"NNC" (space) message & send to 7575

خوشی اور افسوس

میرے ملک کی عمر 66برس 3 ماہ سے کچھ زیادہ ہو چکی ہے۔کسی بھی شعبے میں ہمارے اعدادوشمارقابل اعتبار نہیں ہوتے۔ کہنے کو ہماری آبادی 18کروڑ بتائی جاتی ہے۔ اسے درست نہیں سمجھا جا سکتا۔ آخری مردم شماری ہوئے 10 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ہم محض اندازوں سے آبادی کا شمار کرتے رہتے ہیں۔ یہی کچھ بھارت میں ہوتا ہے۔ وہاں کی آبادی ایک ارب 20 اور 25 کروڑ کے درمیان گنی جاتی ہے۔ مگر اس کا یقینی ہونا ہماری ہی طرح ہے۔ میرے لئے خجل ہونے کی بات یہ ہے کہ میرے 18کروڑ آبادی والے ملک میں66سال کے طویل عرصے کے دوران‘ ایک بھی شخصیت سب کی محبتوں کی غیرمشروط حقدار کبھی نہیں ٹھہری۔ میں نے جب بھی کسی شعبے میں اپنے قومی ہیرو کو تلاش کیا تو‘ کسی نہ کسی حلقے میں اس حوالے سے اختلاف کا پہلو ضرور نکل آیا۔ قائداعظمؒ سے لے کر عمران خان تک‘ ہمارے ہر ہیرو کے بارے میں کامل اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ آج بھی ایسے بے شمار لوگ مل جاتے ہیں‘ جو قائدؒ کی شخصیت پر بھی اعتراض کرتے نظر آئیں گے۔ ایک زمانے میں عمران خان غیرمتنازعہ ہیرو کا مقام حاصل کرتے نظر آنے لگے تھے۔ مگر انہیں بھی ہماری خوشی اچھی نہ لگی۔ انیق ناجی نے ایک دن جھلاہٹ کے عالم میں کہا کہ ’’عمران نے خود ہی ہمیں ایک غیرمتنازعہ قومی ہیرو سے محروم کر دیا۔‘‘ ظاہر ہے وہ ان کے سیاست میںآنے کے فیصلے پر افسردہ تھے۔ یہ باتیں مجھے پڑوسی ملک بھارت کے غیرمتنازعہ ہیرو سچن ٹنڈولکر کی ریٹائرمنٹ کے جشن کے مناظر دیکھ کر یاد آئیں اور آتی چلی جا رہی ہیں۔ وہ سوا ارب کی آبادی کا ملک ہے۔ اتنے زیادہ لوگوں کا کسی ایک بات پر غیرمشروط اتفاق رائے کرنا‘ آسان نہیں ہوتا۔ لیکن وہاں ایک سے زیادہ شخصیات کو یہ اعزاز حاصل ہے۔ مجھے آج تک کوئی ایسا بھارتی نہیں ملا‘ جس نے دلیپ کمارکے معیارفن پر نکتہ چینی کی ہو یا اداکاروں میں ان کے رتبے پر کسی قسم کا اختلاف پایا جاتا ہو۔ دورحاضر میں وہاں کے عظیم اداکار امیتابھ بچن سے لے کربڑے سے بڑے فلمی نقاد تک ‘ سب دلیپ کمار کو اپنی قومی تاریخ کا عظیم اداکار تسلیم کرتے ہیں اور پھر گنتی شروع کریں‘ تو ختم ہونے میں نہیں آتی۔ لتامنگیشکر‘ محمد رفیع، نوشاد اور فلمی دنیا کے نہ جانے مزیدکتنے فن کار عظمتوں کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں۔ سیاست میں جائیں‘ تو جے پرکاش نارائن ایک ایسے بزرگ سیاستدان ہیں‘ جنہیں بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں کے کارکن یکساں احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ سماجی خدمات کے شعبے میں اچاریہ ونوبھاوے کا نام سنتے ہی ہر بھارتی شہری کا سر احترام سے جھک جاتا ہے اور گزشتہ ہفتے کے روز ایک اور نام ایسے ہی جگمگاتے ہوئے ناموں میں شامل ہو گیا۔ وہ بھی صرف 40سال کی عمر میں۔ اس نوجوان نے 16سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنا شروع کیا اور نوعمری میں ہی کرکٹ کی دنیا میں صف اول کے کھلاڑیوں میں شامل ہو گیا۔ اس کھیل میں جتنا گلیمر ہے‘ دنیا کے دوسرے کسی کھیل میں نہیں پایا جاتا۔ باقی کھیل اپنے اپنے ملکوں یا خطوں میں مقبول ہیں لیکن جتنے زیادہ ملکوں اور جتنے زیادہ لوگوں میں کرکٹ کے شائقین پائے جاتے ہیں‘ شاید ہی کسی دوسرے کھیل میںہوں۔ سچن کی شخصیت میں نہ وہ دلکشی ہے اور نہ وجاہت۔ وہ معمولی شکل و صورت کے جوان ہیں۔ قد بھی کھلاڑیوں کے درجے کا نہیں۔ ان میںسوائے کھیل ‘ متانت اور شخصی رکھ رکھائو کے کوئی امتیازی خصوصیت نہیں ۔ وہ صرف اپنی انہی تین خصوصیات کی وجہ سے مقبولیت کی سیڑھیاں تسلسل کے ساتھ چڑھتے چلے گئے اور اپنے ملک میں اعزازواحترام کے اتنے بلنددرجے پر پہنچے کہ عوام کے دلوں سے بے ساختہ یہ مطالبہ نکلا کہ انہیں سوا کروڑ آبادی والے ملک میں نورتن کا خطاب حاصل کرنے والے پہلے کھلاڑی کا مقام عطا کیا جائے۔ 40سالہ ٹنڈولکر غالباً پہلا بھارتی شہری ہے‘ جس نے اس عمر میں یہ خطاب حاصل کیا۔ ٹنڈولکر جب اپنا 200واں میچ کھیلنے کے لئے ممبئی کے کرکٹ میدان میں اترا‘ تو صرف بھارت نہیں‘ دنیا کے درجنوں ملکوں میں‘ اسے مختلف طریقوں سے خراج تحسین پیش کیا گیا۔ میڈیا نے خصوصی پروگرام چلائے۔ کرکٹ کے شائقین نے ٹنڈولکر کی تصویر والے سٹکر لگائے۔ جگہ جگہ نوجوانوں نے جمع ہو کر‘ اپنے اپنے ملکوں کے لوک ناچ کے ساتھ گیت گائے۔ میڈیا پر ہر کوئی ایک ہی شخص کی صفات ‘ ایک جیسی محبت اور پیار کے ساتھ بڑھ چڑھ کر بیان کر رہا تھا۔ اس اظہار محبت میں عمر کا کوئی امتیاز نہیں تھا۔ 5سال کے بچوں سے لے کر اسی نوے سال کے بوڑھوں تک‘ سب ایک ہی شخص کے شاندار کیریئر پر ‘ اسے محبت کے نذرانے پیش کر رہے تھے۔ اس کی آخری اننگز اپنے اپنے ٹیلیویژن پر کروڑوں لوگ یکساں اشتیاق اور دھڑکتے دلوں کے ساتھ دیکھ رہے تھے اور اس اننگز کے ایک ایک لمحے کو اپنی یادوں میں محفوظ کر رہے تھے۔ بھارتی معاشرے کی بیشتر ایسی شخصیات جنہیں دیکھنے کے لئے لاکھوں لوگ منتظر رہتے ہیں۔ وہ شخصیات خود ٹنڈولکر کی آخری ٹیسٹ اننگز دیکھنے کے لئے آئی ہوئی تھیں۔لیکن ٹنڈولکر کی اپنی نگاہیں تماشائیوں میں موجود صرف ایک شخصیت کی جانب باربار اٹھتی رہیں اور وہ تھیںاس کی ماں۔ جس نے اپنے بیٹے کے پورے کیریئر میں سٹیڈیم جا کر اسے کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور ٹنڈولکر ایک بار یہ منظر اپنی یادوں میں سجانے کے لئے بے تاب تھا۔ جب اس نے آخری میچ کھیلنے کا فیصلہ کیا‘ تو اس نے کوشش کر کے اپنا 200واں ٹیسٹ میچ ممبئی میں کرانے پر اصرار کیا۔ اس کی خواہش پوری کر دی گئی۔ ماں‘ تن وتوش میں بھاری بھرکم ہیں۔ ان کے لئے خصوصی وہیل چیئر بنوائی گئی‘ جسے آسانی سے سٹیڈیم کی سیڑھیاں چڑھائی جا سکتی ہیں۔ کھلاڑیوں کو ہفتے اور مہینے ‘ 24 گھنٹے ایک ساتھ رہ کر گزارنا ہوتے ہیں۔ ایسی زندگی میں بے شمار مواقع آتے ہیں‘ جب کھلاڑیوں کے درمیان تلخیاں‘ رنجشیں‘ تکرار‘ ناراضیاں اور بدمزگیاں بھی دیکھنے میں آتی ہیں۔ لیکن ٹنڈولکر سے منسوب ایسا کوئی قصہ ریکارڈ میں نہیں آیا‘ جس میں وہ کسی بڑے جھگڑے یا تنازعے میں ملوث نظر آتا ہو۔ اس کی ہر خوشی اور ناراضی کے اظہار کی وجہ صرف اور صرف کھیل رہا۔ میں نے ایک عظیم کھلاڑی کی رخصت کے جشن کے کچھ حصے بڑے اشتیاق اور رشک سے ٹیلیویژن پر دیکھے اور پھر اپنے دامن میںجھانکنے کی کوشش کی‘ پر ہمت نہ ہوئی۔ تھا ہی کیا‘ جس کے لئے میں جھانکتا؟ باربار ذہن میں عمران خان کا نام ابھرا۔ وہ اپنی توجہ‘ اپنے امتیاز‘ اپنے کھیل‘ اپنی سلطنت اور اپنے فن پر مرکوز رکھتا‘ تو دنیائے کرکٹ میںاسے بھی ٹنڈولکر جیسا بلکہ اس سے بھی بلند مقام حاصل ہو سکتا تھا ۔ وہ کئی معاملات میں ٹنڈولکر سے بڑھ چڑھ کر ہوتا۔ اس کی یونانی دیوتائوں جیسی تراشی ہوئی شخصیت‘ کھیل کے شعبے میں ‘رفتار کے زاویوں میں حسن پیدا کرنے کے مواقع اور بیٹسمین کی طرف گیند پھینکنے کے پینترے وہ اضافی امکانات ہیں‘ جو کسی بیٹسمین کو حاصل نہیں ہوتے۔ میری مراد بولنگ سے ہے۔ عمران خان کی بنیادی وصف بولنگ تھی‘ جس کے حسین مظاہروں کی دلکش یادیں‘ تماشائیوں کے ذہنوں میں آج بھی محفوظ ہیں۔ یہ سہولت بیٹسمین کو حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے دامن استعداد میں شارٹس لگانے کی محدود سی گنجائش ہوتی ہے۔عمران کی مزید اضافی خوبی اس کی کیپٹن شپ تھی۔ اس کا شمار دنیا کے چند گنے چنے کپتانوں میں ہوتا ہے اور پھر اس نے انسانی خدمت کے میدان میں عظیم کارنامہ انجام دے رکھا تھا‘ جو ہمیشہ کے لئے اس کے نام سے نسبت رکھنے پرتحسین و احترام کا مرکز بن سکتا تھا۔اگر وہ ٹنڈولکر کی طرح اپنے کھیل کو عبادت گاہ بنا کر اسی کے حسن و افسوں میں اپنی خواہشوں اور خوشیوں کی منزلیں تسخیر کرنے کے شوق میں مست رہنے پر قناعت کر لیتا‘ تو آج وہ بھی ٹنڈولکر کی طرح اپنی قوم کا مشترکہ اور محبوب ہیرو ہوتا۔ خدا جانے‘ اس نے اپنے بلند اور غیرمتنازعہ مقام کو چھوڑ کر‘ سیاست کے گندے تالاب میں کیوں چھلانگ لگا دی؟اس نے اپنے ساتھ بھی زیادتی کی اور ہم پاکستانیوں کے ساتھ بھی۔خود کو متنازعہ بنا لیا اور اپنی قوم کو ایک ہیرو سے محروم کر دیا۔کھیلوں کے شوقین کی حیثیت سے میںگزشتہ دنوں‘ ٹنڈولکر کی خوشیوں میں شریک بھی ہو رہا تھا اور بطور پاکستانی‘ کف افسوس بھی مل رہا تھا کہ ایک اعزاز جو میری دسترس میں تھا‘ سیاست نے چھین لیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں