گزشتہ کالم میں آپ دیکھ چکے ہوں گے کہ طالبان محض دہشت گرد تنظیم نہیں ‘ اس کے پیچھے ایک سیاسی‘ سماجی اور مذہبی فلسفہ ہے اور اس کے حامیوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس بڑھتی ہوئی حمایت کو منظم کرنے کے لئے‘ مساجد اور مدارس کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک موجود ہے‘ جو فی الحال سیاسی اور انتخابی میدان میں نظر نہیں آتا۔ لیکن وہ سیاسی عمل سے الگ بھی نہیں ہے۔ میں نے کل بھی عرض کیا تھا کہ بیوروکریسی‘ سیاستدانوںاور معیشت پر قابض لوگوں کی کرپشن‘ بدانتظامی اور لوٹ مار پر مبنی معیشت نے ‘ موجودہ نظام پر عوام کا یقین متزلزل کر دیا ہے۔ رائج الوقت نظام سے اکتائے ہوئے اور بیزار لوگ‘ اب صرف نام کی نہیں‘ حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر جو آزادیاں یہاں میسر ہیں‘ وہ صرف طاقتوروں‘ لوٹ مار کرنے والوں اور کرپٹ لوگوں کے لئے ہیں۔ غریب آدمی ان تمام آزادیوں سے محروم ہے‘ جو موجودہ نظام فراہم کرتا ہے۔ انصاف سے ہر سطح پر محرومی کے نتیجے میں عوام کے اندر جوابی انتہاپسندی پیدا ہو رہی ہے۔ ہم طالبان اور مذہبی جماعتوں کو توانتہاپسند کہتے ہیں لیکن غور سے دیکھا جائے تو ہمارے ریاستی نظام کو چلانے والے کرپٹ لوگ‘ اخلاقیات سے محروم طرزعمل اور لاقانونیت میں انتہاپسند بن چکے ہیں۔ اس انتہاپسندی کا جواب بھی‘ انتہاپسندی ہے۔ سیاسی جماعتیں‘ اعتبار اور وقار‘ دونوں سے محروم ہو چکی ہیں۔ انتخابی نظام محض ایک فراڈ ہے۔ حالیہ انتخابات میں اس راز کا پردہ چاک ہو چکا ہے اور ہر نئے دن انتخابی دھاندلیوں کا گھنائونا چہرہ بے نقاب ہو رہاہے۔ ستر اسی ہزار ووٹوں میں پانچ چھ ہزار ووٹ اصلی نکل رہے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انتخابات میں عوام کی حقیقی رائے کتنی ہوتی ہے اور دھوکے بازی‘ جعل سازی اور فراڈ کا کتنا عمل دخل ہوتا ہے؟ یہ بات کم و بیش روزانہ ثابت ہوتی ہے کہ انتخابی نتائج کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ عوام یہ بات پہلے سے جانتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب قانونی چھان بین سے ثابت شدہ حقائق منظرعام پر آ رہے ہیں۔ عوام جو متبادل نظام چاہتے ہیں‘ وہ حد سے زیادہ ستائے ہوئے انسانوں کا ردعمل ہے۔ طالبان اسی ردعمل کی ایک شکل پیش کرتے ہیں۔ لیکن جب انہیں اور ان کے ہمدرد علمائے کرام کو یہ اندازہ ہو گا کہ وہ بندوق کی بجائے‘ عوامی حمایت کے بل بوتے پر اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں‘ تو فطری طور پر ان کا رحجان اسلحہ کی بجائے‘ عوامی طاقت پر انحصار کی طرف ہو جائے گا۔ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں‘ جب دہشت گرد تنظیموں نے ہتھیار استعمال کرنے کی بجائے سیاسی عمل کا حصہ بن کر اپنے مقاصد حاصل کئے۔ مجھے فی الحال حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن جس طریقے سے بات آگے بڑھ رہی ہے‘ مجھے اس میں علماء کا کردار بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ طالبان کی طرف سے مذاکرات کی ذمہ داری علماء کے سپرد کر دی جائے۔ میں ان کی سماجی طاقت اور تنظیم دونوں کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کر چکا ہوں۔ جب ایک مسلک کے مذہبی لوگ‘ سیاسی طاقت حاصل کرنے لگیں گے‘ تو پھر دوسرے مسالک کی حمایت حاصل کرنا‘ ان کی ضرورت بن جائے گا۔ جسے طاقت اور اختیار حاصل کرنے کے امکانات واضح طور سے نظر آ رہے ہوں‘ وہ عوام کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اپنا حامی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب یہ کوشش شروع ہو گی‘ تو مختلف مسالک کے لوگوں میں باہمی نفرت کی جگہ اتحاد اور یکجہتی کے رحجانات پیدا ہوں گے اور اس طرح فرقہ ورانہ منافرت کی جگہ‘ فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی ضرورت محسوس کی جانے لگے گی۔ جو لوگ آج کے دہشت گرد ہیں‘ وہی کل امن کے محافظ بھی بن سکتے ہیں۔ بھارت کی ایک دو ریاستوں میں ایسا ہو چکا ہے کہ جنگلوں کے اندر رہ کر گوریلا جنگیں لڑنے والوں کو جب عوامی حمایت کے ساتھ اقتدار ملنے کے امکانات نظر آئے‘ تو وہ ہتھیار پھینک کر جمہوری عمل کا حصہ بن گئے اور بعد میں انہوں نے ہی حکومتیں بنائیں۔ لاطینی امریکہ میں آپ کو کئی ملک ایسے ملیں گے‘ جہاں کل کے دہشت گرد آج کے حکمران ہیں۔ اگر آپ فرقہ ورانہ منافر ت کی جڑیںتلاش کریں تو آپ کو ہمیشہ ان کے پیچھے عوام سے کٹے ہوئے اور غیرمقبول حکمرانوں کی سازشیں نظر آئیں گی‘ جو مختلف نظریات اور تصورات کو استعمال کر کے طرح طرح کی لڑائیاں شروع کراتے ہیں۔ جو لسانی بھی ہوتی ہیں۔ علاقائی بھی اور فرقہ ورانہ بھی۔ لیکن عوام کی اکثریت ‘ منافرت کا شکار ہونے والے معاشروں کو پسند نہیں کرتیں۔ پاکستان میں گزشتہ 30 برس سے فرقہ ورانہ منافرتوں کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن عوام کی اکثریت آج بھی کسی فرقہ ورانہ منافرت کی لپیٹ میں نہیں آئی۔ آج بھی گنے چنے لوگ ہی عقیدے اور مسلک کی بنا پر دوسروں کی جان لیتے ہیں۔ عوام اس عمل سے آج بھی دور ہیں۔جن نفرتوں کی بنیاد فرقہ واریت ہے‘ انہیں ختم کرنے میں علماء بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میں نے طالبان اور علمائے کرام کے درمیان جن رابطوں کا حوالہ دیا ہے‘ یہی آگے چل کر ہمارے مسائل کے حل کی راہیں بھی نکالیں گے۔ ملیٹینٹ ونگ ہمیشہ بڑا مختصر ہوتا ہے جبکہ پولیٹیکل ونگ بہت بڑا۔ یہی ونگ آگے چل کر عوامی تائید و حمایت کے دائرے کو پھیلاتا ہے اور جیسے جیسے عوامی حمایت کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے‘ ملی ٹینٹ ونگ کی ضرورت ختم ہونے لگتی ہے اور آخر کار ان کا وجود بھی تحلیل ہو جاتا ہے۔ یہ سب آسانی سے نہیں ہوتا۔ اس کے لئے بڑا طویل عمل درکار ہے۔ اس کے دوران پرامن معاشرے میں شرکت سے انکاری عناصر کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور عموماً یہ مقابلہ انہی کے مسلح ساتھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں جتنی افراط سے اسلحہ پھیل چکا ہے اور عوام کے اندر رائج الوقت نظام سے جو نفرت پیدا ہو چکی ہے‘ اس کا نتیجہ تو ایک نہ ایک دن برآمد ہو کے رہے گا۔اگر غیرمنظم عوام بغاوت کریں‘ تو انارکی پیدا ہوتی ہے‘ جو ریاست اور معاشرے کو کنٹرول کرنے والے اداروں کو توڑ پھوڑکے رکھ دیتی ہے۔ ہم انارکی کی ابتدائی جھلکیاں دیکھ رہے ہیں۔ بیشتر علاقوں میں پولیس کا ادارہ جو امن و امان کو برقرار رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے‘ بڑی حد تک کمزور پڑ چکا ہے۔ کراچی میں اسے اپنے فرائض موثر طریقے سے ادا کرنے کے لئے رینجرز کی مدد لینا پڑی۔ بلوچستان میں عرصہ ہواپولیس کا ادارہ غیرموثر ہو چکا ہے۔ خیبرپختونخوا میں یہ عمل تیزی سے جاری ہے۔ وہاں کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں معاشرے اور ریاست کے باغی جب چاہتے ہیں‘ واردات کر گزرتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے علاقوں میں پولیس اور ڈاکوئوں کے مقابلوں کی جو خبریں آتی ہیں‘ ان میں عموماً پولیس کی بے بسی یا خوف صاف دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ ایک وقت آئے گا‘ جب پولیس کو اپنی مدد کے لئے زیادہ علاقوں میں رینجرز یا کسی بھی طرز کی نیم فوجی کمک کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس صورتحال میں عوام جس تبدیلی کے لئے بدامنی کی طرف مائل ہوتے ہیں‘ وہ تبدیلی کوئی دوسری منظم طاقت ہی برپا کر سکتی ہے۔ غیرریاستی اداروں میں سب سے بڑی تنظیم‘ مدارس اور مساجد مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔افغانستان میں اس کا تجربہ ہو چکا ہے۔ اس ملک کا ریاستی ڈھانچہ انتہائی کمزور تھا۔ چنانچہ مدارس کے طلبا نے عام لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر‘ ایک تنظیم کھڑی کی اور غالب آتے چلے گئے۔ جب تک وہ حکومت میں رہے‘ انتہائی سخت گیر اور بے رحم تھے۔ لیکن آج ملا عمر کی طرف سے جو خیالات پیش کئے جا رہے ہیں‘ ان میں اعتدال نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ اگر کسی دن یہی تجربہ پاکستان میں دہرایا گیا‘ تو سخت گیری کا ابتدائی عرصہ انتہائی مختصر ہو گا۔ کیونکہ پاکستانی معاشرے کی تہذیبی بنیادیں افغان معاشرے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ہمیں اگلے چند برسوں کے دوران تبدیلی کے بڑے بڑے تھپیڑوں کا سامنا کرنا ہو گا اور ان تھپیڑوں میں طالبان اور مختلف علماء کی تنظیموں کا کردار انتہائی اہم ہو گا اور وہ تبدیلی کے عمل میں نمایاں کردار ادا کریں گے۔جس دن علمائے کرام کے توسط سے طالبان مذاکراتی عمل کا حصہ بنیں گے‘ وہ ان کے لئے ہتھیاروں اور دہشت گردی کو الوداع کہنے کا دن ہو گا۔ہماری تاریخ میں ایسا کوئی تجربہ موجود نہیں‘ جس پر آنے والے حالات کے اندازے کئے جا سکیں۔میں نے جو دھندلا سا خاکہ بنانے کی کوشش کی ہے‘ وہ صرف قیاس آرائیوں اور دھندلی سوچوں پر مبنی ہے۔(ختم شد)