یوں تو حالیہ انتخابات کے فوراً بعد عمران خان احتجاجی تحریک کے لئے بے چین ہو رہے تھے۔ صحت نے انہیں اجازت نہیں دی اور وہ انتخابات کے فوراً بعد احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے سے قاصر رہے۔ جب صحت مند ہوئے‘ توطبیعت پھر بے چین ہونے لگی۔ سنا ہے‘ انہیں بھی کوئی پیر جی یا صوفی صاحب ‘ سیاسی ہدایات دینے لگے ہیں۔ یقینا یہ پیر صاحب کا مشورہو گا کہ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے کی بجائے‘ آپ ڈرون حملوں کے خلاف تحریک شروع کریں۔ ان پیر صاحب کا کوئی نہ کوئی تعلق نوازشریف کیمپ سے ضرور ہو گا۔ ورنہ انہیں‘ عمران خان کو ڈرون کے پیچھے لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ ان کے اصل سیاسی حریف نوازشریف ہیں۔ بہرحال خان صاحب کی اپنی مرضی ہے۔ انہوں نے نوازشریف کو ہٹانے کے لئے ڈرون مخالف مہم شروع کر کے‘ نیا سیاسی تجربہ شروع کر دیا ہے۔ نوازشریف کے خلاف تحریک شروع کی جاتی‘ تو چند ہفتوں یا مہینوں کے بعد کسی نہ کسی نتیجے کی امید کی جا سکتی تھی۔ مگر خان صاحب ایسے راستے پر چل نکلے ہیں‘ جس کا کوئی انت ہی نہیں۔ انہوں نے ٹرک کی بتی کا پیچھا شروع کر دیا ہے۔ ٹرک بھی چلتا رہے گا۔ خان صاحب بھی چلتے رہیں گے۔ امریکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی۔ ہو سکتا ہے مقامی لڑائیوں کے بعد وہاں امن بھی قائم ہو جائے۔ ڈرون ‘ ان چیزوں سے بالاتر ہے۔ اس کا نشانہ القاعدہ یا اس کے حامی دہشت گرد ہیں۔ جب تک وہ پاکستان میں رہیں گے‘ ڈرون حملے بھی ہوتے رہیں گے۔
خان صاحب نے طالبان سے رابطے بڑھانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان طالبان کا القاعدہ سے بھی تعلق ہے۔ خان صاحب کی حمایت ملنے کے بعد‘ طالبان پاکستان میں قدم جمائیں گے‘ تو ان کے ساتھ القاعدہ کے رکن یا حامی طالبان کو بھی پناہ گاہیں ملتی رہیں گی۔ جب تک وہ یہاں رہیں گے‘ اس وقت تک ڈرون بھی آتے رہیں گے۔ خان صاحب کے پیر صاحب کو شاید یہ پتہ نہ ہو کہ جس لائن پر انہوں نے خان صاحب کو لگا دیا ہے‘ اس پر چل کر‘ ڈرون حملے ختم نہیں ہوں گے ۔ اس کے برعکس خان صاحب ڈرون حملوں کا جوازپیدا کرتے رہیں گے اور طالبان‘ خان صاحب کی دوستی کا فائدہ اٹھا کر‘ اپنے مورچے مضبوط کریں گے۔ ان کے مورچوں میں القاعدہ کے حامی دہشت گرد پناہ لیں گے۔ ان کے تعاقب میں ڈرون آئیں گے اور خان صاحب کی لامتناہی جدوجہد جاری رہے گی۔ انگریزی کے ایک اخبار نے اپنے اداریئے میں سوال کیا ہے ''کیانیٹو کی سپلائی لائن بند کرنے سے ڈرون حملے بند ہو جائیں گے؟‘‘ سوال اپنی جگہ بالکل درست ہے۔ کیونکہ خان صاحب نے سپلائی لائن بند کرنے کی وجہ یہی بتائی ہے کہ وہ ڈرون حملے بند کرانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔ آیئے! تلاش کرتے ہیں کہ سپلائی لائن کی بندش کا ڈرون حملوں سے کیا تعلق ہے؟ ' 'خان صاحبی‘‘ انداز میں غور کیا جائے تو تعلق کچھ اس طرح سے نکالا جا سکتا ہے۔ ڈرونز کو پیٹیوں میں بند کر کے کراچی ایئرپورٹ پر اتارا جاتا ہو گا۔ ان کے ساتھ ہی میزائلوں کے صندوق بھی آتے ہوں گے۔ پھر یہ سامان کنٹینرز میں لاد کر پاکستان سے افغانستان پہنچایا جاتا ہو گا۔ وہاں ڈرونز کو کھول کے اسمبل کیا جاتا ہو گا اور ان پر میزائل نصب کر کے‘ پاکستان پر حملے کرنے کے لئے بھیج دیا جاتا ہو گا۔ چنانچہ خان صاحب اپنے خیال کے مطابق‘ سپلائی لائن بند کر کے‘ ڈرونز کا پتہ ہی کاٹ رہے ہیں۔ نہ سپلائی لائن جاری رہے گی۔ نہ ڈرون افغانستان پہنچیں گے اور نہ انہیں وہاں اسمبل کر کے‘ پاکستان بھیجا جا سکے گا۔ اللہ اللہ خیرسلا۔ مگر اس میں ذرا سی کسر رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ ڈرونز کو ٹرانسپورٹ طیاروں میں لاد کر افغانستان پہنچایا جاتا ہے اور انہیں امریکہ میں موجود آپریشن سینٹر سے اڑا کر ہدف تک بھیجا جاتا ہے۔ جہاں سے پروگرام کئے ہوئے میزائل ازخود اپنے نشانے پر جا لگتے ہیں۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ خان صاحب ڈرون حملے بند کر کے اپنے اصل حریف نوازشریف کا کیا بگاڑیں گے؟ اگر خان صاحب ذرا سی تکلیف کر کے غور فرمائیں‘ توحقیقت میں دھرنے کا فائدہ وہ نوازشریف کو پہنچائیں گے۔ حکومت میں نوازشریف ہیں۔ ڈرون حملوں کے خلاف جدوجہد عمران خان کر رہے ہیں۔ ڈرون کے خلاف عوام کے جذبات بھی عمران خان بھڑکا رہے ہیں۔ دوسری طرف نوازشریف اطمینان سے ایوان اقتدار کے اندر بیٹھے ہوئے‘ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ڈرون حملوں کی مذمت میں بیان جاری کر دیتے ہیں۔ اگر ڈرون حملے بند ہو گئے‘ تو اس کا کریڈٹ کس کو ملے گا؟ حکومت کو یا عمران خان کو؟
ڈرون حملے بند ہوں نہ ہوں‘ خان صاحب نے دھرنا تحریک شروع کر کے‘ اپنے آپ کو جماعت اسلامی کے سپرد کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی نے طویل تجربات اور ریاضت کے بعد یہ بات سیکھی ہے کہ وہ عوام کے ووٹ لے کر کبھی اقتدار میں نہیں آ سکتی۔ اگر اسے فوجی حکمران کی سرپرستی مل جائے‘ تو وہ اسمبلیوں میں چند سیٹیں بٹور کے‘ اقتدار میں حصے دار بن سکتی ہے اور جب فوجی حکمران دستیاب نہ ہو‘ تو پھر دھرنوں‘ ہڑتالوں‘ مظاہروں اور جلوسوں کے ذریعے وہ منتخب حکومت پر دبائو ڈال کرسودے بازیاں کرنے کی گنجائشیں ڈھونڈتی رہتی ہے۔ عمران خان کو ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ ان کے لئے پورے ملک میں عوامی حمایت پائی جاتی ہے۔ اگر نتائج کے مینوفیکچرنگ پلانٹ نہ لگتے‘ تو عمران خان کافی بڑی تعداد میں نشستیں جیت سکتے تھے اور ہو سکتا ہے وہ خیبرپختونخوا کی طرح وفاق میں بھی مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جاتے۔ وہ اگلے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کی توقع بھی رکھ سکتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اقتدار کا راستہ چھوڑ کر‘ جماعت اسلامی کا راستہ کیوں اختیار کر لیا؟ یہ بات سمجھنے کے لئے بھی بندے کو خود خان صاحب بننا پڑے گا۔ ورنہ یہ بھی کوئی تک ہے کہ چانس اقتدار میں آنے کا ہو اور نقل جماعت اسلامی کی شروع کر دی جائے؟ ۔
خیبرپختونخوا سے آنے والی خبریں ظاہر کرتی ہیں کہ وہاں دھرنوں کے نام پر‘ ہڑبونگ مچی ہوئی ہے۔ جب سے موبائل دھرنے شروع ہوئے ہیں‘ جتنے کنٹینر اور ٹرک گھیرے میں لے کر ''کارروائیاں‘‘ کی گئی ہیں‘ وہ سب کی سب پاک افغان تجارتی معاہدے کے تحت جانے والی گاڑیاں تھیں۔ قارئین جانتے ہوں گے کہ دھرنا درحقیقت ایک جگہ پر بیٹھ کر احتجاج کرنے کا نام ہے۔ آپ نے اخبارات میں پڑھا ہو گا کہ پڑوسی ملک بھارت میں انا ہزارے نامی ایک سوشل ورکر نے دھرنا دیا تھا۔ وہ ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر احتجاج کرتے رہے تھے۔ دھرنا اسی کو کہتے ہیں۔ خان صاحب نے دھرنا تو دے رکھا ہے لیکن ٹک کر ایک دن نہیں بیٹھے۔ دھرنے کو ساتھ لے کر گھومتے پھر رہے ہیں۔ اسی لئے میں نے اس کا نام موبائل دھرنا رکھا ہے۔ خان صاحب کے مداحوں کو پریشانی اس بات کی ہے کہ تحریک انصاف کے کارکن بڑے منظم‘ مہذب‘ قانون پسنداور ذمہ دار شہری تھے۔ انتخابات کے بعد جب انہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے کئے‘ تو نہ کوئی ہڑبونگ مچائی۔ نہ آگ لگائی۔ نہ مارپیٹ کی۔ نہ ٹریفک رکنے دیا۔ بلکہ کئی مقامات پر خود ٹریفک کنٹرول کر کے‘ اسے رواں دواں رکھا۔ لیکن جب سے خیبرپختونخوا کے دھرنے میں جماعت اسلامی کا تڑکا لگا ہے‘ تحریک انصاف کے کارکن بھی لڑائی مارکٹائی سے بھرپور شاہکارپیش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ عام ٹریفک کو بند کرتے ہیں۔ یہ دیکھے بغیر کہ کنٹینر کس کاہے؟ اسے روک لیتے ہیں۔ سٹیئرنگ سیٹ سے ڈرائیور کو زبردستی باہر کھینچ کر‘لات مکے سے اس کی تواضع کرتے ہیں۔ کپڑے پھاڑتے ہیں۔ کنٹینر کے تالے توڑتے ہیں۔ شہریوں کے لئے آمدورفت مشکل بنا رہے ہیں۔ غرض یہ کہ جو پارٹی عمران خان نے محنت‘ صبر اور حوصلے سے منظم کی تھی‘ اسے جماعت اسلامی کا احتجاجی کلچر نگلتا جا رہا ہے۔ وہ امریکہ کے ڈرون بند کرانے کے لئے محنت کر رہے ہیں اور ان کی اپنی پارٹی پر جماعت اسلامی کے ڈرون گر رہے ہیں۔ کہتے ہیں مشکل پڑے‘ تو دشمن سے بھی مدد مانگ لینی چاہیے۔ اب بھی وقت ہے‘ خان صاحب اسی وقت ملاقات یا ٹیلیفون کر کے نوازشریف سے پوچھ لیں ''آپ جماعت اسلامی کو اتحادی بنانے کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ کیا آپ بتائیں گے کہ یہ تجربہ کیسا رہا؟‘‘ مجھے یقین ہے کہ نوازشریف‘ انہیں سچ بتا دیں گے اور ہو سکتا ہے کہ انہیں اپنے کارکن واپس مل جائیں۔ زیادہ دنوں تک جماعت اسلامی کی معیت میں دھرنوں کے عادی ہو گئے‘ تو پھر وہ جماعت ہی کے رہ جائیں گے۔