ خدا کی حاکمیت قائم کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ اور ملاعمر ایک ہیں۔ ہمیں یہ سمجھایا جاتا ہے کہ طالبان ہمارے اپنے ہیں۔ ان کے ساتھ سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ انہیں کون بتائے کہ طالبان بھی یہی سمجھتے ہیں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستانی مسلمان کہنے میں تو مسلمان ہیں لیکن اپنے عمل میں کافر ہیں اور ان کا طریقہ کار بہت واضح ہے۔ ’’یا ہمارے اسلام کو قبول کر لویا موت کو۔‘‘ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اتنا واضح نظریہ رکھنے والے گروہ کے لوگ‘ ہمارے اپنے کیسے ہو گئے؟ سیدھی سی بات ہے‘ وہ پاکستان پر قبضہ کر کے‘ یہاں اپنا اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان کے حالات اس کے لئے انتہائی سازگار ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے ‘ عوام کو اس بری طرح سے کچلا ہے کہ ان کی اکثریت اب اپنے حکمرانوں سے جان چھڑانے کے لئے بدسے بدتر حکومت کو بھی قبول کرنے کے لئے تیار ہے‘ جو اپنے حکمرانوں سے ان کی جان چھڑا دے۔ میں صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں سے عوام کی مایوسی اور نفرت کا یہ عالم ہے کہ وہ بدترین زندگی قبول کر لیں گے مگر ان سے جان چھڑا کر خدا کا شکر ضرور ادا کریں گے۔ یہ صورتحال پاکستانی عوام کے لئے انتہائی مایوس کن ہے۔ وہ اپنے حکمرانوں کا ساتھ دیں‘ تو وہ جنگ جیتنے کے اہل ہیں اور نہ حالات ان کے حق میںہیں۔ جبکہ طالبان کے پاس ایک پیغام بھی ہے اور ان کا عمل بھی ہے۔ انہوں نے افغانستان میں جبر کا نظام نافذ کر کے امن قائم کر دیا تھا۔ نااہلی‘ رشوت ستانی‘ راہزنی‘ چوری‘ ڈکیتی‘ سب کو ختم کر کے رکھ دیا تھا اور زندگی قرون وسطیٰ جیسی بنا کے رکھ دی تھی۔ پاکستان کے اندر عوام کی جو درگت بن رہی ہے‘جس طرح بیورو کریسی اور سیاسی کارندوں نے ‘ ان کے حقوق پامال کر رکھے ہیں۔ انہیں دوسرے درجے کے شہری بنا کے پھینک دیا ہے۔ ریاست کو نہ ان کے تحفظ کا احساس ہے اور نہ ہی ان کی بھوک ننگ کا۔ ہمارے عوام ایک دھتکاری ہوئی مخلوق بن کر‘ حقیرانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اس زندگی سے نجات چاہتے ہیں۔ طالبان اس نجات کا وعدہ کرتے ہیں اور طالبان نے یہ دیکھ لیا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں میں حالات سے مقابلہ کرنے کی ہمت باقی نہیں رہ گئی۔ اب وہ مذاکرات کے نام پر ہم سے اپنے لئے تحفظ مانگ رہے ہیں۔ جیت کی طرف بڑھتا ہوا ایک فریق‘ شکست پر آمادہ فریق کے ساتھ مذاکرات کیوں کرے گا؟ اسی بنا پر میں روز اول سے کہتا آ رہا ہوں کہ ہمارے پاس لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پاکستانی عوام کو‘ طالبان اس سے بدتر زندگی نہیں دے سکتے‘ جو ہمارے حکمرانوں نے انہیں دے رکھی ہے۔ طالبان اپنی طاقت کی وجہ سے غلبہ نہیں پائیں گے۔ ہمارے حکمران طبقوں کی بزدلی اور اخلاقی دیوالیہ پن ‘ طالبان کے لئے کافی ہے۔ ہمارے کانپتے لرزتے حکمران‘ خوف کی حالت میں یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ طالبان پر غلبہ پا لیں گے اور طالبان خوش ہیں کہ یہ اپنے عوام کو جتنا دبائیں گے‘ ہماری طاقت میں اتنا ہی اضافہ ہو گا۔ وہ مذاکرات کیوں کریں؟ اپنے نالائق دشمن کی کمزوریوں پر بھروسہ کیوں نہ رکھیں؟نقشہ کچھ اور ہی طرح کا بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ طالبان طاقت پکڑیں گے۔ ہمارے حکمران انہیں روک نہیں پائیں گے۔ دنیا طالبان کا غلبہ برداشت نہیں کرے گی اور ہماری سرزمین پر ایک نئی طرح کی معرکہ آرائی شروع ہو جائے گی اور یہ کتنی بڑی ‘ وسیع اور خونخوار جنگ ہو گی؟ عالم انسانیت نے کبھی اس کا تصور بھی نہ کیا ہو گا۔ اس وقت تو عوام ‘ لٹیروں اور ڈاکوئوں کی گردنیں ٹوٹتی ہوئی دیکھنا چاہتے ہیں۔ چوروں کے ہاتھ کٹتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں اور دوسرے کی آنکھیں پھوڑنے والوں کو اندھے دیکھنا چاہتے ہیں۔جدید زندگی میں انصاف نہیں ‘ تو قبائلی انصاف ہی سہی۔ حقیقی تو ہو گا۔یقین کیجئے ہمارے حکمرانوں کے اپنے عوام کے ساتھ اتنے وسیع رابطے نہیں ہیں‘ جتنے طالبان پیدا کر چکے ہیں۔