بھارتی فوج کے چیف آف سٹاف جنرل وی کے سنگھ کا سکینڈل منظرعام پر آنے کے بعد‘ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘ بھارت کا یہ بھرم بھی کھل گیا کہ اس کی فوج آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے‘ سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرتی۔ قارئین جانتے ہیں کہ میں نے اس دعوے کو کبھی قبول نہیں کیا کہ جمہوری نظام میں فوج پیشہ ورانہ امور تک محدود رہتی ہے۔ میں نے ہمیشہ یہ لکھا ہے کہ دنیا میں نظام کوئی بھی رائج ہو لیکن فیصلہ سازی کے عمل میں فوج کا حصہ لازماً ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جاپان‘ جو رسمی طور پر اس بات کا دعوے دار ہے کہ اس کی فوج‘ محض محدود دفاعی ضروریات کے لئے بنائی گئی ہے‘ وہاں بھی فوج ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ اگر جاپان کے دفاعی اخراجات دیکھیں‘ تو برطانیہ اور فرانس سے زیادہ نہیں تو برابر ضرور نکلیں گے۔ وہاں بھی ملکی امور میں فوج کا عمل دخل اسی طرح ہوتا ہے‘ جیسے برطانیہ یا امریکہ میں۔ چین میں تو یہ پہچان بھی ممکن نہیں۔ کیونکہ وہاں فوجی سیاستدان ہوتے ہیں اور سیاستدان فوجی۔ یہ ادل بدل اتنے وسیع پیمانے پر ہوتا رہتا ہے کہ وہاں پر حکومت کرنے والے سیاستدان اور فوجی مل جل کر نظام حکومت چلاتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے وہاں ’’سیاسی‘‘ استحکام موجود رہتا ہے۔ بھارت کو دوسرے ملکوں سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ وہ بھی دوسروںکی طرح مختلف مفادات میں مفاہمت اور گنجائش باہمی کے ذریعے امورمملکت چلاتا ہے۔ لیکن بھارت کے ریاستی ڈھانچے میں انگریز کے رائج کئے ہوئے نظام اور روایات کو جاری رکھا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مقامی اثرات بڑھتے گئے اور آج یہ بات واضح ہو کر سامنے آ گئی کہ وہاں کی فوج‘ اب اس طرح پیشہ ورانہ حدود کے اندر نہیں رہ گئی‘ جیسے انگریز کے زمانے میں تھی۔ انگریز کے زمانے میں تو وائسرائے خود ہی فوج کا سربراہ ہوتا تھا۔ لہٰذا عملی طور پر فوج کی حکمرانی تھی۔ مگر یہ انگریز کی مہارت اور روایت پسندی تھی کہ فوجی کمانڈر اپنی پیشہ ورانہ حدود سے باہر نہیں نکلا کرتے تھے۔ البتہ ملکی امور چلانے میں بطور ادارہ فوج کا عمل دخل کافی گہرا ہوا کرتا تھا۔ آزادی کے بعد فرق یہ پڑا کہ بھارتی مزاج‘ روایت پسند انگریز کی طرح محدود نہ رہ سکا اور جنرلوں نے سیاسی امور میںمداخلت کے لئے ہاتھ پائوں مارنا شروع کر دیئے۔ پہلی بار سیاست میں فوجی مداخلت کی کوشش اس وقت منظرعام پر آئی‘ جب اندراگاندھی کی حکومت بحران میں تھی۔ اس وقت سیاسی جوڑتوڑ زوروں پر تھے۔ کانگریس کے مخالفین متحد ہو کر‘ اندراگاندھی کی حکومت پر دبائو ڈال رہے تھے اور کانگریس اپنے بچائو کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی تھی۔ اپوزیشن کے لیڈر مرارجی ڈیسائی تھے۔ انہیں فوج کی طرف سے پیغام ملا کہ’’ اگر آپ کو ہم سے کسی طرح کی مدددرکار ہو‘ تو ہم اس کے لئے حاضر ہیں۔‘‘ مرارجی ڈیسائی نے فوراً اندراگاندھی سے رابطہ کیا اور کہا ’’اپنے جنرلوں کو سنبھال کے رکھو۔ وہ سیاست میں مداخلت کی تیاریاں کر رہے ہیں۔‘‘ ظاہر ہے ‘ اس پر اندرگاندھی نے کوئی نہ کوئی تدبیر کی ہو گی۔ لیکن یہ بات واضح ہو گئی کہ بھارتی جنرل بھی بہت سے دیگر ملکوں کی طرح سیاسی امور میں دخل اندازی کرنے پر تیار ہیں۔ ظاہر ہے اس واقعہ کے بعد سیاستدانوں نے فوج کو سختی سے پیشہ ورانہ حدود میں مقید کرنے کی پالیسی پر نظرثانی کی ہو گی اور انہیں مشاورتی عمل میں شریک کرنے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ضرور نکالا ہو گا۔ شاید اسی وجہ سے بھارت کی حکومتوں اور فوج کے مابین سارے معاملات اندر ہی اندر طے ہوتے رہے اور کبھی فوج کومنظرعام پر آ کر اپنی آزادانہ رائے کا اظہار نہیں کرنا پڑا۔ یہ بھرم اس وقت کھل گیا‘ جب بھارتی فوج کے سربراہ نے پہلی مرتبہ کھل کر اپنے وزیراعظم کے ایک پالیسی بیان پر کھلی مخالفت کر دی۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نے سیاچن کے ایک مقام پر اعلان کر دیا تھا کہ ’’ہم گلیشیئر سے فوجیں نکال کر ‘ اسے امن کا پہاڑ بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ جس پر بھارتی فوج کے سربراہ نے فوراً ہی جواب دیا کہ ’’ہم نے اس محاذ پر بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ اب سیاچن سے غیرمشروط طور پر فوجیں ہٹانا ممکن نہیں رہ گیا۔