یوں لگتا ہے کہ پاکستان ایک بہت بڑی انتظار گاہ ہے‘ جہاں ہر کوئی کسی نہ کسی چیز کے انتظار میں بیٹھا ہے۔ کوئی کسی کے جانے کے انتظار میں ہے۔ کوئی کسی کی آمد کے انتظار میں ہے۔ کوئی کچھ ہونے کے انتظار میں ہے۔ کوئی کچھ نہ ہونے کے انتظار میں ہے۔ تمام کے تمام پاکستانی‘ امن کے انتظار میں ہیں۔ امن‘ ان صلاحیتوں کے انتظار میں ہے‘ جو بدامنی اور تشدد کو ختم کرنے کی قابلیت رکھتی ہوں۔ قومی اسمبلی‘ اپنے وزیر اعظم کے انتظار میں ہے کہ وہ کب اس ایوان میں براجمان ہونا پسند فرمائیں گے؟ جہاں انہیں بھاری اکثریت حاصل ہے۔ وزارت داخلہ اس انتظار میں ہے کہ وہ داخلی امور کی طرف کب متوجہ ہو گی؟ جن طالبان سے وہ مذاکرات کرنا چاہتی ہے‘ وہ اسے دستیاب نہیں۔ کراچی میں امن لانے کے لئے جو کوششیں وہ کر رہی ہے‘ اس سے زیادہ کوششیں امن کو خراب کرنے والے کر رہے ہیں۔ اسحٰق ڈار اس انتظار میں ہیں کہ گیس کب بند کریں اور لوڈشیڈنگ کے اوقات اور بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کب کریں؟ آدھی آبادی اس انتظار میں ہے کہ وہ انتظار کس کا کرے؟ اور باقی آدھی آبادی اس انتظار میں ہے کہ وہ کس کا انتظار نہ کرے؟ جس کے پاس ہتھیار ہیں‘ وہ اس انتظار میں ہے کہ پاکستان میں اپنی مرضی کا نظام کب نافذ کرے؟ اور جس کے پاس ہتھیار نہیں‘ وہ اس انتظار میں ہے کہ اس پر حکومت کرنے والے اپنا کام کب سیکھیں گے؟ بیروزگار اس انتظار میں ہیں کہ انہیں روزگار کب ملے گا؟ اور برسر روزگار اس انتظار میں ہیں کہ جہاں وہ کام کرتے ہیں‘ وہ کارخانے دوبارہ کب چلیں گے اور بند رہے‘ تو ان کی نوکری کب جائے گی؟ تمام کے تمام پاکستانی 5 جون سے اس انتظار میں ہیں کہ ان کی نومنتخب حکومت کام کب شروع کرے گی؟ اس نے اپنے منشور میں جتنے بھی وعدے کئے ہیں‘ ان کے مطابق کوئی بھی منصوبہ شروع نہیں ہوا۔ کراچی میں میٹرو ٹرین شروع ہونا تھی مگر ابھی تک اتا پتہ ہی نہیں کہ اس کا سنگ بنیاد کب رکھا جائے گا؟ خبر ہی نہیں کہ اس ریل کی پٹریاں کب بچھنا شروع ہوں گی؟ وہ پاکستان میں بنائی جائیں گی یا خریدی جائیں گی؟ بتایا گیا تھا کہ درآمدی کوئلے سے بجلی بنائی جائے گی‘ مگر یہ کام بھی شروع نہیں ہو سکا۔ زرعی ترقی کے لئے کیا منصوبے تیار ہوئے؟ لوگ ان کے بھی انتظار میں ہیں۔ لوگ اس کے بھی انتظار میں ہیں کہ تعلیمی پالیسی کب آئے گی؟ اس کا بھی انتظار ہو رہا ہے کہ صحت کی پالیسی کب بنے گی؟ سپورٹس کے شعبے میں پالیسی تو کیا بننا تھی؟ کرکٹ بورڈ ہی نہیں سنبھالا جا رہا۔ اقلیتوں کے لئے جو پالیسیاں لانے کا وعدہ کیا گیا تھا‘ وہ کب آئیں گی؟ صنعت و تجارت کو ترقی دینے کے لئے جو اعلانات ہوئے تھے‘ ان پر عملدرآمد کب ہو گا؟ روزگار کی فراہمی کے حسین وعدے کب پورے ہوں گے؟ کم آمدنی والے شہریوں کے لئے رہائشی سہولتیں فراہم کرنے کا سلسلہ کب شروع ہو گا؟ اور ایک بہت ہی بڑا وعدہ کیا گیا تھا اور وہ یہ کہ سماجی اعتماد بحال کیا جائے گا۔ پاکستان کے تمام شہری روزانہ بیتابی سے اخبار خرید کر پڑھتے ہیں کہ حکومت نے سماجی اعتماد کی بحالی کے لئے کیا کیا؟ مگر انہیں سوائے بدامنی‘ دہشت گردی‘ بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان‘ قتل و غارت گری اور اسی طرح کے دیگر جرائم کی خبروں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ صرف ایک انتظار ہے‘ جو امن کو ترسے ہوئے لوگ‘ سماجی اعتماد کی بحالی کے لئے کر رہے ہیں۔ آلودگی سے عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ ہر طرح کی غلاظت متوسط اور نچلے طبقے کی آبادیوں کی تقدیر بن چکی ہے۔ جھگیوں کی بستیاں تیزی سے ابھر رہی ہیں۔ یہاں سے پیدا ہونے والی بیماریاں اردگرد کی آبادیوں میں پھیلتی ہیں۔ کارخانوں سے نکلے ہوئے فضلے‘ پانی کے ذریعے کھیتوں میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں پر اگی ہوئی سبزیاں گھروں میں جاتی ہیں۔ مختلف ٹیلی ویژن چینل‘ غلاظت میں اگی ہوئی ان سبزیوں کے بارے میں تفصیلی پروگرام دکھاتے رہتے ہیں اور دیکھنے والے اس انتظار میں ہیں کہ ماحول کو صاف کرنے والی حکومتی پالیسیاں کب آئیں گی؟ سماجی خدمات کے شعبے میں‘ حکومت کب اپنی ذمہ داریاں نبھانا شروع کریگی؟ عوام 66 سال سے اس کے انتظار میں ہیں۔ جب ملک آزاد ہوا تھا‘ تو سرکاری ہسپتال باقاعدہ دوائیں اور خدمات فراہم کیا کرتے تھے۔ چند پیسوں کی پرچی بنوا کر 80 فیصد دوائیں مفت ملتی تھیں۔ شہروں میں حوائج ضروریہ کو پورا کرنے کے لئے جابجا بیت الخلا ہوا کرتے تھے۔ اب شہر ایسی چیزوں سے یوں خالی ہو گئے ہیں‘ جیسے نئی نسل‘ انسانی ضرورتوں سے بالکل فراغت پا چکی ہے۔ حکومتیں اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی‘ سب سے پہلے اپنی انتظامیہ کی تشکیل نو کرتی ہیں۔ امریکہ میں صدارتی انتخاب جیتنے والی جماعت‘ صدر کے حلف اٹھاتے ہی چھ سات ہزار لائق اور اہل افسروں کی فوری تقرری کر دیتی ہے اور اس طرح نیا اور تازہ دم انتظامی ڈھانچہ ایک ہفتے کے اندر اندر معرض وجود میں آ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی نئے خیالات‘ نئی سوچیں اورنئے ذہن ‘ انتظامی ڈھانچے کے اندر تازگی لے آتے ہیں اور پھر فوراً یہ نئی مشینری اپنی کارکردگی شروع کر دیتی ہے۔ ہماری حکومت کو معرض وجود میں آئے 4 ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ آپ کسی بھی جمہوری یا مہذب ملک میں کسی کو یہ بتائیں کہ ہمارے ملک میں 5 مہینوں سے بیشتر کلیدی عہدے خالی پڑے ہیں اور بہت سے اداروں کے سربراہ عارضی حیثیت میں کام کر رہے ہیں‘ تو شاید کسی کو یقین نہ آئے۔ مگر یہ امر واقعہ ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے ادارے یا تو سربراہوں سے محروم ہیں یا انہیں عارضی طور پر بیٹھے ہوئے لوگ‘ عارضی انداز میں چلا رہے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹیوں کے بغیر پارلیمنٹ کی کارکردگی مکمل نہیں ہو سکتی۔ ہماری پارلیمانی کمیٹیاں ابھی تک پوری نہیں کی جا سکیں۔ گویا پارلیمنٹ بھی اپنی پوری کارکردگی شروع نہیں کر سکی۔ جب نئی حکومت بنی تو پاکستان کی خارجہ پالیسی زیرو پوائنٹ پر آئی ہوئی تھی۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے معاملات جہاں پر تھے‘ آج بھی وہیں ہیں۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ بری حالت میں آ چکے ہیں۔ سعودی عرب جو ہمیشہ سے ہمارا آزمودہ دوست رہا ہے‘ آج کل وہاں سے بھی دوستانہ جذبات کی خوشبو نہیں آ رہی۔ امریکہ نے موجودہ حکومت قائم ہوتے ہی بہت سے مثبت سگنل دیئے تھے۔لیکن ہماری وزارت خارجہ ان سے کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکی۔ حد یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کا پہلا دورہ امریکہ جس انداز میں ہوا‘ اس کی تفصیل پڑھ کے پاکستان کا ہر شخص افسردہ ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی جماعت کی انتخابی مہم میں یہ دلیرانہ وعدے کئے تھے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائیں گے۔ مگر آج صورتحال پہلے سے بھی بری ہے۔ بھارت کے ساتھ ابھی تک کوئی اعلیٰ سطحی رابطہ نہیں ہوا۔ امریکہ میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی جو ملاقات ہوئی‘ اس کے بارے میں مجھے بھی لکھنا پڑا ’’حالات کا ماتم تھا‘ ملاقات کہاں تھی‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے عوام ایک اچھی اور کامیاب خارجہ پالیسی کے پہلے دن سے منتظر ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ پڑھ کر تکلیف ہو گی لیکن سچائی یہی ہے کہ پاکستان کو صرف اتنے عرصے کے لئے سرگرم خارجہ پالیسی نصیب ہوئی‘ جب تک ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیر خارجہ تھے۔ ورنہ باقی سارا عرصہ کلرکانہ بلکہ فدویانہ خارجہ پالیسی چلتی رہی اور زیادہ تر امریکہ کے سفارتی افسروں کی ہدایات کے تحت۔ آج 66 برس گزر جانے کے بعد بھی پاکستان ایک موثر‘ متحرک اور سرگرم خارجہ پالیسی کے انتظار میں ہے‘ جو آج بھی دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ پہلے وزیر خارجہ ہوا کرتے تھے‘ اب تو وہ بھی موجود نہیں۔ ہم نے ملک بنایا تھا‘ عزت و آبرو‘ آزادی‘ وقار اور خوشحالی میں رہنے کیلئے۔ آزادی کے دن سے‘ ان چیزوں کا انتظار شروع کیا اور اب تک اسی انتظار میں بیٹھے ہیں۔ خدا ہی جانتا ہے‘ ہمارا انتظار کب ختم ہو گا؟