"NNC" (space) message & send to 7575

انجام کی طرف

اتفاق کی بات ہے کہ میرے آج ہی کے کالم ''ماضی کی طرف‘‘ میں طاقتور کرپٹ طبقوں کی وحشیانہ لوٹ مار کو‘ بزکشی کے کھیل سے تشبیہہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ظالم حکمرانوں کی ٹیمیں بزکشی کا جو بے رحمانہ کھیل کھیل رہی ہیں‘ اس میں دنبہ پاکستانی عوام ہیں۔ میں نے اپنے انداز میں بات کی تھی اور ایک افغان دانشور نجیب مجددی نے اپنے ملک میں کرپشن کی حالت کو دیکھ کر نہ صرف مظلوم عوام کی محرومیوں اور تکالیف کا نقشہ کھینچا بلکہ اس نے جمہوریت کے سہانے خواب کی فریب کاریوں سے نکلنے کا مشورہ دیتے ہوئے‘ علاج بھی تجویز کیا کہ قدامت پسند اور روایات کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے معاشرے کو کس طرح تبدیلی کا راستہ اختیار کرنے پر مائل کیا جا سکتا ہے؟ یہ میں نے کل بھی لکھا تھا کہ پاکستان 1947ء کے مقابلے میں‘ اب کہیں زیادہ رجعت پسندی کے اندھیروں میں ڈوب رہا ہے۔ افغانستان یقینی طور ہمارے مقابلے میںبہت پچھڑا ہوا ہے۔ اس کی تاریخ جنگوں اور خونریزیوں سے بھری ہوئی ہے۔ وہاں کے عوام کو جدید زندگی کے وہ ذرائع دوردور تک میسر نہیں‘ جو ہمیں 1947ء میں حاصل تھے۔ جمہوریت کا جو تجربہ ہم قریباً 90 سال پہلے شروع کر چکے تھے‘ افغانستان میں اسے 10سال کا عرصہ بھی پورا نہیں ہوا۔ مگر انہوں نے اپنے ملک میں سامراجیوں کی مسلط کردہ جمہوریت کے مختصر سے تجربے میں ہی سیکھنا شروع کر دیا ہے کہ ان کا قدامت اور روایت پسند معاشرہ ‘ کرپٹ اور بدعنوان لیڈروں کی سربراہی میں‘ نہ کبھی جمہوریت سے فیض حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی عوامی فلاح و بہبود اور شہری آزادیوں کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ 
اگر ہم اپنی جمہوریت کا جائزہ لیں‘ تووثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ملکوں میں اس نظام کے ذریعے عوام کو جو فوائد حاصل ہوئے ہیں‘ان کا عشرعشیر بھی پاکستانی عوام کے حصے میں نہیں آ سکا۔ ڈبوں میں ووٹ ڈال کر حکومتیں بنانے کا مشینی طریقہ‘ اب اتنا بے کار بلکہ تکلیف دہ ہو چکا ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت اب اس نظام ہی سے بیزار ہو چکی ہے۔ عرصہ ہوا عوام انتخابات کے مشینی عمل میں حصہ لینے سے گریز کرنے لگے ہیں۔اگر آپ پولنگ کے دن ووٹروں کی آمدورفت کے مناظر دیکھیں‘ تو میری طرح آپ کو بھی یقین ہو جائے گا کہ ان میں سے 10فیصد ووٹر اپنی مرضی اور خواہش کے تحت پولنگ سٹیشنوں کی طرف نہیں جا رہے ہوتے۔ طاقتور اور بااثر امیدوار اپنی دولت کے بل بوتے پر انہیں ٹرانسپورٹ اور کارندوں کے ذریعے ‘پولنگ سٹیشنوں پر لے کر جاتے ہیں اور اب تو حالت یہ ہو چکی ہے کہ لوگ امیدواروں کی فراہم کردہ ٹرانسپورٹ کے استعمال سے بھی گھبرانے لگے ہیں۔ کیونکہ اس معاملے میں ان کا تجربہ بہت تکلیف دہ ہے۔ ووٹ ڈالنے سے پہلے امیدواروں کے کارندے‘ ان کی خوب آئو بھگت کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد وہ پولنگ سٹیشن سے باہر نکلتے ہیں‘ تو انہیں کوئی گھاس ڈالنے والا نہیں ملتا۔ امیدواروں کے کارندے‘ ٹرانسپورٹ سمیت غائب ہو چکے ہوتے ہیں اور ان بے چاروں کو پیدل تراپڑتراپڑ چلتے ہوئے اپنے گھروں کو پہنچنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب امیدواروںکے کارندے گاڑیاں لے کر ووٹروں کو آوازیں دے رہے ہوتے ہیں اور وہ مختلف حیلے بہانوں سے ان کی دعوتیں قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
