"NNC" (space) message & send to 7575

ملا فضل اللہ کا مطلب اعلان جنگ!

پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی عاجزانہ ’’پیش کش‘‘ کے جواب میں حکیم اللہ محسود اور ان کے نمائندوں کی طرف سے جو طرز عمل اختیار کیا گیا‘ اس سے صاف ظاہر تھا کہ ایک طاقتور فریق‘ بات چیت کے لئے التجائیں کرنے والے فریق کو کیسے جواب دیتا ہے؟ طالبان کے کسی نمائندے نے تسلیم نہیں کیا تھا کہ حکومت نے ان کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ کیا ہے۔ خود حکیم اللہ محسود نے بھی یہی کہا کہ ’’مذاکرات کے لئے ان سے کسی نے بات نہیں کی‘ یہ صرف میڈیا رپورٹس ہیں‘‘۔ اس کے باوجود ہمارے وزیر داخلہ کی طرف سے مسلسل اصرار جاری رہا کہ مذاکرات کی بات آگے بڑھ رہی ہے۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف نے لندن میں اعلان کر دیا کہ ’’طالبان سے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں‘‘۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا تصور نیا نہیں۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بہت پہلے ذہن بنا چکی تھی کہ دہشت گردوں کے ساتھ رابطے قائم کر کے‘ پُرامن حل کی کوئی راہ نکالی جائے اور ایسا کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے ان کے بارے میں نرم ہوتے ہوئے رویے کے واضح اشارے آنے لگے تھے۔ ممبئی حملوں کے بعد صحافیوں کو دی گئی ایک بریفنگ میں ایجنسیوں کے اہلکاروں نے تحریک طالبان پاکستان کے اس وقت کے رہنما بیت اللہ محسود کو محب وطن قرار دیا تھا۔ پاکستان کی طرف سے بڑھتی ہوئی یہ نرمی ہر کسی کو نظر آرہی تھی۔ طالبان اور ان کے لائق مشیروں نے یقینی طور پر انہیں بتا دیا ہو گا کہ حکومت پاکستان کے بدلتے ہوئے طرز عمل پر گہری نظر رکھیں‘ ان کے بیانات اور تقریروں کے ہر لفظ کا تجزیہ کریں مگر اپنی طرف سے ردعمل میں فکر اور پالیسی کی کسی تبدیلی کا اشارہ نہ دیں۔ طالبان کامیابی سے اپنی موقف پر ڈٹے رہے اور حکیم اللہ محسود نے آخری لمحے تک پاکستان کے ساتھ مفاہمت یا نرم روی کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔ اس کے برعکس پاکستانی حکومت کی پالیسی میں ہونے والی نرمی روز بروز واضح ہونے لگی۔ آل پارٹیز کانفرنس میں جو قرارداد منظور کی گئی‘ اس میں تحریک طالبان پاکستان کو سٹیک ہولڈر کا درجہ دے دیا گیا۔ یاد رہے پاکستان میں طاقت کا جو ڈھانچہ ہے‘ اس میں ہم اقتدار کے کھیل میں شریک ساری طاقتوں کو سٹیک ہولڈر قرار دیتے ہیں جس میں مختلف سیاسی جماعتیں‘ پارلیمانی پارٹیاں‘ اسٹیبلشمنٹ‘ سکیورٹی کے ادارے اور صوبائی حکومتیں سب شامل ہوتے ہیں۔ جب مشترکہ قرارداد میں طالبان کو سٹیک ہولڈر کی حیثیت دی گئی تو درحقیقت پورے پاکستان کی مقتدرہ نے اتفاق رائے سے‘ طالبان کو سٹیک ہولڈر تسلیم کر لیا جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اب انہیں حکومتی نمائندوں کے ساتھ برابر کی پوزیشن میں بیٹھ کر بات چیت کرنے والے فریق کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ طالبان کے ماہرین اس قرارداد کے بعد جان گئے ہوں گے کہ اب حکومت اگلا قدم کیا اٹھائے گی؟ دعوت محض رسمی کارروائی تھی‘ طالبان کو سٹیک ہولڈر کی حیثیت میں تسلیم کرنے پر ہی اندازے لگا لئے گئے تھے کہ اگلا قدم مذاکرات کی دعوت ہو گا۔ حکومت کی طرف سے مذاکرات کی باقاعدہ دعوت سے پہلے ہی طالبان قیادت‘ یقینی طور پر بحث مباحثے کے بعد طے کر چکی ہو گی کہ پاکستان کی طرف سے آنے والی پیش کش کو خاطر میں نہ لایا جائے اور پھر وہی کیا گیا۔ میں اپنے وزیر داخلہ کے بیان پر شبہ نہیں کروں گا۔ میں جانتا ہوں انہوں نے یقیناً رابطوں کی کوششیں کی ہوں گی لیکن طالبان نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انکار کیا۔ جس کا واضح مقصد حکومت کی پوزیشن کو مشکوک بنانا تھا‘ وہ اس حربے میں کامیاب رہے۔ آج حکومت کو وضاحتیں کرنا پڑ رہی ہیں کہ اس نے کس کس طرح مذاکرات کے لئے رابطے کئے؟ اور اب یہاں تک بتانا پڑتا ہے کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں۔ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ سفارت کاری کی حکومتی ترکیب بری طرح سے ناکام رہی اور طالبان نے زیادہ مہارت اور ہوشیاری کا ثبوت دیا۔ وہ مذاکرات کے لئے بھی تیار نہ ہوئے اور حکومت جو مذاکرات کے لئے بچھی جا رہی تھی‘ خوب سوچ بچار کے بعد تیار کی گئی سکیم پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہی۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد بھی پاکستانی حکومت نے اپنی پالیسی پر نظرثانی نہیں کی حالانکہ ڈرون حملے کے فوراً ہی بعد طالبان کی طرف سے جو پہلا ردعمل آیا‘ وہ نہ صرف پاکستان کے خلاف تھا بلکہ جارحانہ بھی تھا۔ یہ ردعمل سامنے آنے کے بعد بھی حکومت اسی تصور میں بیٹھی رہی کہ اس کی نرم روی اور طالبان کی طرف ہمدردانہ جھکائوکا ان پر یقیناً اثر ہو رہا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز بہاولپور میں فوجی مشقوں کی تقریب میں‘ جس کا نام ’’عزم نو‘‘ رکھا گیا ہے تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک اور ’’دوستانہ‘‘ ترکیب استعمال کر دی اور پاکستانی ریاستی کے خلاف برسر پیکار لوگوں کو ’’معاشرے کے گمراہ اور ذہنی خلفشار کا شکار افراد‘‘ قرار دیا۔ یاد رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان‘ دہشت گردی کے بیشتر واقعات کی ذمہ داری دلیرانہ انداز میں قبول کر چکی ہے لیکن وزیر اعظم نے انہیں عارضی پاگل پن کے مریض قرار دے کر ان کے لئے نئی راہیں پیدا کر دی ہیں۔ یعنی اگر طالبان کبھی پاکستان کے قانونی نظام سے کھیلنا چاہیں تو ان کے وکلا عارضی پاگل پن کے مرض کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف قانونی وارداتوں کا جواز پیش کر دیں گے اور اس طرح ان پر لگی ہوئی پابندیاں ہٹائی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کی طرف سے ایسے محبت بھرے پیغامات سے طالبان نے کیا نتیجہ اخذ کیا ہو گا؟ اس کا جواب آج اس خبر کی صورت میں سامنے آ گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی پوری مجلس شوریٰ نے ملا فضل اللہ کو تحریک طالبان پاکستان کا نیا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔ اس پیغام میں کیا کچھ مضمر ہے‘ کیا اسے سمجھنے کے لئے زیادہ محنت کی ضرورت ہے؟ ملا فضل اللہ ایک جانا پہچانا کردار ہیں‘ وہ سوات کی ایک خالص مقامی تحریک کے سربراہ تھے۔ انہوں نے سائیکل پر ایک نشریاتی مرکز قائم کر کے تبلیغی کام شروع کیا تھا‘ وہ صوفی محمد کے داماد ہیں اور انہی کی تعلیمات پر گامزن تھے مگر آگے چل کر وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی طرف بڑھتے گئے اور صوبائی حکومت سے صوفی محمد معاہدے کے نتیجے میں سوات کا کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے دور اقتدار میں سوات میں جو کچھ ہوا اس کی تفصیل اہل پاکستان اور خصوصاً اہل سوات اچھی طرح جانتے ہیں۔ سوات کی نوے فیصد آبادی کو ہجرت کر کے پاکستان کے دوسرے علاقوں میں آنا پڑا‘ فوج نے جنگی بنیادوں پر کارروائی کر کے ملا فضل اللہ کے جنگجوئوں کا مقابلہ کیا اور عوام اور فوج دونوں نے بے شمار قربانیاں دے کر ملا فضل اللہ اور ان کے جنگجوئوں کو باہر نکالا۔ وہاں پر اسے کرزئی حکومت کی طرف سے تحفظ اور پناہ مل گئی اور اس نے افغانستان کے صوبے نورستان میں اپنا ہیڈکوارٹر قائم کر کے پاکستان کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دیں۔ یہ ملا فضل اللہ ہی کے دہشت گرد تھے جنہوں نے پاکستان کی سرحدوں کے اندر آ کر ہمارے سرحدوں محافظوں کو اغوا کیا‘ انہوں نے افغانستان کے اندر لے جا کر ان کی گردنیں کاٹیں اور کٹے ہوئے سر ان کے شناختی کاغذات کے ساتھ میزوں پر رکھ کر ویڈیو بنائی‘ جسے انٹرنیٹ پر ڈال کر ساری دنیا کو دکھایا گیا۔ اس ایک واقعے کے علاوہ ملا فضل اللہ کی پاکستان دشمنی کے بارے میں مزید کچھ کہنا وقت کا ضیاع ہے۔ وہ پاکستانی فوج کا دشمن ہے‘ اس کا تازہ ثبوت قبائلی علاقے میں ڈیوٹی کے دوران میجر جنرل ثناء اللہ اور پاک آرمی کے دیگر اعلیٰ افسران کی شہادت ہے۔ اس جرم کا اقرار ملا فضل اللہ نے فوراً ہی کر لیا تھا۔ ملا فضل اللہ کا انتخاب بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ پاک فوج کے ساتھ اس کی دشمنی کوئی راز نہیں‘ وہ آج بھی فوج کے خلاف برسر پیکار ہے۔ اس کی جارحیت کا ہدف صرف اور صرف پاکستان اور پاک فوج ہے۔ اس کا واحد بیرونی سرپرست حامد کرزئی ہے اور اسی حوالے سے ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ اسے امریکی حمایت بھی حاصل ہو گی۔ اس انتخاب کے بعد یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کا باضابطہ حصہ تھا‘ پاکستانی طالبان اس تعلق کو ظاہر کرنے سے گریز کرتے تھے مگر اب یہ بات ظاہر ہو گئی کہ وہ شروع سے ہی اس تنظیم کا حصہ ہے۔ اس کی سربراہی کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کھلے طور سے ایک پاکستان دشمن تنظیم ہے۔ حکیم اللہ محسود اپنے آپ کو امریکہ کا دشمن قرار دیتا تھا‘ اسی لئے اس کے سر پر امریکہ کی طرف سے بھاری رقم کا انعام بھی رکھا گیا تھا‘ اس کا ہیڈکوارٹر ہمارے قبائلی علاقے میں تھا جو پاکستانی انتظامیہ کے کنٹرول میں نہیں لیکن ملا فضل اللہ کی طاقت کا مرکز سوات میں ہے جو قانونی اور انتظامی طور پر پاکستان کا حصہ ہے۔ طالبان کی پاکستان دشمن تحریک باضابطہ طور پر ہمارے ملک میں داخل ہو چکی ہے۔ حکیم اللہ محسود کے سر پر امریکیوں نے انعام رکھا ہوا تھا جبکہ فضل اللہ کے سر پر صرف حکومت پاکستان نے انعام رکھا ہوا ہے۔ یہ تبدیلی ہمارے لئے ایک نئے چیلنج کی صورت میں ابھری ہے۔ ملا فضل اللہ کو امریکہ نے کبھی اپنا دشمن قرار نہیں دیا‘ نہ اس کے سر پر کسی بڑی طاقت نے انعام رکھا ہے‘ اس کی دشمنی صرف پاکستان سے ہے۔ ہماری سکیورٹی کے لئے پیدا ہونے والا یہ نیا خطرہ کتنا گھمبیر ہے؟ ہمارے سکیورٹی کے ماہرین اور حکومت دونوں کی توجہ اس سوال پر مرکوز ہونی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں