اس اہم‘ سنجیدہ اور انتہائی اہمیت کے حامل قومی مسئلے کو نظرانداز کرنا مشکل ہے‘ جس نے ہماری قومی اسمبلی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان ڈیڈلاک پیدا کر رکھا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اپوزیشن کا موقف کیا ہے اور حزب اقتدار کا کیا؟مسئلہ یہ ہے کہ دونوںاپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور دونوں کو یہ پتہ نہیں کہ جس موقف میں وہ پھنس گئے ہیں اس سے باہر کیسے نکلیں؟ دونوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ انہوں نے سینگ کیوں پھنسا رکھے ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ دونوں یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کے درمیان اختلاف کس بات پر ہے؟ اور یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اور اپنے اپنے موقف کے حق میں دلائل کیا دیں؟ صرف ایک لفظ ''تماشہ‘‘ ہے‘ جس نے دونوں کو تماشہ بنا رکھا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے‘ تحریک انصاف کی قیادت کے طرز عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے‘ کہہ دیا کہ ''اس نے تماشہ لگا رکھا ہے۔‘‘ شاید اس سے ملتا جلتا کوئی جملہ کہا گیا ہو۔ لیکن جو کچھ اخباروں میں پڑھا‘ اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ جھگڑا تماشہ کے لفظ پر ہے۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ تماشہ کا لفظ غیرپارلیمانی ہے‘ وزیرداخلہ اسے واپس لیں اور وزیرداخلہ اسمبلی کے ریکارڈ سے یہ تاریخی اور نادرروزگار تحقیق کر کے لے آئے کہ یہ لفظ قریباً 50مرتبہ پارلیمنٹ میں استعمال ہو چکا ہے۔ آج بھی قومی اسمبلی کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ میں نے تو اسے صرف دہرایا ہے۔ چوہدری نثار کو اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر آج انہوں نے تماشہ کا لفظ واپس لے لیا‘ تو کل ان سے کہا جائے گا کہ پوری تقریر واپس لو۔ یہ کام زیادہ مشکل ہے۔ ایک آدھ لفظ تو بندہ واپس لے سکتا ہے‘ پوری تقریر واپس لینا پڑی‘ تو پندرہ بیس جملوں کے بعد ہی آنکھیں باہر نکلنے لگیںگی اور جب تک ساری تقریر واپس لیں گے‘ دیدے جھولی میں آ گریں گے اور چوہدری صاحب کاحلیہ کچھ سے کچھ ہو جائے گا۔
ایسا ہوتا نہیں۔ مگر چوہدری صاحب پوری تقریر واپس لینے سے‘ جس طرح خو فزدہ ہو رہے ہیں‘ اس سے یہی لگتا ہے کہ وہ اسی قسم کے خطرے سے ڈر رہے ہیں۔حالانکہ لفظ یا الفاظ واپس لینے میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ لفظ ایک واپس لیں یا پوری تقریر‘ جملہ ایک ہی استعمال کرنا پڑے گا۔ تماشہ کا لفظ واپس لینے کے لئے کہنا ہو گا کہ ''میں اپنا لفظ واپس لیتا ہوں‘‘ اور تقریر واپس لینے کے لئے کہنا ہو گا کہ ''میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔‘‘ دراصل چوہدری صاحب کا مسئلہ سیاسی نہیں‘ خاندانی ہے۔ وہ راجپوت ہیں اور راجپوت کی ہٹ ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔کہاوت ہے کہ راجپوت کو جیل میں چکی بھی پیسنا پڑ جائے‘ تو وہ ایک ٹانگ اوپر کے پاٹ پر رکھ کر آٹا پیستا ہے۔ دونوں پیروں پر بیٹھ کر‘آٹا پیسنے میں آسانی رہتی ہے اور سب اسی طرح کرتے ہیں۔ جب راجپوت سے پوچھا گیا کہ ''چکی کے اوپر ٹانگ رکھ کر اپنی مشقت کو چار گنا کیوں کر رہے ہو؟‘‘ تو جواب ملا کہ ''راجپوت مشقت سے نہیں ڈرتا۔ یہ تم جیسے بزدلوں کا کام ہے۔ راجپوت کی شان اس میں ہے کہ اس کا پیر اوپر رہے۔‘‘چوہدری صاحب بھی ان دنوں سینٹ اور قومی اسمبلی میں‘ راجپوتی شان کا قابل فخر مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے اپوزیشن کو سینٹ سے نکال کر سڑک پر بٹھایا اور پارلیمنٹ کی عمارت کے اندر‘ کھڑکی میں کھڑے ہو کراپوزیشن کی خواری دیکھ کر خوش ہوتے رہے اور اس مرتبہ انہوں نے قومی اسمبلی کو راجپوتی شان دکھانے کے لئے منتخب کرلیا ہے۔ اس معاملے میں دو طرح کی رائے ہو سکتی ہے۔ ایک یہ کہ چوہدری صاحب نے اپنی خاندانی شان دکھانے کی خاطر ایسا کیا ہے اور دوسری رائے کا میں نے گزشتہ روز کے کالم میں ذکر کیا کہ چوہدری صاحب نے‘ محیرالعقول وزیرخزانہ جناب اسحق ڈار کے لئے میدان صاف کیا تھا کہ ایوان کو اپوزیشن سے خالی کر کے‘ انہیں اپنی دھواں دھار تقریر کے لئے پرسکون اور دوستانہ ماحول فراہم کیا جائے۔ کم از کم میں چوہدری صاحب کے اس انتظام پر ان کی ستائش کروں گا کہ انہوں نے ڈار صاحب کو پرجوش خطیب کی طرح مظاہرہ فن کا موقع فراہم کر دیا۔ ورنہ ڈار صاحب کی تقریریں عموماً کلاس روم لیکچر کی طرح ہوتی ہیں اور سننے والے بھی انہیں ایک صاحب علم‘ معتبر اور معزز مقرر سمجھ کر سنتے ہیں۔ ڈار صاحب کو موچی دروازہ طرز کی تقریر کرتے‘ شاید ہی کسی نے سنا ہو۔ انہیں قومی اسمبلی میں چاروں طرف اپنے ہی اپنے‘ بیٹھے دکھائی دیئے اور ڈار صاحب کو یقین ہو گیا کہ ان کے خاندانی مقام اور رتبے کو دیکھتے ہوئے کسی میں ہمت نہیں کہ سرگوشی کی جرأت بھی کر سکے‘ تو ان کے اندر کا جنگجو بیدار ہو گیا اور پھر انہوں نے اپوزیشن پر اس طرح تابڑتوڑ حملے کئے‘ جیسے باتھ روم سنگر لہرا لہرا کے تانیں لگاتا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے ‘ ڈار صاحب تقریر کرتے ہوئے شورش کاشمیری لگ رہے تھے۔ کسی کا خیال ہے وہ شیخ رشید کو مات دے گئے اور بعض کہتے ہیں کہ شیخ رشید‘ مخالفین کو قدرے بہتر الفاظ اور لہجے میں مخاطب کرتے ہیں۔لفظ ''تماشہ‘‘ پر ہونے والا جھگڑا تو خیر کسی نہ کسی طرح ختم ہو جائے گا، لیکن اس کی وجہ سے ایوان کو ڈار صاحب کے خطیبانہ جوہر دیکھنے کا موقع ضرور مل گیا۔ کچھ گستاخ لوگوں کا خیال ہے کہ اپوزیشن‘ چوہدری نثار پر بلاوجہ خفا ہو رہی ہے‘ اصل تماشہ تو ڈار صاحب نے لگایا۔
