میں نے جس تیز رفتاری سے پالیسیاں اور موقف بدلتے ہوئے دیکھے‘اب ان پر حیرت زدہ ہونے کی سکت نہیں رہ گئی۔ سب کچھ اتنا عام اور معمول کی بات بن چکا ہے کہ کسی کو بھی کھڑے کھڑے بدل جانے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اگر آج میں کہوںکہ ایک زمانے میں جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی ایک ہی پوزیشن میں کھڑے تھے‘ تو کسی کو یقین نہیں آئے گا۔ لیکن حقیقت یہی ہے۔ 1970ء کے انتخابات کے فوراً بعد ایک موقع ایسا بھی تھا‘ جب جماعت اسلامی نے شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کرنے کے حق میں آواز اٹھائی تھی۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے جماعت اسلامی‘ ذوالفقار علی بھٹو کی ہمنوا ہو گئی یا یہ دونوں ایک دوسرے کے ہم خیال ہو گئے‘ جیسے کبھی ان کے مابین اختلاف تھا ہی نہیںاور پھر پل بھر میں یہ ماجرا ہو گیا کہ مشرقی پاکستان کے عوام پر فوج کشی کر دی گئی‘ تو بھٹو صاحب نے کہا ''خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔‘‘ اور پاکستان بچانے کی فوجی کارروائی میں جماعت اسلامی عملاً عوام کی بھاری اکثریت کے خلاف میدان جنگ میں اتر آئی اور دونوں نے مل کر پاکستان ''بچانے‘‘ کی خاطر ڈھاکہ کی گلیوں میں ٹینک دوڑا دیئے۔ نوجوانوں اور ان کے اساتذہ کو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز سے نکال کر ان کا اجتماعی قتل عام کرتے اور پاکستان کو بچاتے رہے اور آپ کو حیران کئے بغیر وہ آج بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم نے دفاع پاکستان کے لئے قربانیاں دیں۔ 41سال تک جماعت اسلامی سمیت کسی کوبنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کا خیال نہیں آیا۔ اگر کبھی آواز اٹھتی‘توان محصور پاکستانیوں کے حق میں اپیل کی صورت میں ہوا کرتی‘ جنہوں نے اپنے آپ کو بنگلہ دیش کا شہری ماننے سے انکار کر دیا تھا۔مگر اس بار یوں ہوا کہ حکومت پاکستان نے خود جماعت اسلامی کے ایک بزرگ کارکن عبدالقادر ملا کو پھانسی دیئے جانے کے خلاف کثرت رائے سے قرارداد مذمت پاس کی اور وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس کی حمایت میں بڑے جوش و خروش سے ایوان میں خطاب کیا۔
بنگلہ دیشی حکومت نے تو اپنے عدالتی نظام کے ذریعے قانونی کارروائی کرتے ہوئے‘ بقول جماعت اسلامی ''ایک پاکستانی‘‘ کو پھانسی دی۔ جو یقینا قابل مذمت ہے۔ اس پر بعد میں رائے دوں گا۔ مگر جو دہشت گرد پاکستانیوں کو بموں سے اڑا رہے ہیں۔ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کی گردنیں کاٹتے ہیں اور پاکستانی شہریوں کو کراچی تک پہنچ کرموت کی سزائیں دیتے ہیں‘ ان کے ساتھ چوہدری صاحب مذاکرات کے لئے بے چین ہیں۔ انسانی اور برادرانہ محبت اور ہوتی ہے اور سیاسی محبت اور۔ عبدالقادر ملا کے لئے آنسو بہانا قابل قدر ہے۔ مگر یہ سارے آنسو سیاسی ہیں۔ ورنہ جس جماعت اسلامی کو آج 42سال کے بعد اپنے ساتھی اور پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والوں کی یاد آئی‘ انہیں اس وقت کیوں بھلا دیا گیا؟ جب جماعت اسلامی خود بنگلہ دیش کے حکمرانوں میں شامل تھی۔ وہ بیگم خالدہ ضیا اور جنرل ارشاد ‘ دونوں کے دور حکومت میں کابینہ کا حصہ تھی اور حسب روایت اقتدار کو پوری طاقت کے ساتھ استعمال کر رہی تھی۔ کیا اس وقت وہ تمام مقدمات ختم نہیں کرا سکتی تھی‘ جو پاک فوج کا ساتھ دینے والوں کے خلاف بنائے گئے تھے؟ ورنہ کوئی ایسا قانون تو بنوا ہی سکتی تھی کہ 1971ء کے واقعات میں ملوث تمام افراد کے خلاف درج شدہ مقدمے ختم اور نئے مقدمات قائم کرنے پر پابندی لگا دیتی؟ عبدالقادر ملا آج اس لئے پھانسی چڑھے کہ ان کی جماعت نے دومرتبہ حکومت میں رہ کر‘ انہیں مقدمات سے ہمیشہ کے لئے محفوظ نہیں کیا۔
میں ایک عبدالقادر ملا کا نہیں‘ تمام مشرقی پاکستانیوں پر گزرنے والے ان المیوں پر غمزدہ ہوں‘ جن سے وہ پاکستان بنانے کے جرم میں آج تک گزر رہے ہیں۔1947ء سے لے کر 1971ء تک کا زمانہ وہ مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی زیادتیوں کا شکار ہوتے رہے۔ انہیں اپنے ہی ملک کے وسائل میں کبھی پورا حصہ نہ دیا گیا۔ اکثریت کے باوجود وہ اپنے حقوق حاصل نہ کر سکے۔ ہندو سے لڑنے والے مشرقی پاکستانیوں کو ہندوئوں کا ایجنٹ کہا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن جو طالب علمی کے زمانے میں مسلم لیگ کے جلسے جلوسوں میں حصہ لینے کلکتہ سے پیدل ڈھاکہ آیا کرتا تھا‘ اسے بھارت کا ایجنٹ کہا گیا اور کسی کو یاد نہ رہا کہ وہ ہندو سامراج کا مخالف اور پاکستان کی آزادی و خودمختاری کا زبردست حامی تھا۔ 6نکات پیش کرنے سے پہلے تک وہ ایک عام شہری کی حیثیت میں تو شاید کولکتہ گیا ہو۔ لیکن بھارتیوں کے ساتھ اس کے رابطوں کا حوالہ نہیں ملتا۔ حتیٰ کہ اس کے خلاف جو اگرتلہ سازش کیس بنایا گیا تھا‘ وہ جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا۔ اگر وہ بھارت کا ایجنٹ بنا‘ تو یہ فرض خود اس کے پاکستانی بھائیوں نے انجام دیا تھا اور جیسا کہ میں اکثر دہراتا ہوں ‘ شیخ مجیب نے 1970ء میں جب وہ لاہور کے دورے پر آئے تھے‘ اپنے میزبان برکت علی سلیمی ایڈووکیٹ کے گھر شاہ جمال کالونی میں انٹرویو دیتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ ''میں پاگل ہوں‘ جو پورے پاکستان کی حکومت چھوڑ کر‘ آدھے پاکستان کی حکومت مانگوں؟‘‘ شیخ مجیب کے اس سوال کا جواب نہ اس وقت کوئی دے سکا تھا اور نہ آج تک دے سکا ہے۔
مشرقی پاکستان نے خون میں نہا کر اس پاکستان سے علیحدگی حاصل کی‘ جسے حاصل کرنے میں 70فیصد سے زیادہ جدوجہد خود انہوں نے کی تھی۔ بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ جسے وہ آزادی سمجھ رہے تھے‘ وہ ان کی غلامی کے ایک نئے اور طویل دور کا آغاز تھا اور وہ تھی بھارت کی بالادستی۔ 90ء کے عشرے کے اوائل میں جب میں ڈھاکہ گیا‘ تو وہاں متعدد
