چھوٹی چھوٹی مزدوریاں کرنے والے‘ مجبور اور بے بس قسم کے لوگ‘ جو گھر کے دھلے ہوئے کپڑے استری کے بغیر‘ شکنوں سمیت پہن کے گھروں سے محنت کرنے نکلتے ہیں۔ کوٹ اورجیکٹوں کے بجائے‘ چادر یا کھیس لپیٹ کے سردی سے بچتے ہیں اور گھر کا خرچ پوری طرح چلا نہیں سکتے۔ گزشتہ تین چار دنوں سے تھڑوں اور چبوتروں پر جمع ہو کربڑی سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ ''ہمیں دلی کی حکومت بنانی چاہیے یا نہیں؟ ‘‘یہ کسی طنزنگار یا مزاحیہ سین لکھنے والے قلمکارکی تصوراتی باتیں نہیں۔ امر واقعہ ہے کہ دلی کے یہ غریب اور پچھڑے ہوئے لوگ واقعی حکومت بنانے یا چھوڑنے کے مسئلے سے دوچار ہیں اور ان کے ووٹوں سے جیت کر آیا ہوا کچری وال باقاعدہ اپنی 1000سی سی کی چھوٹی سی کار میں بیٹھ کر ‘ گورنر ہائوس کی دعوت قبول کر کے وہاں جا رہا تھا‘ جہاں صوبائی اسمبلی کے اراکین بھی لمبی لمبی گاڑیوں میں بیٹھ کر جایا کرتے تھے۔ یہی ٹھاٹ وزیروں کے ہوتے۔ یہی کروفر افسروں کا ہوتا۔ مگر اس دن یہ منشی منقہ ٹائپ آدمی‘ اپنی چھوٹی سی کار خود ڈرائیو کرتا ہوا‘ گورنر ہائوس کا بڑا گیٹ کھلوا کر اندر داخل ہوا۔ باوردی گارڈز اور پہریدار اسے دھڑا دھڑ سیلوٹ کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ایک ہجوم تھا۔ ایسے غریبوں اور دھتکارے ہوئے لوگوں کا ہجوم‘ جنہیں بڑے بڑے سیٹھ‘ صرف ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ سٹیشنوں پر لے جاتے اور پھر 5سال تک ان کا حال بھی پوچھنے نہیں جاتے تھے۔ یہ لوگ اپنے منتخب نمائندے کے ساتھ دھڑلے سے گورنرہائوس میں داخل ہو رہے تھے۔ کوئی دھکم پیل نہیں تھی۔ کوئی نعرے بازی نہیں تھی۔ ہر مزدور‘ محنت کش اور نچلے متوسط طبقے کا آدمی‘ اپنی ذمہ داریاں محسوس کر رہا تھا اور اس کے اعتماد سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ بڑی سنجیدگی سے راجدھانی دلّی پر اپنا راج قائم کرنے آیا ہے۔
دونوں پرانی حکمران پارٹیاں‘ ان کا مضحکہ اڑا رہی تھیں۔ ان پر طنزیہ ہنسی کے تیر چلا رہی تھیں۔ جیسے کہہ رہی ہوں کہ یہ لوگ دلّی کی چھوٹی سی اسمبلی میں چند نشستیں حاصل کر کے حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ ان کا انجام کیا ہونے والا ہے؟ چندہ جمع کر کے شرابیں پینے اور نشے میں آ کر‘ ایک ایک پیگ پر لڑنے والے‘ یہ غیرمہذب لوگ ‘ حکومت کیا چلائیں گے؟کرسی کے اختیارات اور وسائل دیکھ کر ان کی آنکھیں پھٹ جائیں گی۔ یہ بدمست ہو کر پاگل ہو جائیں گے اور خود ہی ناکام ہو کردھکے کھاتے ہوئے‘ ایوان اقتدار سے جانیں بچانے کے لئے بھاگیں گے۔ مگر حکمرانی کے نشے میں چُور سابق حکمرانوں کے اندازے ہر ایک گھنٹے کے بعد غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ ان کے لیڈر نے حکومت بنانے کے لئے ‘ ان کی رائے لینے کا مشورہ رسماً نہیں مانگا تھا۔ اس نے واقعی ایسا انتظام کر دیا تھا کہ صرف تین دن کے اندر ‘ایک ایک ووٹرکو اپنا خیال ظاہر کرنے کا موقع مہیا کر دیا۔ ہزاروں کی تعداد میں ایس ایم ایس کئے گئے۔ ہزاروں کارکن گلی محلوں میں بکھر گئے اور ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کے‘ اپنے اپنے محلے کے پارٹی آفس میں سروے کے نتائج کمپیوٹر میں محفوظ کرا دیئے اور پرجوش کارکنوں نے ہر گھنٹے بعد نتائج مرتب کر کے مرکزی دفتر بھیجے اور دیکھتے ہی دیکھتے نتائج سامنے آ گئے۔ 70 فیصد کارکنوں اور ووٹروں نے رائے دی کہ ہمیں حکومت بنا لینا چاہیے اور حیرت کی بات ہے کہ رائے دینے والوں نے ساتھ مشورہ بھی دیا کہ ''ہمیں حکومت بنا کر اپنے کام شروع کر دینا چاہئیں۔ اگر بیوروکریسی یا گھاگ سیاستدانوں نے سازش کر کے ہمیں باہر نکالا‘ تو ہم حکومت کو دوبارہ الیکشن پر مجبور کر دیں گے اور نئے الیکشن میں ہم فیصلہ کن اکثریت سے جیت کر دوبارہ آ جائیں گے۔‘‘ دفتری کام کاج سے بے بہرہ اور سیاسی دفاتر چلانے کے تجربے سے محروم‘ اناڑی لوگوں میں پتہ نہیں کہاں سے اہلیت آ گئی تھی؟ کہ انہوں نے راتوں رات رائے عامہ کے سروے کر کے‘ مبنی بر حقیقت نتائج مرتب کئے اور پارٹی قیادت کے سامنے رکھ دیئے۔ بھارتی اور پاکستانی عوام میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ خصوصاً غریب اور محنت کش لوگ ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ بھارتیوں میں تعلیم قدرے زیادہ ہوتی ہے اور پاکستانیوں کو یہاں کے حکمرانوں نے اس لائق نہیں سمجھا۔ لیکن انسانی فطرت ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔ میں 1970ء کے انتخابی عمل میں خود سرگرم حصے دار تھا۔ ایک معمولی صحافی کی حیثیت سے جلسوں میں جانے لگا اور عوام ‘ نامور لیڈروں کے مقابلے میں میری تقریریں سننے کے لئے زیادہ تعداد میں جمع ہوتے۔ یہی لوگ تمام روایتی سیاستدانوں کی ترغیب‘ لالچ اور مرغن کھانے چھوڑ کرووٹ ڈالنے کے لئے بھوکے پیاسے قطاروں میں کھڑے ہو کرووٹ ڈالتے رہے اور پیپلزپارٹی کامیاب ہو گئی۔ مگر افسوس کہ پارٹی قیادت نے آخری وقت تک روایتی امیدواروں کی تلاش جاری رکھی۔ اسے اپنے آپ پر اعتماد نہیں تھا۔ لیکن جہاں اس نے مجبوراً کسی اللہ دتہ کو ٹکٹ دیا تو وہ 135 روپے اور سائیکل کے ساتھ اپنے کروڑ پتی حریف کو شکست دے کر جیتا۔ کیونکہ انقلاب کا خواب دکھانے والے لیڈر کا تعلق حکمران طبقے سے تھا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ انہوں نے جیل میں لکھی ہوئی اپنی کتاب میں اعتراف کیا کہ انہوں نے انقلاب لانے کے لئے ایسے ساتھیوں کا انتخاب کیا‘ جو اپنے طبقاتی پس منظر کی وجہ سے انقلابی بن ہی نہیں سکتے تھے۔ جو مناظرآج دلّی کی سڑکوں اور گلیوں میں دیکھنے میں آ رہے ہیں‘ موجودہ پاکستان کے شہروں اور دیہات میں جابجا نظر آیا کرتے تھے۔ مگر حکومت بن جانے کے بعد جو مزدور‘ کسان اور خوانچے ریہڑی والے اپنی حکومت قائم ہونے پر بھنگڑے ڈال رہے تھے‘ چند ہی روز بعد انہیں پتہ چل گیا کہ انہوں نے محض خواب دیکھا تھا۔حالات میں حقیقی تبدیلی اور پیداواری اور معاشی رشتوں کے بندھن توڑے بغیر‘ انقلاب کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ انقلاب میں کامیابی حاصل کر لینے کے بعد بھی‘ روایتی حکمرانوں کی ریشہ دوانیاں جاری رہتی ہیں۔ وہ کبھی انقلابیوں کے اندر شامل ہو کر انقلاب کو نگل جاتے ہیں اور کبھی سازشوں کے ذریعے انقلابیوں کو بھی ہضم کر جاتے ہیں۔ پاکستان میں جتنے غریبوں کو اپنے دلّی والے بھائیوں کے حالات کا پتہ چل رہا ہے‘ وہ امید بھری نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے کامیابی کے لئے دعا گو ہیں۔ لیکن بھارت کا سرمایہ دارانہ نظام‘ پاکستانی سرمایہ داروں کے مقابلے میں بہت منجھا ہوا‘ چال باز‘ عیار اور ظالم ہے۔ پورا بھارت اس کے تسلط میں ہے۔ وہ دلی کے ایک چھوٹے سے علاقے میں انقلاب کے پھولوں کو آسانی سے کھلنے نہیں دے گا۔ لیکن دلی کے غریبوں اور محنت کشوں نے حکمران طبقوں کو غافل رکھتے ہوئے اچانک اپنی طاقت کا جومظاہرہ کیا ہے‘ اسے نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے ‘ بھارتی عوام نے جب یہ دیکھا کہ ان کے اپنے جیسے لوگ‘ مغرور اور طاقتور حکمرانوں کو خاک چٹوا سکتے ہیں‘ تووہ ایسی کوشش کیوں نہ کریں؟ میں تو ایک مبصر کی حیثیت میں‘ دھڑکتے دل کے ساتھ اس تبدیلی کے نتائج دیکھنے کے لئے بے تاب ہوں۔ بھارتی عوام تو خدا جانے کتنی امیدوں اور عزائم کے ساتھ اس تبدیلی کی طرف دیکھ رہے ہوں گے؟
غریب آدمی طبقاتی جبرواستبداد کے جس ماحول میں زندگی کے دن گزارتا ہے اور ہر روز کی توہین کو ہضم کرنے کے لئے اپنا خون جلاتا رہتا ہے۔ اسے جب غصہ اتارنے کا موقع ملتا ہے‘ تو اس کی کیفیت دیکھنے والی ہوتی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے لیڈر اور کارکن جیسے آج حکمرانی کرنے والی جماعتوں کی درگت بنا رہے ہیں‘اس کے بارے میں جان کر دل تو چاہتا ہے کہ یہ مناظر دلّی جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔ مگر اب دیر ہو چکی ہے۔ میڈیا پر پڑھ اور سن کر جو کچھ معلوم ہو رہا ہے‘ میں اسی کا مزہ اٹھا رہا ہوں۔اروند کچری وال سے میڈیا کے لوگ جب طنزیہ سوال کرتے ہیں کہ ''اب تو آپ کانگریس کی حمایت سے حکومت بنا رہے ہیں اور بی جے پی کے ساتھ اسمبلی میں بیٹھیں گے‘ اب آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ کچری وال بلا جھجک جواب دیتے ہیں ''دونوں طرف کے چوروں کو جیل میں ڈالوں گا۔‘‘ سوال ہوتا ہے ''کیا دہلی کی سابق وزیراعلیٰ شیلا ڈکشٹ کو بھی؟‘‘ کچری وال کا جواب ہوتا ہے ''ہاں! اسے بھی۔‘‘ حکومت بنانے کے لئے گورنر کی دعوت کے جواب میںکچری وال اپنے خط میں لکھتے ہیں ''میری حلف برداری کا انتظام رام لیلا گرائونڈ میں کیا جائے۔‘‘ اور ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا گیا کہ ''مجھے نہ سرخ بتی والی کار چاہیے اور نہ گارڈز۔ میں اپنے عوام کے ساتھ انہی کی طرح رہنا چاہتا ہوں۔‘‘ اور جب کوئی پوچھتا ہے ''آپ اپنے وعدے پورے کر سکیں گے؟‘‘ تو کچری وال جواب دیتے ہیں''کیوں نہیں؟ میں نے جن لوگوں سے وعدے کئے ہیں‘ ہر وقت ان کے درمیان رہوں گا۔نہ تعلق توڑوں گا نہ وعدے۔‘‘سرمایہ دارانہ نظام کے عین بطن میں برپا ہونے والا آدھا انقلاب کبھی محفوظ تو نہیں رہ سکتا۔ یا وہ پھیلے گایا اسے وہیں پر دبا دیا جائے گا۔ ضروری تو نہیں کہ سب کچھ ہمیشہ کی طرح ہو۔ انقلاب بھی تو پھیل سکتا ہے۔