"NNC" (space) message & send to 7575

’’جھاڑو‘‘ کی جیت

بھارت کے ریاستی انتخابات، جنہیں وہاں کا میڈیا سیمی فائنل قرار دیتا ہے‘نتائج کے اعتبار سے زیادہ حیرت انگیز ثابت نہ ہوئے۔مدھیہ پردیش میں بی جے پی بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت بنائے گی۔راجستھان میں کانگریس شکست سے دوچار ہوئی جس کا پہلے سے اندازہ تھا۔چھتیس گڑھ میں بھی بی جے پی فیصلہ کن اکثریت حاصل کر کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے لیکن اصل تماشہ دہلی میں ہوا‘ وہاں ریاستی اسمبلی کی کل70سیٹیں ہیں جن میں بی جے پی نے32نشستیں حاصل کیں۔ عام آدمی پارٹی نے28 اور دومرتبہ حکومت بنانے والی کانگریس صرف 8 نشستوں تک محدود ہو گئی۔دارالحکومت کے نتائج نے سب کو حیران کر دیا‘عام آدمی پارٹی، جس کا مخفف ''آپ‘‘ کیا گیا ہے ،گھاس کے نیچے بہتے پانی کی طرح بے ضرر نظر آرہی تھی‘ اس کے چرچے بہت تھے لیکن انتخابی مہم کے میدان میں وہ روایتی طریقے سے کوئی ہلچل پیدا نہ کر سکی ؛تاہم جب نتائج سامنے آئے تو دونوں روایتی حکمران جماعتوں کے پسینے چھوٹ گئے۔ کانگریس اور بی جے پی کے کامیاب ہونے والے امیدواروں نے کئی حلقوں میں معمولی اکثریت سے کامیابی حاصل کی جبکہ ''آپ‘‘ کے امیدوار بھاری اکثریت سے جیتے۔ دو مرتبہ دہلی کی وزیراعلیٰ بننے والی شیلا ڈکشت ،جو اپنی کامیابی کے لئے انتہائی پر امید تھیں‘انہیں25ہزار8سو 34ووٹوں سے شکست ہوئی جبکہ وہ صرف18ہزار4سو 5ووٹ حاصل کر سکیں۔انہیں ایک گمنام سیاسی کارکن اروند کچری وال نے ہرایا۔ چند روز پہلے تک ان کا نام سنجیدہ امیدواروں میں بھی نہیں آتا تھا۔ ان کی یہ شاندار کامیابی روایتی حکمران پارٹیوں سے عوام کی بیزاری کی علامت ہے۔قومی سطح پر ان دونوں بڑی پارٹیوں نے ایک نئی پارٹی سے بمشکل اپنے آپ کو بچایا ۔ کانگریس تو دہلی کے سیاسی منظر ہی سے آئوٹ ہو چکی ہے‘ بی جے پی کو32نشستیں ضرور مل گئیں لیکن حکومت بنانے کے قابل وہ بھی نہیں۔
''آپ‘‘ کی کہانی بڑی دلچسپ ہے‘ یہ پارٹی ایک خیال کی صورت میں اس وقت سامنے آئی جب انا ہزارے نے تمام روایتی پارٹیوں کے خلاف بھوک ہڑتال کر کے پورے ملک میں کرپشن کے خلاف تحریک چلائی۔ یہ تحریک دیکھتے ہی دیکھتے طوفان کی طرح پھیل گئی اور عوام کرپشن اور بدنام سیاست دانوں سے اظہار نفرت کے لئے جوق در جوق سڑکوں پر نکل آئے۔ اس وقت انا ہزارے کے ساتھ ایک متوسط درجے کا سابق بیوروکریٹ اروند کچری وال بطور ترجمان سامنے آیا‘ وہی سٹیج کو کنٹرول کیا کرتا تھا اور انا ہزارے کے انٹرویوز اور میڈیا ٹاک کے انتظامات کی ذمہ داری بھی اسی کے پاس تھی۔تحریک کے دوران اروندکچری وال نے انا ہزارے کے لئے عوامی جوش و خروش دیکھ کر رائے دی کہ ہمیں اپنی پارٹی بنا لینی چاہئے لیکن انا ہزارے نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ بعد میں انا ہزارے اور کچری وال کے باہمی تعلقات میں سرد مہری آگئی اور کئی مواقع پر انہوں نے انا ہزارے کی تجاویز سے لا تعلقی کا اظہار بھی کیالیکن کچری وال نے احتجاجی مہم کے دوران عوامی مخالفت کی شدت کا اندازہ کرتے ہوئے اپنی پارٹی بنانے کا اعلان کر دیا اور منشور میں انا ہزارے ہی کے خیالات کا پرچار کر کے عوامی حمایت حاصل کرنے کا راستہ اپنایا ‘جس پر تمام سیاسی حلقوں میں ان کا مذاق اڑایا گیا ۔ انہوں نے خود بھی ایسے اقدامات کئے جو مذاق کی وجہ بن گئے مثلاً انہوںنے پارٹی کا نام رکھتے ہوئے نظریات کی ترجمانی کرنے والے کسی لفظ کا سہارا نہیں لیا اور نام ایسا رکھا جو عام طور پر سیاسی پارٹیاں زیر غور بھی نہیں لاتیں۔پارٹی کا نام تھا ''عام آدمی پارٹی‘‘۔یہ سادہ سا نام کسی سیاسی جماعت کے لئے تعجب انگیز تھا لیکن کچری وال نے اسی نام کو اختیار کرتے ہوئے اپنی پارٹی کو پھیلانا شروع کیا۔ یہ پارٹی انتخابات سے صرف چند ہفتے پہلے معرض وجود میں آئی اور اس کی شاخیں تیز رفتاری سے پورے ملک میں پھیلنے لگیں۔ کچری وال کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ بھارت کے چاروں صوبوں میں اپنی پارٹی کے امیدوار کھڑے کر سکتے۔انہوں نے اپنی حدود کا اندازہ کرتے ہوئے انتہائی ذمہ داری کے ساتھ صرف ایک ریاست میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ نہ تو ہماری تنظیم اتنی بڑی ہے کہ ہم ساری ریاستوں کے انتخابات میں حصہ لے سکیں اور نہ ہماری پارٹی میں اتنی استطاعت ہے کہ چاروں ریاستوں میں امیدواروں کی سیاسی حیثیت کے اندازے لگاتے ہوئے انہیں ٹکٹ دے سکیں چنانچہ صرف دہلی کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا کر اس پارٹی نے انتخابات میں حصہ لیا۔نام کی طرح کچری وال نے جو انتخابی نشان لیا وہ بھی حیران کن اور معتبروں کی نظر میں غیر سنجیدہ تھا‘یہ نشان تھا ''جھاڑو‘‘۔ کچری وال اور ان کے امیدوار اپنے انتخابی جلسوں میں ہزاروں کی تعداد میں جھاڑو لہراتے اور جلوسوں میں بھی کارکن جھاڑوئوں کے ساتھ شریک ہوتے۔ جھاڑوئوں والے یہ جلسے اور جلوس دہلی والوں کے لئے تفریح کا باعث بن گئے لیکن اس انتخابی نشان نے غریبوں کو بہت متاثر کیا۔''آپ‘‘ کے جلوس جس طرف سے نکلتے ‘راستے میں آنے والی گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوںسے بھی جواب میں جھاڑو لہرائے جاتے۔کچری وال سے جب کسی نے پوچھا کہ کیا آپ جھاڑو پھیرنے کے ارادے سے الیکشن لڑ رہے ہیں؟ تو ان کا جواب تھا'' نہیں جھاڑو صفائی کا نشان ہے‘ ہم صفایا نہیں صفائی کرنے کے لئے آرہے ہیں اور سیاست سے دوغلا پن ختم کر کے ہم سچے پن کا مظاہرہ کریں گے اور لوگوں سے جھوٹے وعدے کرنے کا رواج سیاست سے نکال دیں گے‘‘۔اپنے عجیب وغریب نام اور اس سے بھی زیادہ انوکھے انتخابی نشان کے ساتھ کچری وال کی پارٹی عوام کی توجہ حاصل کر تی گئی اور کچری وال نے ایک بار بھی اقتدار کی خواہش ظاہر نہیں کی‘ و ہ صاف کہتے تھے کہ ہم حکومت بنانے نہیں‘ حکومتوں کو سیدھا کرنے آرہے ہیں اور یہ کام ایسا ہے‘ جس کے لئے ہمیں اقتدار کی ضرورت نہیں۔ہم اسمبلی کے اندر جتنی نشستیں بھی حاصل کریں گے ان سے منتخب ایوان میں آواز اٹھانے کا فرض ضرور پورا کریں گے۔ دہلی کی اسمبلی میں نشستوں کی تقسیم بھی اتنی ہی انوکھی ہے جتنا کچری وال کی پارٹی کا نام اور انتخابی نشان۔بی جے پی کے حصے میں32نشستیں آئیں جبکہ چند ہفتے کی عمر والی پارٹی''آپ‘‘ کو28نشستوں پر دھماکہ خیز کامیابی حاصل ہوئی۔ دو مرتبہ وزیراعلیٰ بننے والی شیلا ڈکشت کی کانگریس8نشستوں تک محدود ہو گئی۔اب پوزیشن یہ ہے کہ دہلی میں کوئی بھی ایک پارٹی حکومت بنانے کے قابل نہیں۔ بی جے پی اور کانگریس چاہیں تو مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آسکتی ہیں لیکن ان دونوں کا باہمی تنازعہ اتنا شدید ہے کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ مشکل سے ہی کولیشن بنا پائیں گی۔کچری وال چاہیں تو کسی بھی ایک جماعت کے تعاون سے حکومت بنا سکتے ہیںلیکن انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ عوام کے آزمائے اور دھتکارے ہوئے لوگوں کے ساتھ مل کر نہیں بیٹھیں گے۔انہوں نے بی جے پی اور کانگریس کو دلچسپ مشورہ دیا کہ یہ دونوں جماعتیں ایک ہی جیسی ہیں‘ ان کے ایجنڈے بھی ایک جیسے ہیں اور یہ کرپشن میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں‘ انہیں مل بیٹھنے میں کوئی مشکل نہیں ہونا چاہئے۔اپنی پارٹی کے مخلوط حکومت میں شر یک ہونے کی تجویز انہوں نے سختی سے مسترد کر دیاالبتہ ایک طریقہ بتایا کہ جو لوگ اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کر‘ ہمارے ساتھ آنا چاہتے ہیں وہ پہلے اپنی سیاسی پارٹیوں کے سیاسی کردار کی مذمت کریں‘ اپنے ماضی سے لاتعلق ہونے کا دعوی کریں اور اس کے بعد ہماری پارٹی میں آجائیں ‘ایسی صورت میں انہیں قبول کیا جا سکتا ہے۔
جمہوریت اگر مضبوط ہو تو اس میں انقلاب نہیں آیا کرتے لیکن اس میں عوام دوست تبدیلیاں لانے کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ کچری وال نے جس تبدیلی کی ابتدا کی ہے ‘ مخلوط حکومت میں شامل ہو کر وہ اسے برپا نہیں کر پائیں گے البتہ ان کے اراکین اسمبلی اقتدار کا مزہ چکھنے کے بعد انہی کرتوتوں کے عادی ہو جائیں گے‘ جن کی وجہ سے کانگریس اور بی جے پی عوام میں غیر مقبول ہو رہی ہیں۔کچری وال اپنی پارٹی کو بچانے کے لئے جو بہترین طریقہ اختیار کر سکتے ہیں‘ وہ یہی ہے۔ اپنی پارٹی کو عوام میں زندہ رکھنے اور پھیلانے کے لئے ان کے لئے اپوزیشن میں رہنا ہی بہتر رہے گا۔انہیں جدو جہد کو اپنی منزل بنانا چاہئے اور جس ریاست میں انہیں فیصلہ کن کامیابی حاصل ہو وہیں حکومت بنانا چاہئے۔ دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر وہ اپنے ساتھیوں کو انقلابی راستے سے ہٹا دیں گے۔ ہمارے ملک میں عمران خان تبدیلی کا نعرہ لے کر اٹھے تھے مگر وہ کچری وال جیسا جرات مندانہ فیصلہ کرنے سے قاصر رہے اور مخلوط حکومت بنا کر اپنے کارکنوں کو انفرادیت اور مثالی سیاست کے راستے سے دورکرنے والا راستہ چنا۔ اس طرح پاکستان میں تیسری آپشن کا تجربہ کامیابی سے دور ہوتا جا رہا ہے جبکہ کچری وال نے حکومت کے لالچ میں آکر اپنا راستہ چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے‘ ورنہ وہ کل چاہیں تو کانگریس کے8امیدواروں کو ساتھ ملا کر حکومت بنا سکتے ہیں مگر وہ ایسا نہیں کر رہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں