حال میں ڈیوڈ رودھ (David Rodh) کی ایک کتاب "Beyond War" پڑھنے کا موقع ملا۔ اس کا ایک باب شرق اوسط کی مختلف قدیم تہذیبوں‘ ادب ‘ رسومات اور طرز زندگی پر جدید و قدیم کے امتزاج پر مبنی ہے۔ تبدیلی کی ان لہروں نے گردوپیش کے ملکوں میں نئے بھنور پیدا کر دیئے ہیں۔ ان لہروں کا منبع ترکی میں برپا ہونے والے تیز رفتار تغیرات ہیں۔ خود ترکی کے اندر معیشت اور معاشرت کی تبدیلیاں‘ مقامی رجحانات و اثرات کے نتیجے میں رونماہو رہی ہیں۔ اس عمل کے دوران‘ ترکی جس معاشی اور صنعتی ترقی سے فیض یاب ہو رہا ہے‘ اردگرد کی مسلم دنیا میں بھی اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔یہ سب کچھ گزشتہ آٹھ نو برس کے درمیان ہوا۔ ترکی کے ٹی وی ڈراموں نے گردونواح کے مسلم ملکوں میں تہذیبی تبدیلی کی رفتار میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ یہ پوری کہانی مندرجہ بالا کتاب کے ایک باب میں موجود ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اس باب کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔ آپ کو ترکی اور گردوپیش کے مسلم ملکوں میں برپا تغیرات کی جھلکیاں اپنے معاشرے میں بھی نظر آئیں گی۔ حتیٰ کہ ترکی ڈرامے نے بھی تیزرفتاری سے مقبولیت حاصل کر کے ہماری سوچوں پر اثرانداز ہونا شروع کر دیا ہے۔یہ تحریر پڑھ کے آپ اندازہ کر سکیں گے کہ شریف برادران باربار ترکی کیوں جاتے ہیں؟ پاکستان میں بھی ترک معاشرے سے ملتے جلتے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ خصوصاً مذہب اور تہذیب کے حوالے سے ہمارے معاشروں میں کافی مشابہتیں ہیں۔ ہمارے لئے ترقی اور تبدیلی کا قابل عمل ماڈل ترکی میں ہی دستیاب ہے۔ ہمارے لئے وہی راستے ری ڈیزائننگ کے ساتھ کارآمد ثابت ہوں گے جو ترکی نے اختیار کئے اور ہمیں تبدیلی کے لئے وہی گنجائشیں پیدا کرنا پڑیں گی‘ جو ترکی کر رہا ہے۔ترجمہ ملاحظہ فرمایئے۔
''اِدھر افغانستان اور پاکستان میں اوباما انتظامیہ کی کوششوں میں تیزی آئی، اُدھر عرب بہار نے اوّل اوّل امریکیوں پر بہت خوش گوار اثر ڈالا مگر پھر اُنھیں تشویش میں مبتلا کر دیا۔
شرق اوسط میں طویل مدّت سے بر سرِ اقتدار تین آمروں کو 2010 ء اور 2011ء کے حیران کر دینے والے نَو (9)مہینوں کے دوران تیونس اور مصر میں عوامی مظاہروں کے ذریعے اور لیبیا میں مسلح بغاوت کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔ یمن، کویت، اردن، عمان اور مراکش کے ہمہ مقتدر حکمرانوں نے بھی حزبِ اختلاف کو سیاسی رعایتیں دیں۔
2012ء میں آمر اور غیر مصالحت پسند حکمران مقابلے پر اتر آئے ۔ شام کے صدر بشار الاسد نے پُر امن مظاہروں کو تشدد سے دبایا تو ایک ہولناک خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ بحرین کے سُنّی حکمرانوں نے قانونی حقوق سے محروم ‘شیعہ اقلیت کے مظاہرے کُچل دیے ۔ سعودی حکومت نے سرکاری سہولتوں میں اربوں ڈالر کی سہولتوں کا اضافہ کر کے مخالفوں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
آخرِ کار 2012ء کے موسمِ خزاں میں عدمِ استحکام تُرکی تک پھیل گیا، جو امریکہ کا قریبی اتحادی ہے اور اوباما حکومت کے کارپرداز اس قوم کو خطے کے لیے ایک نمونہ تصور کرتے ہیں۔ تُرکی نے شامی حزبِ اختلاف کی پشت پناہی کی تو دونوں ملکوں میں جھڑپیں ہوئیں۔ کشیدگی بڑھنے پر تُرک مبصّرین نے امریکہ کی غیر فعّالیت کا شکوہ کیا۔
ایک اعتدال پسند اخبار ''ملیت‘‘ کے کالم نویس ملیہ اسیک نے اکتوبر 2012ء میں لکھا، ''ہم اس وقت فیصلہ کُن مرحلے میں ہیں۔ ہمیں صرف شام ہی کا سامنا نہیں بلکہ ایران، عراق، روس اور چین بھی اُس کی پشت پر ہیں جبکہ امریکہ ہمیں اکسانے والی باتیں اور خالی خُولی وعدے کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہا‘‘۔
کئی عشرے ''یورپ کا مردِ بیمار‘‘ قرار دے کر نظرانداز کر دیے جانے والے تُرکی کے‘ معاشی و سیاسی نظام اور عزائم میں 2000ء کے عشرے سے عروج آنے لگا۔ 2012ء آتے آتے تُرکی یورپ کے تمام ملکوں سے زیادہ تیزی سے فروغ پذیر معیشت اور چار کروڑ افراد، کُل آبادی کے تقریباً 60 فی صد پر مشتمل متوسط طبقے پر فخر کا اظہار کرنے لگا۔ اوباما انتظامیہ کے کارپردازوں کے لیے‘ تُرکی شرق اوسط میں حکمرانی کے تین ناکام نمونوں ... سیکولر عرب آمریت، سخت گیر اسلام اور امریکی یلغار ...... کا متبادل تھا لیکن ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردوعان نے دو متضاد رُخ دکھائے ۔
2002ء میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سے‘ رجب طیب اردوعان کی پالیسیوں کے نتیجے میں ترکی کی فی کس آمدنی میں تقریباً تین گنا اضافہ ہو گیا۔ انہوں نے اقتدارواختیار پر تُرک فوج کی عشروں کومحیط گرفت ختم کروائی اور قرار دیا کہ اسلام، جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام‘ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ ترکی کو یورپی یونین کا حصہ بنانے کی غرض سے قدامت پسنداسلامی سیاست دان‘ رجب طیب اردوعان نے اپنے ملک کی معیشت کو پابندیوں سے آزاد کیا، عدلیہ میں اصلاحات کیں اور خواتین اور اقلیتوں کو حقوق دیے ۔ انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے قرضوں اور اصلاح کے ایک سخت پروگرام کو مکمل کر کے‘ یورپی اور امریکی کارپوریشنوں کو بھاری سرمایہ کاری پر مائل کیا۔
رجب طیب اردوعان نے اس سے متضاد آمرانہ رویے کا بھی مظاہرہ کیا۔ گزشتہ پانچ برسوں میں تُرک حکام فوجی اقتدار قائم کرنے کے لیے بغاوتوں کی سازشیں کرنے کے الزام میں 700 سے زیادہ افراد کو جیل بھیج چکے ہیں۔ اختلاف کو دبانے کی مہم کے دوران جرنیلوں، ارکانِ پارلیمان، ٹیلی ویژن سٹیشنوں کے مالکان، یونی ورسٹیوں کے پروفیسروں اور صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے ۔
رجب طیب اردوعان کے ناقدین‘ جنہیں 1999ء میں چار ماہ کے لیے جیل میں رکھا گیا تھا‘ کہتے ہیں کہ ماضی میں ان پر اور ان کی جماعت پر جبر کیا گیا تھا‘ وہ اس کا انتقام لے رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اردوعان نے ناقدین کو برسرِ عام بُرا بھلا کہا اور اب وہ اختلاف کو زیادہ برداشت نہیں کر رہے ۔ خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ ترکی‘ روس اور چین کی مثالوں پر عمل کرے گا یعنی آزاد منڈی کی معیشت کے ساتھ سیاسی جبر سے کام لے گا۔
خطے میں اپنے اتحادی اور ایک نمونے کی جستجو میں اوباما انتظامیہ‘ اردوعان کی زیادتیوں پر بڑی حد تک خاموش رہی۔ ایک طرف ترکی اس امر کی مثال ہے کہ آزاد منڈی کی اصلاحات، صارفیت اور ٹیکنالوجیکل تغیر و تبدل‘ کس طرح شرق اوسط کے ایک ملک کو مکمل طور پر نئے قالب میں ڈھال سکتے ہیں؟ دوسری طرف یہ اس امر کا غماز ہے کہ خطے میں سیاسی اصلاح کا عمل کس قدر سست رو ہو سکتا ہے۔
اس وقت ترکی کو خطے میں جو اثر و رسوخ حاصل ہے‘ ویسا اثرورسوخ امریکہ یاکسی دوسرے مغربی ملک کو حاصل نہیں۔ ترکی کے سوپ اوپیرا (ڈرامے)اس کی ایک مثال ہیں‘ جنہوں نے پورے شرق اوسط میں دھوم مچا کر اعتدال پسندوں کو زیادہ بااختیار بنایا ہے اور قدامت پسندوں کو اشتعال دلایا ہے۔
ہر ہفتے استنبول کا جدید ترین ٹیلی ویژن سٹوڈیو ''عظیم الشان صدی‘‘ کے عنوان سے ڈراما سیریز نشر کرتا ہے جو اصل میں امریکہ کی ''کلچر وار‘‘ کا اسلامی روپ ہے ۔ایک خوب صورت ترک اداکار‘ سلیمان عالی شان کا کردار ادا کر رہا ہے ۔ سلیمان عالی شان ایک عثمانی حکمران تھا‘ جس نے مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے وسیع و عریض علاقے فتح کیے تھے ، عیسائیوں اور یہودیوں کو بنیادی حقوق دیے تھے اور تعلیم، سائنس اور فنون کو فروغ دیا تھا۔ اس ڈرامے کی ابتدائی اقساط میں سلیمان عالی شان کو نوجوانی میں‘ حرم کے اندر نیم ملبوس لڑکیوں کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے اور شراب پیتے دکھایا گیا تھا۔اس ڈرامے میں جنسیت فراواں ہے ۔(جاری)