‘‘ اب بھارت میں فوج اور حکومت کے درمیان تعلقات کار کا ایک نظام زیرعمل ہے۔ لیکن جنرل وی کے سنگھ کے حالیہ سکینڈل کو دیکھا جائے‘ تو پتہ چلتا ہے کہ اب بھارتی فوج کے جنرل بھی سیاست میں باقاعدہ دخل اندازی کر رہے ہیںاور سازشی طریقہ کار اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ جنرل وی کے سنگھ پر الزام ہے کہ انہوں نے ریاست جموں کشمیر میں ‘ ریاستی پالیسیوں سے علیحدہ کسی سیاسی مقصد کے لئے ریاست کے ایک وزیر کو رقم فراہم کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کامقصد وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی حکومت کو گرانا تھا۔ جنرل سنگھ نے اس کی تردید کی ہے۔ البتہ یہ مان گئے کہ یہ رقم ریاست میں استحکام پیدا کرنے کی غرض سے فراہم کی گئی تھی اور یہ غیرمعمولی بات نہیں۔ آزادی کے بعد فوج ایسا کرتی رہی ہے۔ اس الزام کے جواب میں کہ انہوں نے فوج کے فنڈز میں سے یہ رقم خفیہ طور پر نکالی۔ جنرل سنگھ نے کہا کہ ایسا کرنا کوئی بے ضابطگی نہیں۔ فوج کے پاس اس چیز کی نگرانی کا نظام موجود ہے کہ یہ رقم کہاں استعمال ہو رہی ہے؟ جنرل پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے فوج کے سربراہ کی حیثیت میں ریاستی حکومت تبدیل کرانے‘ اعلیٰ سرکاری حکام کی بات چیت سننے اور جنرل بکرم سنگھ کو فوج کا سربراہ بننے سے روکنے کی خاطر‘ اپنی ہی نگرانی میں فوج کا ایک خفیہ ادارہ استعمال کیا تھا۔ جسے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بند کر دیا گیا۔ یہ الزامات فوج کی ایک خفیہ رپورٹ میں عائد کئے گئے۔ اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ نے اس رپورٹ کو حاصل کر کے‘ حقائق عوام کے سامنے پیش کر دیئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل سنگھ کھل کر بی جے پی کا حصہ بن چکے ہیں اور ان دنوں نریندرمودی کے ساتھ سیاسی تقریبات میں حصہ لے رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی بھارتی فوج میں اس حد تک اثر انداز ہو چکی ہے کہ اس کا سربراہ بھی وردی میں رہ کر درپردہ اس کی حمایت کرتا ہے اور وردی اتارنے کے بعد کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ جس فوج کا سربراہ کسی جماعت کے لئے درپردہ کام کرتا ہو‘ اس کے اندر مذکورہ جماعت کے اثرات کتنی دور تک گئے ہوں گے؟ بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بھارت کا یہ دعویٰ کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے اور حکومتی امور سیکولر طریقے سے چلائے جا رہے ہیں‘ اب قابل یقین نہیں رہ گیا۔ بھارتی فوج میں بھی سیاسی اور مذہبی اثرات پھیل چکے ہیں اوروہ انتہاپسند سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطوں میں ہے ۔ بی جے پی کی ساکھ کو دیکھا جائے تو اس کے بنیادی کیڈر‘ وہ تشدد پسند مذہبی گروہ ہیں‘ جو مسلم دشمنی میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ان میں راشٹریہ سیوک سنگھ‘ وشواہندوپریشد اور ان سے بھی زیادہ متشدد مسلح گروہ ‘ سب شامل ہیں۔ بھارت میں اب مذہبی انتہاپسندی اور درپردہ بھارتی فوج کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں کے جارحانہ رویوںکی وجہ سے‘ بھارتی ریاست کا سیکولر چہرہ اب پس منظر میں چلا جائے گا۔ پاکستان پہلے ہی مذہبی انتہاپسندی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ بھارت میں انتہاپسندی کی لہر جس طرح آگے بڑھے گی‘ اس سے پاکستان میں انتہاپسندی کومزید تقویت حاصل ہو گی اور اس طرح پورا برصغیر مذہبی انتہاپسندی کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ شاید قدرت نے اسی دن کے لئے دونوں کو ایٹمی طاقت بنا دیا تھا۔ ریاستی امور کو چلانے والے کتنے ہی جنونی اور پاگل کیوں نہ ہو جائیں؟ ایٹمی اسلحہ ان کے ہوش ٹھکانے لگانے کے کام آئے گا۔ کوئی کتنا ہی وحشی کیوں نہ ہو جائے مگر جب اسے یہ خیال آئے گا کہ تباہی کا عمل شروع ہو گیا‘ تو وہ خود بھی باقی نہیں رہے گا‘ خودکشی کی راہ پر چلنا آسان نہیں رہتا۔ دونوں طرف ہی مکمل تباہی کا یقین ہو جائے تودیتانت جنم لیتا ہے۔ راستہ کمپنی بہادر کا ہو یا مذہبی انتہاپسند حکمرانوں کا۔ پاکستان اور بھارت کے لئے حالت جنگ سے نکلنا ضروری ہو گیا ہے۔