سینئر لیڈروں سے ملاقات کے مواقع ملے۔ ان جج صاحب سے بھی ملاقات ہوئی‘ جنہوں نے جنرل ٹکا خان کو گورنری کا حلف دینے سے انکار کر دیا تھا۔حسین شہید سہروردی کے پوتے سے ملاقات ہوئی۔ عبدالجبار خان کے بیٹے سے گفتگو ہوئی اور پھر عوامی لیگ کے کئی سرگرم لیڈروں کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کیا۔ تمام مشرقی پاکستانی خواہ وہ بحران کے زمانے میں پاکستان میں حامی تھے یا مخالف‘ ایک بات پر سب کا اتفاق تھاکہ پاکستان سے الگ ہو کروہ بھارت کے شکنجے میں آ گئے ہیں۔ ڈھاکہ میں چیمبر آف کامرس کے صدر سے بات چیت ہوئی‘ تو انہوں نے عجیب کہانی سنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان میں ہم مسلمانوں کے پاس کوئی بڑا کاروبار نہیں ہوتا تھا۔ صنعتوں اور منڈیوں میں ہندو کی اجارہ داری تھی۔ جب جنرل اعظم خان گورنر بن کر آئے‘ تو انہوں نے ہمیں گھروں سے بلا بلا کرقرضے دیئے۔ کارخانے لگانے کے لئے زمینیں دیں اور کہا کہ کاروبار کر کے آگے بڑھو۔ ورنہ ہندو اپنی کاروباری بالادستی اور سرمائے سے ہمیشہ تمہیں دبا کے رکھے گا۔ آج ڈھاکہ میں جتنے بھی مسلمان صنعت اور کاروبار میں کوئی حیثیت رکھتے ہیں‘ وہ سب پاکستان کے مرہون منت ہیں۔ مگر آزادی کے بعد اب ہم پر بھارت کا غلبہ ہے۔ وہاں کے سرمایہ دار ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیتے۔ ہمارے ملک کی معیشت پر بھارتی غالب ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہم مغربی پاکستان والے آزاد رہ گئے۔ غلامی کے شکنجے میں ہم بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ تسلی ہے کہ ہم پر حکومت کرنے والے یا ہمیں غلام بنا نے والے ہندو نہیں۔ یہ اپنے آپ کو تسلی دینے والی بات ہے۔ ہم دونوں مصیبت میں ہیں۔ مگر مشرقی پاکستانیوں کے پاس اپنی امیدیں پوری کرنے کے راستے زیادہ کھلے اور کشادہ ہیں۔ جبکہ ہمارے راستے تنگ ہوتے جا رہے ہیں۔ انتہاپسندی‘ معیشت کا زوال‘ سیاسی ڈھانچے کی شکستگی‘ یکجہتی سے محرومی‘ یہ سب ایسی چیزیں ہیں‘ جن سے طویل مدت تک نجات حاصل نہیں کی جا سکتی۔ بنگلہ دیش بیشک معاشی طور پر بھارت کے دبائو میں ہے لیکن اس میں آگے بڑھنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔ اس نے عالمی منڈیوں میں اپنے لئے اچھا مقام حاصل کر رکھا ہے۔ اس کے تاجر اور صنعتکار مقابلے کی عالمی منڈی میں اپنی اہلیت ہم سے بہتر انداز میں ثابت کر رہے ہیں۔وہاں کی حکومت کو 42سال کے بعد ایک بزرگ انسان کو پھانسی دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ میرا خیال ہے‘ حسینہ واجد نے آنے والے انتخابات میں بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر یہ جھک ماری ہے۔ ورنہ شیخ مجیب الرحمن نے تو بنگلہ دیش میں قدم رکھتے ہی عام معافی کا اعلان کر دیا تھا اور جب تک وہ زندہ رہے‘ انہوں نے پاکستان کی حمایت کرنے کے الزام میں کسی کو پھانسی نہیں دی۔ ہمارے ہاں بھی جو لوگ اس پھانسی پر سیاست کر رہے ہیں‘ ان کے بارے میں عرض کر ہی چکا ہوں کہ اگر انہیں اپنے پرانے ساتھیوں سے اتنی ہی محبت تھی‘ تو اپنے دور حکومت میں انہیں ہمیشہ کے لئے عام معافی دینا کیوں بھول گئے تھے؟سب سیاست ہے۔