کافی عرصے کے بعد رواں سال میں ہونے والے انتخابات کے موقع پر ہم نے ووٹروں کو اپنی خوشی سے پولنگ سٹیشن کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔ یہ تبدیلی عمران خان کی وجہ سے دیکھنے میں آئی۔ عمران نے گزشتہ 2سال کے دوران بڑے شوق اور محنت سے عوامی رابطوں کی مہم چلائی اور اپنی کرشماتی شخصیت سے عوام کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے میں کامیاب رہے۔ ہم نے پہلی بار امراء اور بالائی متوسط طبقوں کو عام شہریوں کی طرح ووٹ ڈالنے کے لئے‘ قطاروں میں کھڑے دیکھا۔ نوجوانوں کو اپنے خاندانوں کے ساتھ پولنگ سٹیشنوں کی طرف رواں دواں پایا۔ ایسے لگتا تھا کہ جمہوریت سے مایوس ہونے والے جو پڑھے لکھے طبقات‘ انتخابی عمل سے لاتعلق ہو چکے تھے اور ووٹ ڈالنے کو تضیع اوقات تصور کرنے لگے تھے‘ نئی امیدوں کے ساتھ ایک بار پھر جمہوری نظام پر یقین کرنے کو تیار ہو گئے۔ لیکن ان کی امیدوں اور اشتیاق کو جس بے رحمی سے کچلا گیا‘ اسے دیکھتے ہوئے مجھے تو اب امید نہیں رہ گئی کہ ملک کے باشعور لوگ دوبارہ ووٹ دینے کا ناکام تجربہ دہرائیں گے۔ ان کے ووٹوں کے ساتھ کیا ہوا؟ اس پر وہ انتہائی آزردہ ہیں۔ وہ بڑی امیدوں اور خلوص کے ساتھ پاکستانی جمہوریت کو زندگی اور تازگی دینے آئے تھے۔ مگر ڈاکو ان کی امیدیں لوٹ کر لے گئے اور اب وہ بھی پاکستان کے عام لوگوں کی طرح جمہوریت سے مایوس ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان عوام کو پہنچنے والے صدمے اور ان کی مایوسی کا اندازہ کرنے میں ناکام رہے۔ انہیں چاہیے تھا کہ ووٹوں کی ڈاکہ زنی کے خلاف سراپااحتجاج بن جاتے۔ سب کو معلوم تھا کہ ان کی جسمانی حالت ٹھیک نہیں۔ وہ آسانی سے کہہ سکتے تھے کہ میری صحت مندی تک انتظار کریں اور احتجاجی تحریک کی تیاریاں کرتے رہیں۔ جیسے ہی میں صحت مند ہو کر آپ کے درمیان آنے کے قابل ہوا‘ ہم احتجاجی تحریک شروع کر دیں گے۔ یقین کیجئے صرف تحریک انصاف ہی نہیں‘ وہ لوگ بھی جنہوں نے عمران خان کو ووٹ نہیں دیئے تھے‘ احتجاجی تحریک میں شرکت کے لئے عمران خان کا ساتھ دینے کے موڈ میں آ چکے تھے۔ جس تبدیلی کا وہ نعرہ لے کر آئے تھے‘ اس کے لئے انتخابی دھاندلی نے ماحول کو مزید سازگار کر دیا تھا اور عوام پر مسلط کردہ نظام میں اتنا دم نہیں تھا کہ احتجاجی تحریک کے ابتدائی تھپیڑے ہی برداشت کر سکتا۔ لیکن عمران خان نے نہ معلوم کس خیال کے تحت عوام کو بے ایمانی اور فریب کاری کے ذریعے تیار کردہ انتخابی نتائج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور پھر اپنے آپ کو بھی اسی کرپٹ سسٹم کے حوالے کر دیا۔ انہیں جو چٹکی بھر حکومت ملی ہے‘ اس میں وہی کچھ ہو رہا ہے‘ جو دوسروں کی حکومتیں کر رہی ہیں۔ جو بھی نمک کی کان کے اندر جاتا ہے نمک ہو جاتاہے۔(ہر کہ در کان نمک رفت ‘ نمک شد)جن لوگوں نے عمران خان کو دیکھ کر اپنی بجھی ہوئی امیدوں کے چراغ‘ ایک بار پھر روشن کئے تھے‘ آج وہ مایوسی کی حالت میں بیٹھے ‘ بے اختیاری سے عمران خان کو نمک بنتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ وہ تاریخی دھاندلی‘ جس کی وجہ سے حالیہ انتخابی نتائج‘ عوامی بے یقینی کی زد پر آنے والے تھے۔ عمران خان نے انہیں مشروط شرف قبولیت دے کر سانس لینے کی مہلت فراہم کر دی۔ ان انتخابی نتائج کے بل پر قائم ہونے والی حکومتیں‘ حسب روایت ریاستی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے معاشرے کے کرپٹ عناصر کو ساتھ ملا کر اپنے قدم جماتی جا رہی ہیں اور دوسری طرف عوام جو تبدیلی کی امیدیں لگا کر ناپسندیدہ اور دھتکارے ہوئے انتخابی عمل میں دوبارہ شامل ہونے پر تیار ہو گئے تھے‘ اب پھر مایوسی میں ڈوبتے جا رہے ہیں اور اس مرتبہ ان کی مایوسی زیادہ گہری ہے۔ دوسری طرف وہ جوشیلے اور پرعزم نوجوان‘ جو عمران خان کی شکل میں پرامن تبدیلی لانے کے لئے کمربستہ ہو چکے تھے‘ اب انہوں نے جمہوریت سے زیادہ شدت کے ساتھ مایوس ہونا شروع کر دیاہے۔ انہیں تبدیلی کے لئے اب کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا اور دوسری طرف کرپشن کے تازیانے انہیں دھکیل کر انتہاپسندی کی طرف جانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ لوٹ مارکا سفاک نظام ‘ قانون اور انصاف کی دھجیاں اڑا کر ان کے غصے اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اپنے اعمال کے نتائج سے خوفزدہ حکمران‘ بچائو کے لئے دہشت گردوں سے مذاکرات کا سہارا مانگ رہے ہیں۔ لیکن دہشت گرد ‘ کرپٹ حکمرانوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنا اعتبار اور اپنی ساکھ مجروح کرنے سے گریزاں ہیں۔ ان کی نظر تبدیلی کے خواہش مند نوجوانوں پر ہے۔ وہ پاکستان کے علمائے کرام کے لئے عزت و احترام کے جذبات کا مظاہرہ اور مناظرے کا چیلنج قبول کر کے‘ دلیل اور منطق کے راستے پر چلنے کے لئے آمادہ دکھائی دینے لگے ہیں۔ پاکستان کے پرامن عوام کو اگر ذرا سا انصاف اور ارباب اقتدار میں ذرا سی دیانت بھی مل جاتی‘ تو وہ انتہاپسندی کی طرف کبھی نہیں جا سکتے تھے۔ بھلا ہو کرپٹ اور بے رحم حکمرانوں کا کہ ان کی کرتوتیں ہمارے معاشرے کو تاریکیوں کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ لیکن مایوس ہونا گناہ ہے۔ عوام تاریکیوں کی طرف جانے والے راستوں کا رخ بدلنے کی طاقت اور صلاحیت رکھتے ہیں اور انشاء اللہ آخر کار ہمارا رخ منزل کی طرف ہو جائے گا۔مگر ایک بات طے ہے کہ روایتی حکمران طبقوں کا انجام قریب آتا جا رہا ہے۔ہمارے ہاتھوں سے نہیں آئے گا‘ توحکمران‘ اسلحہ بردار انتہاپسندوںکی یلغار کو نہیں روک سکیں گے اور انہیں یہ بات معلوم ہے۔ اسی لئے مذاکرات کے پھندے پھینک رہے ہیں۔ مگر یہ دائو چلتا نظر نہیں آ رہا۔ نئے منظر میں نئی طاقتیں جنم لیں گی۔
اگر طالبان نے حکیم اللہ محسود کے بدلے کے لئے پرویزمشرف کا انتخاب کر لیا تو؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں