"NNC" (space) message & send to 7575

خدا افغانستان کی حفاظت کرے

غربت پھیلنے اور سرمایہ سمٹنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس کا دل چاہے تھوڑے سے پیسے خرچ کر کے بہت سے لوگ جمع کر لیتا ہے اور پھر انہیں جہاں چاہے لگا سکتا ہے۔ہڑتال‘پہیہ جام ہڑتال‘ جلوس‘ کسی فرد‘ حکومت یا پارٹی کے خلاف مظاہرہ‘ کسی کتاب کی مخالفت میں دھرنا۔ دھرنے کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اصل دھرنا۔ جس میں لوگ دھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں اور چلتا پھرتا دھرنا‘ جس میں بیٹھنے کی بجائے گشت کی جاتی ہے‘ جسے گشتی دھرنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ غرض جس قسم کا عوامی مظاہرہ آپ چاہیں‘ پیسے کے زور سے کیا جا سکتا ہے۔ دالیں اور سبزیاں مہنگی ہیں‘ انسان سستے ہیں۔ سستے انسان اپنے حق کے لئے یہ مہنگے کام جیسے جلوس‘ دھرنا اور ہڑتال وغیرہ کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ آٹا‘ دالیں‘ سبزیاں‘ بجلی‘ ٹرانسپورٹ کے کرائے‘ سب کچھ مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ غریب آدمی ایک وقت کی روٹی کو ترسنے لگا ہے اور دانشور ٹیلیویژن پر آ کر مشورے دیتے ہیں کہ سالن کی ضرورت کیا ہے؟ سبزی مہنگی ہے‘ تو کوئی بات نہیں۔ دالوں کی خریداری مشکل ہے‘ پھر بھی کوئی بات نہیں۔ اصل قصور ہمارے بزرگوں کا ہے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بتایا نہیں کہ روٹی پیاز کے ساتھ بھی کھائی جا سکتی ہے۔ سوچ ملاحظہ ہو۔ لوگ سبزی‘ روٹی‘ دال‘ آٹے‘ گھی کی مہنگائی کو بھول جائیں۔ یہ عیاشیاں غریب کے مقدر میں نہیں۔ وہ صبر شکر کریں اور پیاز سے روٹی کھائیں۔ روٹی نہیں ملتی تو بسکٹ کھائیں۔ ڈبل روٹی کھائیں اور جسے ان میں سے کچھ بھی نہیں ملتا‘ وہ جوہڑ کا پانی پی کر ہیپاٹائٹس سی کی میزبانی شروع کر دے۔ دکھوں سے نجات کا بندوبست ہو جائے گا۔ ان دنوں پاکستان میں لاکھوں غریب اسی نسخے پر عمل کر رہے ہیں۔ احتجاج‘ مظاہرے‘ ہڑتالیں اور دھرنے‘ جو کبھی مزدوروں‘ کسانوں اور دیہاڑی داروں کا ہتھیار تھا‘ اب یہ بھی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں جا چکا ہے۔ غریب یہ کام بھی اپنا استحصال کرنے والے طبقوں کے مفادات بڑھانے کے لئے ‘ کرائے پر کرتے ہیں۔ حقیقت میں اب ان کا ہر احتجاج اپنے ہی مفادات کے خلاف ہوتا ہے۔ ان دنوں دھرنے‘ مظاہرے اور جلوس‘ سب کی فراوانی ہے۔ 
ابھی تک غریب صرف اپنے ہی نفع خوروں‘ بلیک مارکیٹ کرنے والوں‘ گرانفروشوں اور لٹیروں کے مفاد کی خاطر مظاہروں میں یومیہ اجرت پر کام کرتے تھے۔ مگر اب انہیں اپنے قومی مفاد کے خلاف بھی مزدوری فراہم ہونے لگی ہے۔ اس میں عام آدمی اپنے انفرادی اور قومی مفادات پر ضربیںلگاتا ہے۔ قومی مفادات کے لئے اتحاد‘ یکجہتی اور یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے۔ قوم کے بہترین دماغ ایسی پالیسیوں کا تعین ‘ اتفاق رائے سے کرتے ہیں‘ جو ملک و قوم کو تباہی کے راستوں پر چلنے سے روکیں اور امن‘ خوشحالی اور تحفظ کی راہوں پر چلنے کا شعور دیں۔لیکن پاکستانی عوام کو یہ سہولت بھی حاصل نہیں۔ ہماری فیصلہ سازی کے عمل سے‘ تخلیقی‘تعمیری‘ بہترین اور روشن دماغوں کو توہین آمیز طریقے سے نکال باہر کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ثمرمبارک مند کے منصوبوں کو ایک کلرک حقارت سے مسترد کر دیتا ہے اور ایک کمیشن خور‘ ان کی جگہ ایسے منصوبے شروع کرا دیتا ہے‘ جن میں وہ جی بھر کے ناجائز دولت سمیٹ سکے۔ اقتدار پر قبضہ‘ اعلیٰ درجے کی ڈاکہ زنی‘ فریب خوری اور گمراہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کا استحقاق بن چکا ہے اور وہ عوام کو بھیڑبکریوں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ انہیں کھدیڑ کے اپنے اپنے گھروں میں ڈرے سہمے رہنے پر مجبور رکھیںاور ضرورت پڑے‘ تو ہانکا لگا کر پولیس سٹیشنوں کی طرف دھکیلتے ہوئے لے جائیں۔ دونوں طریقوں سے اقتدار پر فائز لوگوںکو تحفظ‘ سکون اور سہولت مل جاتی ہے اور جو ذرا چالاکی اور پھرتی دکھائیں‘ ان کے لئے نظریات سازی کے کارخانے ‘ دن کے وقت شمسی اور رات کو قمری توانائی سے چلائے جاتے ہیں۔ کہیں نظریہ ہائے پاکستان کی مارکیٹ ہے۔ کہیں قومی مفاد کے شاپنگ پلازے کھلے ہیں ۔ کہیں نئے نئے دشمن پیدا کر کے‘ عالمی منڈی میں رکھے جا رہے ہیں۔ضرورت پڑے تو پاکستان بنانے والی اکثریتی آبادی کو‘ کافر کہہ کر اس پر فوج کشی کر دی جاتی ہے اور مغربی پاکستان کے عوام کو بتایا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کی جنگ ہے۔ کبھی امریکی ڈالر لے کرمسلمان پڑوسی ملک میں مسلح چھاتہ برداروں کو داخل کر کے‘ وہاں تباہ کاری کے لئے بھیج دیا جاتا ہے اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ جہاد ہے۔ اس جہاد کے دوران بتایا جاتا ہے کہ امریکہ ہمارا دوست اور اتحادی ہے اور سوویت یونین ہمارا دشمن ہے اور اب بتایا جارہا ہے کہ امریکہ ہمارا دشمن ہے اور روس کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مگر وہاں سے لفٹ نہیں مل رہی۔ روسی فوجوں اور ان کے جانے کے بعد افغانوں کی اپنی حکومت ‘ ہم نے دونوں کو بے دخل کر کے‘ افغانستان کا اقتدار اپنے ایجاد کردہ طالبان کے حوالے کیا اور پھر اسے ختم کرنے کے لئے امریکیوں کا ساتھ دیا اور اس کے بعد اچانک کایا کلپ ہو گئی اور ہمیں بتایا جانے لگا کہ امریکی ہمارے دشمن ہیں۔ 
ہم پر حکومت کرنے والوں نے ہمیشہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لئے پالیسیاں بنائیں اور ان کی ناکامیوں کی سزا عام پاکستانیوں کو ملی۔ مشرقی پاکستان جو ہمارے ملک کا حصہ تھا‘ اب وہاں جانے کے لئے ہمیں ویزا لینا پڑتا ہے۔ افغانستان پر ہمارے ہی منظم کئے ہوئے طالبان کا قبضہ ہوا‘ تو ہم نے ان پر امریکیوں کی بمباری کرا دی۔ اب وہاں کوئی ہمارا دوست نہیں۔ کرزئی حکومت اس لئے خلاف ہے کہ ہم اس کے مخالف طالبان کی مدد کرتے ہیں۔ طالبان ہمارے اس لئے خلاف ہیں کہ ہم امریکیوں کے ایجنٹ ہیں اور امریکی ہمارے اس لئے خلاف ہیں کہ ہم ان سے سچ نہیں بولتے۔ 
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
پھر بھی ہمارے وزیراعظم کو کابل بھیجا جاتا ہے کہ وہاں جاکر باہم برسرپیکار فریقوں میں بات چیت کرائیںتاکہ وہاں سے بیرونی افواج کے لئے نکل جانے کا راستہ ہموار ہو اور دوسری طرف ہمیں کہا جا رہا ہے کہ بیرونی فوجیں نکلنے کے راستے بند کرو۔ ہم بیک وقت راستے بنانے اور بند کرنے کی جدوجہد بھی کر رہے ہیںاور اپنے قومی مفادات کو آگے بڑھانے میں بھی مصروف ہیں۔ لیکن یہ پتہ نہیں کہ ہمارا مفاد‘ امریکی افواج کی و اپسی کے راستے‘ بنانے میں ہے یا بند کرنے میں؟ قریباً 40سال پہلے ایک پنجابی فلم بنی تھی‘ جس میں ظریف مرحوم کی ''ماما جی کی عدالت‘‘ نے بہت شہرت پائی۔ ظریف ایک بزرگ کے روپ میں اپنی چارپائی کندھے پر اٹھائے‘ گائوں کی گلیوں میں گھومتے رہتے۔ جہاں بھی آپس میں جھگڑنے والے لوگ ‘ ماما جی سے انصاف کی درخواست کرتے‘ وہ کندھے سے چارپائی اتار کے وہیں پر‘ اپنی عدالت لگا دیتے اور فیصلہ ایسا دیتے کہ حالات وہیں کے وہیں رہتے‘ جہاں پر ماما جی کے فیصلے سے پہلے‘ ہوتے تھے۔ اسی طرح کا فیصلہ ایک بھٹی کے تنازعے پر ہوا۔ کچھ لوگ ایک بھٹی گرانے پر مصر تھے اور بھٹی والی ماچھن‘ اسے بنانے پر بضد تھی۔ ماما جی نے دونوں کا مقدمہ سنا اور فیصلہ سنایا کہ ''تم بھٹی گراتے جائو‘ تم بھٹی بناتی جائو‘‘ اور عدالت کندھے پر رکھ کر چلتے بنے۔ماما جی کی عدالت میں صرف دو فریق تھے۔ ہم افغانستان میں بیک وقت تین فریقوں کے حق میں فیصلے دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تینوں ہم سے خوش رہیں۔ طالبان بھی‘ حامد کرزئی بھی اور امریکہ بھی۔ مگر ساتھ ہی بیرونی افواج کی سپلائی لائن بند بھی کر رہے ہیں۔ گویا ایک طرف ہم وہاں جھگڑے مٹانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف وہاں سے بیرونی فوجوں کے نکلنے کے راستے بند کر رہے ہیں۔ اعلانات کرتے ہیں کہ افغانستان میں امن ہونا چاہیے اور آپس میں لڑنے والی تینوں طاقتوں کو حالات بدلنے کی اجازت بھی نہیں دے رہے۔ بیرونی فوجیں وہاں رہیں گی‘ تو حامد کرزئی بھی رہیں گے اور طالبان بھی۔ جب تینوں وہاں رہیں گے‘ تو جنگ جاری رہے گی۔ ہم نے 66برسوں میں اپنے ملک کو متحد اور مستحکم نہیں ہونے دیا اور جس ملک کے دوست بنتے ہیں‘ اسے بھی اپنے ہی ملک جیسا بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ آج کل ہمارا زور افغانستان پہ لگ رہا ہے۔ خدا افغانستان کی حفاظت کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں