جنوری 2011ء میں‘ اس ڈرامے کے آغاز کے بعد اردوعان اور بہت سے ترک قدامت پسندوں نے شکوہ کیا کہ اس ڈرامے میں ایک ایسے مکرم و محترم حکمران کی شخصیت مسخ کی گئی ہے‘ جسے ''قانونی‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اور جس کی دلیری اور قانونی اصلاحات نے عثمانیوں کو اُن کے اقتدار کے نصف النہار پر پہنچا دیا تھا۔ اردوعان نے اس ڈرامے کے بارے میں کہا ''یہ ہمارے ماضی کی توہین اور ہماری تاریخ کی تذلیل کرنے کی کوشش ہے۔ یہ نوجوان نسل کو ہماری تاریخ منفی روشنی میں دکھانے کی کوشش ہے‘‘۔
ناقدین نے اس ڈرامے کے بل بورڈز پر انڈے مارے، اسے نشر کرنے والے ٹیلی ویژن سٹیشن کے باہر مظاہرے کیے اور ترک حکومت کے ٹیلی ویژن سے متعلق ادارے میں ستر ہزار سے زیادہ شکایات درج کروائیں۔ اس کے بعد ڈرامے کے پروڈیوسروں نے بوس و کنار کے مناظر کم کر دیے اور جنسی میلان کو اکسانے والے دیگر عناصر کو دھیما کر دیا۔
ڈرامے کے پروڈیوسروں نے‘ انٹرویوز میں اس ڈرامے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ دیگر تصورات کا بھی حامل ہے۔ اس کا غالب کردار ایک عورت تھی، جو ایک یوکرائنی کنیز تھی اور جو آخرِ کار سلیمان عالی شان کی ملکہ بنی۔ اس ڈرامے میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو مل جل کر زندگی بسر کرتے دکھایا گیا ہے۔
حالت ارجینک نے سلیمان عالی شان کا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے 2012ء کے موسمِ بہار میں دیے گئے ایک انٹرویو میں فخریہ کہا تھا کہ اس ڈرامے میں مذہبی رواداری دکھائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا ''عثمانی سلطنت کا یہ سب سے اہم وصف تھاکہ مختلف تہذیبوں اور مذاہب کے لوگ مل جل کر زندگی بسر کرتے تھے اور ان کے حقوق کا احترام کیا جاتا تھا۔ اسی وصف کی وجہ سے ایک ہی خاندان کی حکومت صدیوں برقرار رہی‘‘۔
2012ء کا موسمِ خزاں آتے آتے ''عظیم الشان صدی‘‘45 ملکوں میں دکھایا جا رہا تھا اور مشرقِ وسطیٰ کا سب سے مقبول ڈراما بن چکا تھا۔ اس سے قبل بھی متعدد ترک ٹیلی ویژن ڈرامے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔
امکان ہے کہ جسے کبھی عالمِ اسلام کا ثقافتی انقلاب کہا جائے گا، اس کا آغاز 2006ء میں ہوا تھا۔ سعودیوں کے ملکیتی ایک عربی سٹیلائٹ ٹیلی ویژن چینل ایم بی سی نے ایک عام سے ترک ڈرامے''گمش‘‘ کی نمائش کے حقوق حاصل کیے ۔ اس کا نام ڈرامے کی ہیروئن کے نام پر رکھا گیا تھا، جس کے ترکی زبان میں معنی ہیں ''چاندی‘‘۔ اس ڈرامے کی کہانی غربت سے امارت تک سفر کی کلاسیکی کہانی تھی۔ امیر گھرانے میں بیاہی جانے والی ایک غریب لڑکی کی زندگی کے واقعات دکھائے گئے تھے۔ اس ڈرامے کو عوامی عربی زبان میں ڈب کیا گیا تھا، ہیجان انگیز مناظر نکال دیے گئے تھے اور عنوان بدل کر ''نور‘‘ رکھا گیا تھا۔ یہ ڈرامہ پورے شرق اوسط میں نہایت مقبول ہوا۔
مغربی ڈراموں کے برعکس‘ اس میں ایک مشترک خاندان کی عکاسی کی گئی تھی، جو ترکی کی ایک مستحکم روایت ہے۔ 2008ء میں اس کی آخری قسط 15 سال سے زیادہ عمر کے ساڑھے آٹھ کروڑ افراد نے دیکھی۔ ناظرین میں پانچ کروڑ عورتیں بھی شامل تھیں۔ یہ عرب دنیا میں بالغ عورتوں کی مجموعی تعداد کے نصف سے زیادہ تھی۔
''عظیم الشان صدی‘‘ کی طرح ''نور‘‘ میں بھی قدامت پسندانہ ثقافتی معیارات توڑے گئے ہیں۔ بعض مسلمان کرداروں کو رات کا کھانا کھاتے ہوئے شراب پیتا اور شادی سے پہلے جنسی تعلقات استوار کرتے دکھایا گیا ہے۔ ایک خاتون کے کردار کو اسقاطِ حمل کرواتے دکھایا گیا ہے۔ ڈرامے کا دلکش موڑ یہ تھا کہ مرکزی مرد کردار مہند‘ ایک اعتدال پسند اور جدید ہیرو ہے۔ وہ محبت کرنے والا، توجہ دینے والا اور وفادار خاوند ہے۔ وہ فیشن ڈیزائنر بننے میں اپنی بیوی کا بھرپور ساتھ دیتا ہے اور اس کے ساتھ مساویانہ سلوک کرتا ہے۔ روایتی وفاداری اور جدید آزادی پر مبنی ان کی کامیاب ازدواجی زندگی عورتوں میں بہت مقبول ہوئی اور نئی روایات رائج کرنے کا باعث بنی۔ عربی زبان کے بعض اخبارات نے خبریں شائع کیں کہ اس ڈرامے کو دیکھنے کے بعد بہت سے ملکوں میں شادی شدہ جوڑوں میں بحث و تکرار ہوئی اور حد تو یہ ہے بعض جوڑوں میں نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔
ترک دانش وروں کا یقین ہے کہ ان ڈراموں نے شرق اوسط میں ثقافتی معیارات کو بڑی نفاست سے بدل دیا ہے۔ استنبول کی بلگی یونی ورسٹی میں عمرانیات کے پروفیسرآئیدن اُگر نے ایک انٹرویو میں مجھ سے کہا ''ان ڈراموں میں ایک متوازن سمجھوتہ دکھایا گیا ہے۔ عورتیں آزادہ رَو نہیں بلکہ اعتدال پسند دکھائی گئی ہیں‘‘۔
سعودی عرب میں قدامت پسند مذہبی پیشوائوں نے ''نور‘‘ کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے اس ڈرامے کو ''لہوولعب‘‘ اور ''سعودی معاشرے پر سیکولر ترک حملہ‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے لوگوں کو کہا کہ وہ یہ ڈراما نہ دیکھیں اور لوگوں کو اس کے دو کرداروں کی تصاویر والی ٹی شرٹس پہن کر نماز ادا کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ ایک سعودی مذہبی کونسل کے سربراہ نے کہا کہ ایم بی سی کے مالک پر مقدمہ دائر کیا جانا چاہیے اور بے ہودہ مواد کی نمائش پر‘ سزائے موت دینی چاہیے۔ پورے خطے کی حکومتوں نے انہیں نظر انداز کر دیا۔
نور کی آخری قسط نشر ہونے کے بعد‘ ترک ڈرامے خطّے میں زیادہ مقبول ہو گئے اور عرب اور مغربی صحافیوں نے زیادہ اچھے انداز میں ان پر تبصرے لکھنا شروع کیے۔ ان ڈراموں نے نہ صرف ثقافتی ٹیبوز کو توڑا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ دکھایا کہ ترکی ایک مسلمان ملک ہونے کے باوجود جدید اور خوش حال بھی ہے۔
نور کے پانچ سال بعد نشر ہونے والا ڈراما ''عظیم الشان صدی‘‘ ترکی کی‘ بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت‘ ثقافتی جدت اور امارت کا عکاس ہے۔ یہ ترک تاریخ کا سب سے مہنگا ڈراما ہے۔ اس کے پروڈیوسر نے اس کی ایک قسط کی تیاری پر پانچ لاکھ ڈالر خرچ کیے۔ یہ لاگت دوسرے ڈراموں کی نسبت دگنا ہے۔ اس کے اجرا کی تقریب فرانس کے شہر کانز میں منعقد کی گئی تھی۔ اس کا سیٹ استنبول میں واقع ''توپ کاپی محل‘‘ کے پندرہ عالی شان کمروں میں لگایا گیا جہاں حقیقی سنگِ مرمر کے فرش تھے‘ ہاتھ کا لکڑی کا نفیس کام تھا اور یورپی اور عثمانی بادشاہوں کے درباروں کی عکاسی کی گئی تھی۔ اداکاروں نے ترکی کے ایک ممتاز کاسٹیوم ڈیزائنر کے تیار کردہ‘ ریشم اور مخمل کے زرق برق لباس پہنے۔ دو ترک بھائیوں دُرُل ٹیلان اور یگمر ٹیلان نے اس کی ہدایت کاری کا فریضہ انجام دیا۔
میں نے ان کے سٹوڈیو کا دورہ کیا تو دُرُل نے مجھے بتایا ''اس سے پہلے کبھی ایسا کام نہیں کیا گیا‘‘۔ انٹرویوز میں ہدایت کاروں اور اداکاروں نے بہ اصرار کہا کہ یہ ڈراما غیر سیاسی ہے۔ سلطان سلیمان کا کردار ادا کرنے والے اداکار ارجینک نے کہا ''اس میں نہ تو کوئی سیاسی پیغام ہے اور نہ ہی کوئی ثقافتی پیغام۔ یہ تو ایک ٹی وی ڈرامہ ہے‘ جس کا ٹی وی سیریز بنایا گیا ہے‘‘۔
ترک ڈرامے بنانے والے ارادتاً یا غیر ارادی طور پر ایک تیزی سے تبدیل ہوتے خطّے میں‘ نئے کردار‘ نئے ہیرو اور نئے ثقافتی معیارات تخلیق کر رہے ہیں۔
خطے میں ترکی کا معاشی اثرورسوخ بھی عروج پر ہے ۔ اردوعان عرب بہار کے ابتدائی حامیوں میں شامل تھے۔ تیونس، مصر اور لیبیا میں آمروں کو اقتدار سے بے دخل کر دیے جانے کے بعد‘ انہوں نے خطّے کا ایک فاتحانہ دورہ کیا تھا۔ (جاری )