"NNC" (space) message & send to 7575

تشویشناک سرگرمیاں

امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے گزشتہ دورہ افغانستان میں میزبان حامد کرزئی سے طویل مذاکرات کئے۔ ان میں جو اہم ترین مسئلہ زیربحث رہا‘ وہ افغانستان کے دفاع کا تھا۔ حامد کرزئی نے بتایا کہ مذاکرات میں امریکہ اور افغانستان کے درمیان ایک ’’ڈیل ‘‘فائنل ہو گئی ہے۔ افغان پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد اسے حتمی شکل دے دی جائے گی۔ میں ڈیل کا لفظ اس وجہ سے لکھ رہا ہوں کہ ڈیل اور معاہدے یا ٹریٹی میں فرق ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور حامد کرزئی نے واضح طور پہ کہا کہ یہ ڈیل ہے‘ ٹریٹی نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ امریکہ نے افغانستان کو یہ ضمانت دی ہے کہ بیرونی خطرے کی صورت میں امریکہ‘ افغانستان کو مدد دینے کا پابند ہو گا۔ حامد کرزئی نے بڑے فخر سے بتایا کہ واشنگٹن نے گارنٹی دے دی ہے کہ بیرونی جارحیت کی صورت میں امریکہ‘ افغانستان کے دفاع کے لئے آئے گا۔ خصوصاً پاکستان کی طرف سے دراندازی (incursion) کی صورت میں۔ الفاظ کی ہیراپھیری کر کے‘ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسے دفاعی معاہدہ نہ کہا جائے۔ لیکن بنیادی طور پر یہ دفاعی معاہدہ ہے اور پاکستان کی طرف سے جارحیت کی صورت میں امریکہ‘ افغانستان کی مدد کے لئے آئے گا۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کے خلاف شریک جنگ ہو جائے گا۔ پاکستان کے لئے یہ ڈیل یا معاہدہ‘ خطرے کا سگنل ہے۔ سلامتی کے پاکستانی ماہرین یقینی طور پر اس معاہدے کے مقاصد اور مضمرات کا جائزہ لے رہے ہوں گے۔ کیونکہ یہ معمولی واقعہ نہیں۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کے لئے یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے فوجی قبضے سے زیادہ تشویشناک خبر ہے۔ کیونکہ اس بار امریکہ براہ راست پاکستان کے ساتھ امکانی جنگ میں ملوث ہونے کی پابندی قبول کررہا ہے۔ انقلابات ہیں زمانے کے۔ ایک وقت تھا کہ امریکہ‘ پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں فریق تھا اور آج وہ پاکستان کے خلاف ایک دفاعی معاہدے میں شریک ہونے جا رہا ہے۔ ہمارے دفاعی ساتھی کا‘ ہمارے خلاف جارحانہ معاہدے میں حصے دار بن جانا معمولی واقعہ نہیں۔ عالمی مبصرین بہت دنوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ ایک نئی جنگ کی ضرورت محسوس کر رہا ہے۔ شام کی جنگ میں کودنے کی پوری تیاری ہو چکی تھی۔ لیکن روسی صدر کی فوری اور موثر مداخلت کے نتیجے میں‘ امریکہ نے اس جنگ میں کودنے سے عین وقت پر گریز کر لیا اور اس کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ شام میں امریکی مداخلت کی صورت میں‘ تیل کے ذخیروںکو لاحق خطرات اور خطے میں جنگ کے شعلے پھیلنے کے نتائج پر نظرثانی کی اور پیوٹن کے ساتھ کوئی بامعنی انڈرسٹینڈنگ کر کے‘ جنگ کو ٹال دیا۔ یہ انڈرسٹینڈنگ کیا ہے؟ یہ تو کسی کو معلوم نہیں۔ لیکن روسی سٹریٹجی کو سمجھنے والے کہہ رہے ہیں کہ روس ‘ امریکہ کو جس خطے میں جنگ چھیڑنے کی ترغیب دے رہا ہے‘ وہ پاکستان ہو سکتا ہے اور افغانستان کے ساتھ ہونے والا نیا معاہدہ‘ اسی سلسلے کی کڑی نظر آتا ہے۔ آج ہی کے اخبارات میں دو مزید انتہائی اہم خبریں اسی حوالے سے قابل غور ہیں۔ ایک بھارت اور امریکہ کے مابین‘ پاکستان کے اندرموجود دو کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے پر اتفاق رائے اور دوسری یہ رپورٹ ‘ جس میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو‘ افغانستان میں تخریب کاری کی تربیت دی جا رہی ہے۔ پاکستان اس معاملے میں پہلے بھی مسلسل شکایت کر رہا ہے کہ بلوچستان میں تخریب کاری کی حوصلہ افزائی بھارت کی طرف سے ہو رہی ہے اور وہ اس مقصد کے لئے افغانستان کو استعمال کرتا ہے۔ پاکستان کے دو وزرائے اعظم‘ بھارت کو اس معاملے میں شواہد مہیا کر چکے ہیں۔ لیکن بھارت ہمارے احتجاج کو قبول نہیں کرتا اور بلوچستان میں ملوث ہونے سے مسلسل انکار کر رہا ہے ۔لیکن امریکہ کے ساتھ اس کا یہ تازہ اتفاق رائے‘ جارحیت کے واضح عزائم کی نشاندہی کرتا ہے۔ لشکرطیبہ‘ پاکستان میں ایک کالعدم تنظیم ہے۔ ایک عرصہ ہوا اس پر پابندی لگائی جا چکی ہے اور اس کی سرگرمیاں غیرقانونی ہیں۔ لیکن بھارت نے اس کالعدم تنظیم کے سابق سربراہ حافظ سعید کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے اور اب اس نے امریکہ کو بھی اپنا ساتھی بنا لیا ہے۔ گویا اب اگر اس تنظیم کے خلاف پابندیاں سخت کرنے کی مشترکہ کارروائی ہوتی ہے‘ تو ظاہر ہے کسی نہ کسی انداز میں ہدف‘ پاکستان کے اندر ہو گا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کالعدم لشکر طیبہ کے خلاف اقدامات کئے جائیں اور ان سے پاکستان محفوظ رہے۔ ان اقدامات کی صورت کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ لشکر طیبہ پر پابندیوں کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نام تو مذکورہ تنظیم کا لیا جائے اور پابندیوں کے اثرات پاکستان پر پڑیں۔ مثلاً کالعدم لشکرطیبہ پر مالی پابندیاں سخت کی جائیں اور متاثر پاکستان ہو۔ اسی طرح حقانی گروپ کے مراکز بھی پاکستان میں ہیں۔ امریکہ ‘ القاعدہ او ر افغانستان کے اندر دہشت گردی کرنے والوں کے نام پر پہلے ہی پاکستان میں ڈرون حملے کر رہا ہے۔ یہ کھلی جارحیت ہے۔ اس کا جواب دینے سے پاکستان کترا رہا ہے۔ اب حقانی گروپ کے خلاف کارروائی کی گئی‘ تو پاکستان کے مزید کچھ علاقے ڈرون حملوں کی زد پر آ سکتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی چھاپہ مار کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔ یہ ڈرون حملوں سے آگے کا سلسلہ ہو گا۔ جس میں جنگ کے امکانات موجود ہوں گے۔ بھارت اس کھیل میں ‘ امریکہ کا اتحادی بن چکا ہے اور یہ نہایت ہی معنی خیز فیصلہ ہے۔پاکستان کے خلاف ‘ افغان سرزمین سے دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے کا سلسلہ مدتوں سے جاری ہے اور امریکہ کو افغانستان پر قبضہ کئے قریباً 10سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اس دوران یقینی طور پر پاکستان کے خلاف تیار کئے گئے دہشت گردوں کی پشت پناہی میں امریکہ یقینی طور پر بھارت کا مددگار رہا ہو گا۔ البتہ ان کا یہ تعاون منظر عام پر نہیں آیا۔ تعاون کا باقاعدہ سمجھوتہ ہو جانے کے بعد‘ اب یہ دونوں ملک حقانی گروپ کے خلاف کارروائی کے نام پر کھلے بندوں پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کریں گے۔ دوسری طرف جائیں تو کشمیر کی صورتحال معمول پر نہیں آ رہی۔ ماہ رواں میں ایک دن بھی ایسا نہیںہے ‘ جب لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں نہ ہوتی ہوں۔ بھارت اس سلسلے کو اہتمام سے جاری رکھے ہوئے ہے اور کشیدگی میں کمی لانے کی کسی کوشش میں حصے دار نہیں بن رہا۔ لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کا سلسلہ جاری رکھ کر‘ بھارت کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ ہو سکتا ہے آنے والے عام انتخابات میں‘ حکومت کوئی فائدہ اٹھانا چاہتی ہو۔ ظاہر ہے یہ فائدہ پاکستان کے خلاف جذبات بھڑکا کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مقاصد اس سے زیادہ گہرے بھی ہو سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے لائن آف کنٹرول پر مسلسل سلگائی جانے والی آگ کو کسی مناسب لمحے پر بھڑکانے کی تیاری ہو۔ اگر لائن آف کنٹرول پر آگ بھڑکی‘ تو افغانستان کی طرف سے بھی بھارت اور امریکہ کوئی مشترکہ کارروائی کر سکتے ہیں۔ ان دو بڑی طاقتوں کی طرف سے‘ پاکستان کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ تیز ہوا‘ تو اس کے بڑھنے کے امکانات میں اضافہ ہو جائے گا اور عین ممکن ہے کہ جنگ کی صورتحال پیدا ہو جائے۔پاکستان پہلے ہی توانائی اور معیشت کے بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ ہماری کرنسی کی قدر تیزی سے گر رہی ہے۔ مقامی اور بیرونی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں۔امن و امان کی صورتحال پہلے ہی کنٹرول میں نہیں۔ بیرونی کارروائیوں سے افراتفری میں مزید اضافہ ہو گا اور حکومتی کنٹرول کمزور پڑجائے گا۔ ہم اگر جنگ سے بچ بھی نکلیں اور صرف جنگ کی صورتحال پیدا کر دی جائے۔ تب بھی پاکستان یہ دبائو برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ہم امن کی امید میں بھارت کی نازبرداریاں کر رہے ہیں اور امریکہ کو منانے میں بھی لگے ہیں۔ مگر یہ دونوں ملک ‘ پاکستان کے بارے میں عملاً کیا کچھ کرتے ہیں اور کیا مشترکہ تیاریاں جاری ہیں‘ ان پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔جنگ میں ہم ان دو طاقتوں کی مشترکہ صلاحیتوں سے ٹکر نہیں لے سکتے۔ لیکن حکمت عملی اور ڈپلومیسی کو حرکت میں لا کر‘ تصادم سے بچنے کی تدبیریں تو کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں