’’کہئے!ٹماٹر صاحب آج کل بہت اونچا اڑ رہے ہو‘‘۔ ’’آپ نے سنا نہیں؟ پرواز سب کی ایک ہی فضا میں ہوتی ہے، لیکن کرگس کا جہاں اور ہے‘ شاہیں کا جہاں اور!‘‘ ’’میں نے مہنگائی کی وجہ سے اونچا اڑنے کی بات کی تھی ورنہ کہاں ٹماٹر اور کہاں پرواز؟ دعا دو ذخیرہ اندوزوں اور بلیک مارکیٹیوں کو کہ تمہارے جیسے لال بجھکڑکو اونچی قیمتوں میں پہنچا دیا‘‘۔ ’’میں ایسا نہیں سمجھتا۔حقیقت یہ تھی کہ میں اپنی برادری میں سب سے زیادہ خوبصورت ہونے کے باوجود سستا بکتا رہا ہوں‘‘۔ ’’کیا تم اپنی برادری کے مسلم لیگی ہو؟‘‘ ’’میرا سیاست سے کیا واسطہ؟ میں صرف ایک سبزی ہوں اور پھر بھی کبھی شکایت نہیں کی کہ سرخ ہونے کے باوجود‘ مجھے سبزیوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے‘‘۔ ’’رنگ میں تو اور بھی کئی سبزیاں تمہاری طرح کی ہیں‘ جیسے لال مولی، گاجر،چقندر۔ چقندر تو تم سے بھی زیادہ لال ہے۔گاجر تم سے کہیں زیادہ خوبصورت روپ دھار لیتی ہے‘ اس کی سبزی بنا لو‘ حلوہ بنا لو‘مربہ بنا لو‘ گوشت میں پکا لو‘ سبزیوں میں پکا لو، اس نے تو کبھی شکایت نہیں کی کہ مجھے سبزیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ویسے200 روپے فی کلو کی بلندیوں پر پہنچ کر تم کیا محسوس کر رہے ہو؟‘‘ ’’دنیا میں ہر کوئی ترقی کر کے خوش ہوتا ہے، میں بھی خوش ہوں،اگر میری قیمت میں اسی طرح اضافہ ہوتا گیا تو ہو سکتا ہے ایک دن سیاست دان بن کر‘ میں اپنی پارٹی قائم کرلوں‘‘۔ ’’دوسرا کوئی بندہ تمہارے ساتھ نہیں اورخواب پارٹی بنانے کا دیکھ رہے ہو‘‘۔ ’’خواب ہر کوئی دیکھ سکتا ہے او ر تعبیر بھی پا لیتا ہے‘‘۔ ’’ایسا کہاں ہوا؟‘‘ ’’یہیں آپ کے پاکستان میں۔ شیخ رشید احمد اکیلی جان ہیں لیکن وہ پارٹی بھی ہیں، کارکن بھی ہیں، اسمبلی کے ممبر بھی ہیں اور اینکر بنیں تو انہیں سب سے زیادہ تنخواہ کی آفر بھی مل چکی ہے‘‘۔ ’’ابے او ٹماٹر‘ بڑی بڑی باتیں مت کر‘تو کسی اچھے دستر خوان پر سجنے کے بھی لائق نہیں۔سبزی خوروں کی پلیٹوں کے سوا تجھے جگہ کہاں ملتی ہے؟‘‘ ’’ایسی بات بھی نہیں‘ کسی دستر خوان کا کھانا میرے بغیر ذائقہ ہی پیدا نہیں کر سکتا۔جیسے پاکستان میں کوئی سیاسی اتحاد منیراحمد خان کے بغیر ذائقہ نہیں دیتا‘ اسی طرح میں بھی ہر طرح کے سالن کی سجاوٹ ہوں۔منیر احمد خان میں تو اور بھی بے شمار خوبیاں ہیں۔ وہ سیاسی اتحادوں تک محدود نہیں رہتے۔ ان کی ایک خوبی دیکھ کر تو دنیا انگشت بدندان ہے‘‘۔ ’’وہ خوبی کیا ہے؟‘‘ ’’انہوںنے میاں منظوراحمد وٹو کے ساتھ تیس سال تک دوستی نبھائی ہے‘‘۔ ’’کیوں؟ وٹو صاحب کے ساتھ دوستی نبھانا مشکل کام ہے؟‘‘ ’’بہت مشکل‘ منیر احمد خان کے سوا ان کا کوئی پرانا دوست ڈھونڈ کر دکھا دو۔وہ با اصول آدمی ہیں۔ سیاست کرتے ہیں‘ دوستیاں نہیں پالتے‘‘۔ ’’تو منیر احمد خان کے ساتھ اتنا عرصہ کیسے نبھا گئے؟‘‘ ’’یہ خوبی منیراحمد خان کی ہے۔اتنی مدت وٹوصاحب کے ساتھ رہ کر بھی اقتدار سے دور رہے‘‘۔ ’’ اقتدار کے نزدیک صرف وٹو صاحب رہتے ہیں۔اپنی کسی ساتھی کو نہیں رہنے دیتے‘‘۔ ’’منیر احمد خان کی خوش نصیبی ہے کہ وہ وٹو صاحب کے کسی کام نہیں آئے‘ کام آجاتے تو منیر احمد خان صاحب کا کام بھی تمام ہو چکا ہوتا‘‘۔ ’’اچھا اچھا‘تم اپنی سیاسی مہارت اپنے پاس رکھو‘ مجھے یہ بتائو کہ ڈرون کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ ’’ڈرون بھی وٹو صاحب کی طرح ہے‘‘۔ ’’وہ کیسے؟‘‘ ’’وہ جس کے قریب جاتا ہے‘ اس کے پرخچے اڑا دیتا ہے اور جس سے دور رہتا ہے اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں‘‘۔ ’’یہ کیا بات ہوئی؟میری سمجھ میں تو نہیں آئی‘‘۔ ’’سمجھا دیتا ہوں۔ڈرون نشانے پر جا کر جس کو لگتا ہے اس کا کیا حال ہوتا ہے؟‘‘ ’’وہ دنیا سے اٹھ جاتا ہے‘‘۔ ’’اور جس سے دور رہتا ہے اس کے ساتھ کیا کرتا ہے؟‘‘ ’’اس کی دکانداری چلا دیتا ہے۔ خود ہی یاد کر کے دیکھ لو ۔ جب تک ڈرون سے دور رہنے والوں نے اس کی قدر نہیں کی‘ وہ سیاست میںچہل قدمی کرتے نظر آتے تھے ‘ا ب انہوں نے ڈرون کی اہمیت کو سمجھا ہے تو ان کی لاٹری نکل آئی ہے۔ پاکستان کا ہر سیاست دان ڈرون کا سہارا لے کر اپنی سیاست چمکا رہا ہے‘‘۔ ’’کیا سیاست کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی منشور یا پروگرام نہیں ہوتا؟‘‘ ’’اگر ہوتا تو یہ ڈرون پہ سیاست کرتے؟‘‘ ’’ویسے ان سیاست دانوں کو داد دینی پڑتی ہے۔ امریکہ جس نے خود ڈرون ایجاد کیا‘ وہ اس کی وجہ سے گالیاں کھا رہا ہے اور یہ لوگ جنہوں نے ڈرون پر ایک ٹکا بھی نہیں لگایا‘ اس کے سر پہ موجیں کر رہے ہیں‘‘۔ ’’یہ ہمارے سیاست دانوں کا کمال ہے۔ امریکہ کے سر پر موجیں بھی کرتے ہیں اور اسے گالیاں بھی دیتے ہیں اور جتنی زیادہ موجیں کرتے ہیں اتنی ہی گالیاں دیتے ہیں‘‘۔ ’’ہو سکتا ہے امریکہ گالیاں کھانے کے لئے ہی انہیں موجیں کراتا ہو‘‘۔ ’’امریکہ کو کیا فائدہ؟‘‘ ’’امریکہ جانتا ہے جو اسے گالیاں دے گا وہ عوام میں اتنا ہی مقبول ہو گا اور جتنا وہ عوام میں مقبول ہو گا اتنا ہی اس کے کام آئے گا‘‘۔ ’’تمہارے اپنے سیاسی نظریات کیا ہیں؟‘‘ ’’میں لبرل ازم کا مخالف ہوں‘آزاد خیالی کا مخالف ہوں‘ سیکولر ازم کا مخالف ہوں‘‘۔ ’’پھر تو تم ملالہ کے بھی مخالف ہو گے‘‘۔ ’’بہت زیادہ‘‘۔ ’’اس نے تمہارا کیا بگاڑا ہے‘‘۔ ’’میںبیس سال سے صحافت کی خدمت کر رہا ہوں‘چھ سال سے ٹی وی پر ہر اس شخص کی کردار کشی کرتا ہوں جو انسانیت کی بھلائی چاہتا ہے‘ہر وہ کام جو لوگوں کو اچھا لگتا ہے میں اس پر تنقید کرتا ہوں‘ میں ترقی کا مخالف ہوں‘ عوام کی خوشیوں کے خلاف ہوں۔ اس کے باوجود مجھ پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ نہ عالمی میڈیا میں میری تشہیر ہوئی‘ نہ کسی نے میرے لئے کوئی تقریب منعقد کی‘ نہ مجھے کوئی ایوارڈ دیا۔اس سے زیادہ میرا کیا بگاڑا جا سکتا ہے۔ میں جب ملالہ کی تصویر دیکھتا ہوں تو میرا خون کھولنے لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ طالبان میں شامل ہو کرمیں اسے گولیوں سے اڑا دوں اور میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر میری گولی لگ گئی تو کوئی آصف زرداری اور کوئی جنرل کیانی اسے بچا نہیں سکے گا‘‘۔ ’’ٹماٹر صاحب!آپ نے تو مجھے ہکا بکا کر دیا ‘ مجھے کیا خبر تھی کہ آپ ملالہ کے خلاف اتنا بھرے بیٹھے ہوں گے کہ اس کا نام سنتے ہی پھٹ پڑیں گے‘‘۔ ’’یہی تو میرا رونا ہے‘ میں روز پھٹتا ہوں‘ جگہ جگہ پھٹتا ہوں ‘پھر بھی مجھے کہیں سے گھاس نہیں پڑتی۔ میں پاکستانی چینلز پر دھاڑ دھاڑ کے ہانپتا رہتا ہوں‘‘۔ ’’میرے پاس آپ کے مسئلے کا ایک حل ہے‘‘۔ ’’وہ کیا؟‘‘ ’’آپ نے مولانا فضل الرحمان کا تازہ بیان پڑھا؟‘‘ ’’انہوں نے کیا فرمایا؟‘‘ ’’انہوں نے بڑی زبردست بات کی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ’’ امریکہ کسی کتے کو بھی مارے گا تو میں اسے شہید کہوںگا‘‘۔ ’’میرا اس سے کیا تعلق؟‘‘ ’’آپ کوشش کریں کہ امریکہ آپ کو مار دے‘‘۔ ’’ اس سے کیا ہو گا؟‘‘ ’’مولانا آپ کو شہید کہیں گے‘‘۔