تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود فرماتے ہیں ’’پاکستان‘ امریکہ کا دوست اور اس کا نظام کافرانہ ہے۔ اس کے ساتھ جنگ جاری رہے گی۔‘‘ انہوں نے حکومت پاکستان کو مذاکرات کے طور طریقے بتاتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لئے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد حکومت نے مذاکرات میڈیا کے حوالے کر دیئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کا رسمی اعلان ہوتا اور وہ مذاکرات کے لئے رسمی جرگہ بھجوا دیتے۔ ہم میڈیا کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔ نہ حکومتی شرائط میڈیا سے سننا چاہتے ہیں اور نہ اپنی شرائط میڈیا کو دینا چاہتے ہیں۔‘‘ جو لوگ طالبان سے مذاکرات کے لئے بیتاب ہیں‘ ان سے اختلاف کرنے والے جب طالبان کے طرزعمل پر کوئی تبصرہ کرتے ہیں‘ انہیں فوری طور پر امریکہ کا ایجنٹ اور پاکستان کا دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن طالبان کی طرف سے کچھ بھی ہو جائے‘ ان کے پاکستانی پرستاروں کی عقیدت برقرار رہتی ہے۔ حکیم اللہ محسود کے اس تازہ بیان کے بعد‘ طالبان کے پرستاروں کا کیا خیال ہے؟ وہ تو مذاکرات کے بعد بھی جنگ روکنے پر تیار نہیں۔ ان کی نظر ہمارے کافرانہ نظام پر ہے‘ جس کے خلاف طالبان بہرحال جنگ جاری رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ میں تو مسلسل عرض کر رہا ہوں کہ طالبان کا ہدف دوچار شہر‘ چند مساجد یا بازار نہیں‘ ان کی نظر پورے پاکستان پر ہے۔ جب ہم یہ کہیں گے کہ پاکستان اسلام کے لئے بنایا گیا‘ تو پھر دنیا کے ہر مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہمارے ملک میں آ کر حقیقی اسلام نافذ کرے۔ چونکہ ہم ایسا نہیں کر پائے اور ابھی تک اسلام کے لئے بنائے گئے ملک میں کافرانہ نظام چلا رہے ہیں‘ اس لئے طالبان یا کسی بھی ایسے گروہ کو یہ حق حاصل ہے کہ جس طرزفکر کو وہ اسلام سمجھتا ہے‘ اس کے لئے جنگ کرے اور ہمارا کافرانہ نظام ختم کر کے‘ اپنا اسلام نافذ کرے۔ ہمارے حکمران اور کافرانہ نظام کے حامی دیگر لوگ ‘اگر طالبان کو محض ریاست کا باغی سمجھتے ہیں‘ تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ وہ ہمیں نہ تو مسلمان مانتے ہیں اور نہ ہمارے نظام کو اسلامی۔ جب تک ہم طالبان کی شریعت اور ان کا اسلام تسلیم کر کے‘ اس کے تحت زندگی نہیں گزارتے‘ اس وقت تک طالبان کا جہاد جاری رہے گا۔ اسلامی ملک کو چلانے کا حق انہی لوگوں کو ہے‘ جو حقیقی اسلام پر یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان میں حکومت بنانے کا حق بھی انہی کا ہے‘ جو کہ طالبان ہیں۔ مذاکرات کا ایجنڈا‘ صرف طالبان طے کریں گے۔ پاکستان کو یہ اختیار حاصل نہیں ہو گا کہ وہ اپنی طرف سے کوئی ایجنڈا پیش کرے۔ چونکہ ہم اپنے آئین کی بات کرتے ہیں۔ وہ اسے کافرانہ نظام سمجھتے ہیں۔ ایسی صورت میں مذاکرات صرف اس بات پر ہو سکتے ہیں کہ ہم ‘ طالبان کا اسلام قبول کر کے‘ اقتدار ان کے سپرد کر دیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے‘ تو پھر ہمیں جنگ کے لئے تیار رہنا چاہیے۔اگر کسی کے ذہن میں کوئی غلط فہمی ہے‘ تو اسے حکیم اللہ محسود کا نیا انٹرویو پڑھنے کے بعد یہ جان لینا چاہیے کہ طالبان کیا چاہتے ہیں؟ وہ فضول باتوں پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ حکومت کی طرف سے اب تک جو بیانات اور تجاویز آئی ہیں‘ انہیں حکیم اللہ نے ایک ہی لفظ میں اڑا کے رکھ دیا ہے۔’’سنجیدہ۔‘‘ انہوں نے فرمایا ’’طالبان سنجیدہ مذاکرات کے قائل ہیں۔ اگر مذاکرات کی سنجیدہ کوشش ہوئی‘ تو وہ مذاکرات کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی حکومتی جرگہ‘ ہم سے مذاکرات کے لئے آئے گا‘ تو ہم اسے مکمل تحفظ فراہم کریں گے۔‘‘ اے پی سی کی مشترکہ قرارداد سے لے کر‘ مختلف ذرائع سے رابطے قائم کرنے کے لئے حکومت نے جو کچھ کیا‘ وہ کوئی سنجیدہ کوشش کہلانے کے لائق نہیں؟ حکومتی وزیر جو مسلسل یہ کہتے آ رہے ہیں کہ طالبان کے ساتھ رابطہ ہو چکا ہے‘ مذاکرات کے انتظامات ہو رہے ہیں یا پھر ہم جو خبریں پڑھتے ہیں کہ علمائے کرام کا ایک وفد طالبان سے رابطے کے لئے روانہ ہو گیا ہے‘ یہ ساری باتیں جھوٹ کے پلندے ہیں؟ حکیم اللہ محسود نے صاف کہا ہے کہ’’ ان سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ وہ براہ راست جرگہ بھیجے۔ ہم اس کے تحفظ کا انتظام کر دیں گے۔ ‘‘حکومت سمیت ہم سب جانتے ہیں کہ وہ وزیرستان کے اندر بیٹھے ہیں۔ بی بی سی کے جس نمائندے نے حکیم اللہ محسود سے انٹرویو کیا‘ وہ لکھتا ہے کہ’’ ڈرون طیارے ہمارے سروں پر پرواز کر رہے تھے۔ ایک دفعہ تو ڈرون بہت نیچے آ گیا۔ ہم ایک احاطے میں بیٹھے تھے۔ وہاں قبائلی اپنے جھگڑوں پر بات چیت کرنے آئے ہوئے تھے۔ حکیم اللہ روزانہ ان کے معاملات نمٹاتے ہیں اور پھر طالبان کی کارروائیوں اور حملوں کے بارے میں احکامات جاری کرتے ہیں۔ ‘‘اس علاقے میں حکومت پاکستان کی عملداری نہیں ہے۔ وہاں پر ہماری حکومت کے نمائندوں کو تحفظ دینے کا اعلان‘ حکیم اللہ محسود کرتے ہیں۔آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اسلام آباد والے‘ اپنے بارے میں کیا سمجھتے ہیں؟ اور طالبان عملی طور پر کیا انتظامات کر کے بیٹھے ہیں؟ واضح طور پر وہ اس علاقے کو اپنی ریاست سمجھتے ہیں۔ وہاں اپنی حکومت چلاتے ہیں۔ وہاں کے عوام کو انصاف فراہم کرتے ہیں۔ ہم مذاکرات کرنا چاہتے ہیں‘ تو اس حقیقت کو مان کر چلنا پڑے گا کہ طالبان نہ تو ریاست کے باغی ہیں اور نہ ہی کافرانہ نظام والے ملک پر یقین رکھتے ہیں۔ جس علاقے پر ان کا قبضہ ہے‘ وہاں ان کا نظام نافذ ہے اور باقی ماندہ پاکستان میں‘ وہ اپنا نظام نافذ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ اب جو لوگ مذاکرات کے لئے جانا چاہتے ہیں‘ وہ اپنے بھیجنے والوں سے پوچھیں کہ کیا وہ طالبان کے مطالبات مان سکتے ہیں؟ اور کیاانہیں مذاکرات کی ذمہ داریاں دینے والے کافرانہ نظام کو ختم کر کے‘ طالبان کی شریعت نافذ کرنے پر تیا ر ہیں؟ بات یہیں پر ختم نہیں ہو گی۔ جب حکومت کافرانہ نظام چھوڑ کے‘ طالبان کو نفاذ شریعت کا اختیار دے گی‘ تو حکومت بھی انہی کے سپرد کرنا پڑے گی۔ کیونکہ طالبان کے نزدیک‘ ہمارے ارباب اختیار شریعت نافذ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اگر ہم ایک چھوٹے سے مسلح گروہ کی خدمت میں اپنا ملک پیش کر کے‘ عوام کی قسمت ان کے سپرد کرنے پر آمادہ ہیں‘ تو سوال پیدا ہو گا کہ کیا انہیں عوام نے اپنی خودمختاری سے دستبردار ہونے کا اختیار دیا ہے؟ پاکستان یہاں پر بسنے والے تمام مسلمانوں نے قائد اعظمؒ کی قیادت میں حاصل کیا تھا۔ ہمارا یقین اس پر ہے کہ اس ملک میں حکومت کو منتخب کرنے کا اختیار صرف عوام کے پاس ہے۔ حکومت ‘ عوام کے دیئے ہوئے اختیار کو کسی دوسرے کے حوالے نہیں کر سکتی۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ وہ نظم و نسق چلانے کی اہل نہیں‘ تو وہ عوام کی امانت اسے واپس دے سکتی ہے‘ کسی دوسرے کے سپرد نہیں کر سکتی۔ جو کچھ طالبان مانگ رہے ہیں‘ وہ ریاست پر حکومت ہے اور پاکستانی عوام کے ووٹوں سے بنی ہوئی حکومت‘ کسی دوسرے کے حوالے نہیں کی جا سکتی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ طالبان کے عزائم ‘ منصوبوں اور پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے‘ طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ حکیم اللہ محسود بالکل صحیح کہہ رہے ہیں کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں اور نہ ہی اسے یہ معلوم ہے کہ مذاکرات شروع کرنے کے طور طریقے کیا ہوتے ہیں؟ مناسب یہی تھا کہ اے پی سی طلب کرنے سے پہلے‘ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ایجنڈا تیار کرتی اور اسے کانفرنس کے شرکاء کے سامنے پیش کر کے منظوری حاصل کرتی اور پھر اس ایجنڈے کی روشنی میں طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کی جاتی۔ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ حکومت نے بغیر کسی ایجنڈے کے مذاکرات کا دروازہ کھول کر‘ اپنے آپ کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اب وہی شرائط پیش کر رہے ہیں۔ وہی مطالبات بتا رہے ہیں اور وہی سرکاری وفد کو اپنے زیرکنٹرول علاقے میں بلا کر اسے تحفظ کا یقین دلا رہے ہیں۔حکومت نے 4مہینوں میں واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی سمت میں پیش عملی کرنے کے قابل نہیں۔ اس نے اپنے عوام کو دہشت گردی سے بچانے کے لئے معاملات کو طے کرنے کا اختیار طالبان کے سپرد کر کے‘ ظاہر کر دیا ہے کہ وہ خود قوت فیصلہ سے محروم ہے۔ جبکہ طالبان قدم قدم پر ثابت کر رہے ہیں کہ وہ اپنا ایجنڈا بھی رکھتے ہیں اور اس پر عملدرآمد کے لئے طاقت کے استعمال کا عزم بھی۔ وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب سے چند منٹ پہلے وہ پرانی انارکلی لاہور میں ایک تازہ دھماکہ کر چکے ہیں‘ جس میں 2افراد شہید ہونے کی خبر ہے۔ طالبان نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ مذاکرات میں سمجھوتہ ہونے کے بعد بھی وہ دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھیں گے اور جب تک ڈرون حملے بند نہیں ہوتے‘ ان کی کارروائیاں بند نہیں ہوں گی۔ دہشت گردی کو روکنا ہے‘ تو پاکستان کی حکومت طالبان کے حوالے کرنا ہو گی اور امریکہ کو ڈرون حملوں سے روکنا ہو گا۔ کیا ہمارے ارباب اقتدار یہ دونوں کام کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں‘ تو آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء نے کیا سوچ کر مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا؟