تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آخر کار صبر کا دامن چھوڑ کر ‘ عوامی جذبات کی ترجمانی کر ہی دی۔ ورنہ انتخابات میں جو کچھ ہوا‘ اس کا سب سے بڑا نشانہ خود ان کی پارٹی بنی تھی اور ان کے نوجوان حمایتی اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے بے چین تھے لیکن قیادت کی طرف سے رہنمائی نہ ملنے کی بنا پر انہیں صبر کرنا پڑا۔ اس کے باوجود بہت سے مقامات پر ناراض نوجوان‘ سڑکوں پر آگئے تھے۔ لیکن عمران خان کی طرف سے کوئی واضح ایجنڈا نہ ملنے کی وجہ سے انہیں خاموش ہو جانا پڑا۔ عمران خان نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ’’الیکشن سے کئی ہفتے بعد تک‘ زیادہ طاقت رکھنے والی دافع درد دوائوں کے زیراثر‘ میں بڑے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا اور نہ ہی وسیع پیمانے پر دھاندلی کی تفصیلات جان پایا تھا۔ پوری طرح حواس بحال ہونے کے بعد ‘جب تفصیلات معلوم ہوئیں‘ تو میںنے قانونی طریقے اختیار کرتے ہوئے‘ اپنے امیدواروں کو اپیلیں دائر کرنے کا مشورہ دیا۔ میں چاہتا تھا کہ جمہوری نظام غیرمستحکم نہ ہو اور ناانصافیوں کی تلافی بھی ہو جائے۔ انصاف ملنے کی امیدیںمدہم ہونے لگی ہیں۔ دوسری طرف عوام کی تکلیفیں اور مایوسیاں دیکھ کر سوچ رہا ہوںکہ حالات جوں کے توں نہیں رہ سکتے۔ اگر اسی طرح چلتا رہا‘ تو ہمیں خود فیصلے کرنا پڑیں گے۔ ہم نے الیکشن مان لئے تھے مگر دھاندلی تسلیم نہیں کی تھی اور کہا تھا کہ ہم اس کے خلاف آخری حد تک جائیں گے۔اس وقت الیکشن ٹریبونل میں 400 اپیلیں سماعت کی منتظر ہیں۔ ہم یہ برداشت نہیں کریں گے کہ ماضی کی طرح دھاندلی سے منتخب ہونے والے‘ 5سال کی مدت پوری کر جائیں اور اپیلوں کے فیصلے نہ ہوں۔ ہمیں انصاف نہ ملا اور حکومت نے اپنا قبلہ درست نہ کیا‘ تو عوام سڑکوں پر نکل آئیں۔ تحریک چلائیں گے۔ لانگ مارچ بھی ہو گا۔ لوگ اتنی بڑی تعدادمیں باہر آئیں گے کہ کوئی ان کو روک نہیں سکے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے عوام اتنی بڑی تعداد میں نہیں نکلے ہوں گے‘ جتنے اب نکلیں گے۔ ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف ‘ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ بھی اتحاد کر سکتی ہے۔ ‘‘ عمران خان کے ان الفاظ میں‘ ایک نئے اور زوردار سیاسی طوفان کی آمد کا انتباہ ہے۔ میں گزشتہ چند ہفتوں سے اس طوفان کی آمد کے اندیشے ظاہر کر رہا ہوں۔ گزشتہ دونوں کالموں میں‘ میں نے عرض کیا تھا کہ اگر کوئی سیاسی تحریک ‘ عوامی جذبات و خواہشات کی ترجمانی کرنے کے لئے آگے نہ بڑھی‘ تو مہنگائی‘ کرپشن‘ لوٹ کھسوٹ اور ناانصافی سے تنگ آئے ہوئے عوام‘ انتہاپسندوں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے اور انہیں اس کی پروا نہیں ہو گی کہ موجودہ صورتحال سے نکالنے والے طالبان ہیں یا مذہبی انتہا پسند؟ وہ موجودہ حالات سے ہر قیمت پر نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے کالم میں واضح طور سے لکھا کہ 68 سرکاری اداروں کی جو لوٹ سیل چند ہفتوں کے اندر ہونے والی ہے‘ اس کے نتیجے میں ہزاروں مزید محنت کش اور وہائٹ کالر ملازمین بیروزگار ہو جائیں گے اور ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو گا کہ زندگی اور موت کی جنگ لڑنے کے لئے سڑکوں پر نکل آئیں اور میں یہ انتباہ بھی کر چکا ہوں کہ اگر حالات کے ستائے ہوئے عوام‘ قیادت کے بغیرسڑکوں پر نکل آئے‘ تو ملک میں انارکی پھیل جائے گی اور کوئی ایسا ریاستی ادارہ موجود نہیں جو اس پر قابو پا سکے۔ یوں لگتا ہے کہ عمران خان نے بھی واضح طور پر تشکیل پانے والے طوفانوں کی جھلک دیکھ لی ہے اور قیادت کا خلا پر کرنے کے لئے وہ اپنے آپ کو تیار کر رہے ہیں۔ سیاسی روایات کی روشنی میں دیکھا جائے‘ تو یہ فرض پیپلزپارٹی کو ادا کرنا چاہیے تھا۔ لیکن وہ گزشتہ انتخابی نتائج اور اپنے دو وزرائے اعظم کی کارکردگی سے اتنی مایوس ہے کہ میدان میں نکلنے سے کترا رہی ہے اور سچی بات ہے‘ اب اس کے کارکنوں میں وہ انقلابی جوش و خروش بھی باقی نہیں رہ گیا‘ جس کے لئے پیپلزپارٹی مشہور تھی۔ یوں لگتا ہے کہ اس پارٹی کی قیادت جدوجہد کا راستہ ترک کر کے‘ ہر حال میں حکمران طبقوں کا ساتھ دینے پر مصر ہے۔ ان حالات میں عمران خان ہی تبدیلی کی امیدیں پوری کر سکتے ہیں۔ یوں بھی ابھی تک تحریک انصاف جدوجہد کے امتحانوں سے بچتی ہوئی آگے بڑھی اور عمران خان کی شخصی مقبولیت کے بل بوتے پر ایک بڑی انتخابی طاقت بن کر سامنے آئی اور 1970ء کے بعد پہلی مرتبہ اتنی بڑی تعداد میں غیرروایتی ووٹروں کو گھروں سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوئی۔ لیکن نئے ووٹروں کو طرح طرح کے حربے اختیار کرکے‘ ووٹ ڈالنے سے محروم رکھا گیا۔وقت آ گیا ہے کہ اب یہ پارٹی اپنی عوامی حمایت کو سماجی تبدیلی برپا کرنے کے لئے سیاسی تدبروحکمت کے ساتھ استعمال کرے اور انارکی کے دور میں داخل ہونے والے معاشرے کو پرامن تبدیلی کے راستے پر لائے اور فوری طور پر ایسے حالات پیدا کر دے کہ نئے انتخابات ناگزیرہو جائیں۔ پہلے تو شفاف انتخابات ایک اخلاقی اور سیاسی ضرورت تھے۔ لیکن اب یہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لئے ناگزیر ہو چکے ہیں۔ حالیہ انتخابات کی ساکھ ہر نئے دن کے ساتھ مٹی میں مل رہی ہے۔ اگر صاف و شفاف انتخابات نہ ہو سکے‘ تو ان کے نتائج تسلیم کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔ بے چین بلکہ مشتعل عوام‘ پرامن تبدیلی سے مایوس ہو کر دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے‘ جو راستہ بھی سامنے آیا‘ اس پر چل نکلیں گے۔نتیجے کے طور جمہوریت اور ملک‘ دونوں ہی خطرات کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ حکمرانوں کے لئے بھی یہی بہتر ہے کہ وہ عوامی غیظ و غضب کے طوفان سے بچنے کے لئے ‘قبل از وقت اور جلد از جلد صاف و شفاف انتخابات منعقد کرا دیں۔ بصورت دیگر ’’وہ وقت قریب آ پہنچا ہے‘ جب تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے۔‘‘ عمران خان نے جس عوامی ابھار کی نشاندہی کی ہے‘ اس کے خدوخال نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ تحریک کی صورت میں وہ ڈاکٹرطاہرالقادری کے ساتھ اتحاد کر سکتے ہیں۔ مزدوروں میں پھیلی ہوئی بے چینی اور مایوسی ‘ نئی تحریک کو مزید طاقت فراہم کرے گی اور سب سے بڑی طاقت کسانوں کی ہے‘ جسے موجودہ حکومت کی پالیسیاں احتجاج پر مجبور کر رہی ہیں۔ گندم کی فصل سے پہلے حکومت نے پیداوار کے نرخ بڑھانے کے بجائے‘ اپنے حواریوں کے لئے کرپشن کا بھنڈار لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ گندم کے نرخ بڑھانے کے بجائے‘ کسانوں کو رعایتی نرخوں پر کھاد اور زرعی ادویات فراہم کرے گی۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسانوں‘ مزدوروں یا عام شہریوں کو دی گئی مراعات‘ مستحقین تک پہنچی ہوں۔ رعایت کی شکل میں جو مالی فائدہ مستحقین کے لئے ہوتا ہے‘ اسے سرکاری مشینری خوردبرد کر جاتی ہے۔ کسانوں کو ہر چیز مہنگے نرخوں پر ملے گی۔ جبکہ ان کی پیداوار کو حکومتی اہلکار اور تاجر گٹھ جوڑ کر کے حسب سابق اونے پونے خریدیں گے اور اس طرح کسانوں کی تباہ حالی میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور مارچ اپریل میں انہیں بھی مجبور ہو کر سڑکوں پر نکلنا پڑے گا۔ میرے خیال میں حکومت نے احتجاجی تحریک کا آخری مرحلہ مکمل کرنے کے اسباب بھی مہیا کر دیئے ہیں اور عمران خان کی یہ پیش گوئی درست ہونے کے امکانات واضح ہوتے جا رہے ہیں کہ ’’ایسی احتجاجی تحریک چلے گی‘ جو پہلے کبھی دیکھی نہ سنی۔‘‘ جس وسیع پیمانے پر احتجاجی تحریک کے طوفان مرتب ہو رہے ہیں‘ انہیں دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ واقعی ایسی تحریک ابھرنے والی ہے‘ جو ماضی میں کسی نے نہیں دیکھی ہو گی۔ لوگوں کو جس بڑے پیمانے پر مہنگائی‘ دکھوں‘ اندھیروں‘ بدامنی‘ بھوک اور بیروزگاری کے رشتوں میں جوڑ کے منظم کیا جا رہا ہے‘ ایسا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ مجھے تو سماج کا کوئی ایک حصہ بھی ایسا دکھائی نہیں دے رہا‘ جو حکومت کی حمایت میں کھڑے ہونے کی ہمت کر سکے۔ ایک طوفان ہے‘ جو اندر ہی اندر پک رہا ہے اور جب یہ پھوٹ کر باہر نکلا‘ تو پھر واقعی سونامی کا روپ دھار لے گا اور یہ سونامی عمران خان کا نہیں‘ عوام کا ہو گا۔ عمران خان صرف اس کا حصہ ہوں گے اور اگر انہوں نے قیادت کے تقاضے پورے کئے(جس کے تمام اسباب موجود ہیں)‘ تو انہیں لیڈرشپ کا اعزاز حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ جس قدوقامت کی قیادت‘ ہماری سیاسی مارکیٹ میں دستیاب ہے‘ اس میںتو عمران خان بھی لوگوں کو غنیمت لگیں گے۔