اب اس شرپسند اور فتنہ پرور لفظ ''تماشہ‘‘ پر پیدا ہونے والے تنازعے کی طرف آتے ہیں۔ میں نے لکھا تھا کہ دونوں برسرپیکار فریقوں کو یہ پتہ نہیں کہ وہ باہم دست و گریبان کیوں ہیں؟ اپوزیشن کی ضد ہے کہ لفظ تماشہ غیر پارلیمانی ہے اور چوہدری نثار کا اصرار ہے کہ ''یہ پچاس مرتبہ پارلیمانی ہے۔ میری باری آئی تو غیرپارلیمانی کیسے ہو گیا؟‘‘ اصل میں دونوں سچے ہیں۔ صرف اپنی اپنی بات کہہ نہیں پا رہے۔ لفظ ''تماشہ‘‘ یقینا غیرپارلیمانی نہیں۔ اعتراض کی وجہ محل استعمال ہے۔ جب سعادت حسن منٹو پر فحش نگاری کا مقدمہ قائم کیا گیا‘ تو انہوں نے عدالت میں اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''مائی لارڈ! لفظ خود فحش نہیں ہوتا۔ فحاشی موقع محل میںہوتی ہے۔ ‘‘ منٹو نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ''دوسری جماعت کے قاعدے میں یہ جملے پڑھائے جاتے ہیں۔ چپ رہ۔ کسی سے مت کہہ۔ پُل پر چل۔ غُل مت کر۔‘‘دوسری جماعت کے قاعدے کے یہ جملے سنا کر منٹو نے کہا ''مائی لارڈ! قاعدے میں پڑھائے جانے والے یہ الفاظ اپنی جگہ ہرگز فحش نہیں اور نہ ہی انہیں کوئی فحش قرار دیتا ہے۔ لیکن جب شام کے ملگجے میں‘ باغ کے گوشے میں چھپ کر بیٹھے نوجوان جوڑے میں سے لڑکا لڑکی سے یہ کہتے ہوئے سنائی دے‘ تو یہی الفاظ فحش ہو جاتے ہیں۔‘‘ اپوزیشن کا اصل غصہ لفظ ''تماشہ‘‘ پر نہیں۔ اس کے محلِ استعمال پر ہے۔ یہی بات اپوزیشن کہتی ہے۔ لیکن اپنا مدعا مناسب طریقے سے بیان نہیں کر پا رہی۔ خورشید شاہ نے کئی بار کہا بھی ہے کہ انہیں اس لہجے پر اعتراض ہے‘ جس میں یہ لفظ استعمال کیا گیا۔ اس اعتراض کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ لفظ واپس لیا جائے۔ لفظ پر تو کوئی اعتراض ہی نہیں۔اعتراض ‘ اس انداز اور لہجے پر ہے‘ جس میں یہ لفظ استعمال کیا گیا۔ ایسی صورت میں لفظ واپس لینے کا مطالبہ غیرمنطقی ہے۔ مطالبہ یہ ہونا چاہیے کہ چوہدری صاحب اپنے اس تحقیر آمیز انداز پر معذرت کریں‘ جس میں انہوں نے یہ لفظ استعمال کیا۔ لفظ واپس لینے کا مطالبہ بلاجواز ہے۔ اسی پر چوہدری صاحب نے ضد لگا رکھی ہے اور وہ درست کہتے ہیں۔ اپوزیشن اپنی بات واضح کر کے‘ ان سے لفظ واپس لینے کا مطالبہ کرے‘ تو ہو سکتا ہے کہ چوہدری صاحب قائل ہو جائیں۔ معذرت کرتے ہوئے وہ اپنا ایک پائوں چکی کے اوپر ضرور رکھیں گے اور ایسا کرنا ان کا حق ہے۔ چار روز سے جاری یہ بحث ‘ جس میں دونوں فریق یہ جانے بغیر‘ الجھے ہوئے ہیں کہ وہ کیوں الجھے؟ اسے ختم کرنے کے لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ --غل مت کر۔