"NNC" (space) message & send to 7575

کل تو آنے دو

بھارتی دارالحکومت دہلی میں‘ دھماکہ خیز تبدیلی نے پوری دنیا کو چونکا دیا ہے۔ صرف سوا سال پہلے‘ ایک نئی پارٹی سر گوشی کی طرح معرض وجود میں آئی اور سرگوشی بن کر ہی رہ گئی۔ نہ اس کے بارے میں کسی نے سنا‘ نہ کچھ دیکھا۔ بی جے پی کی رہنما سشما سوراج نے کہا''یہ لوگ زمین کے ساتھ جڑے ہوئے‘ آہستہ آہستہ پھیلتے رہے۔‘‘ کانگریس نے ان کا نوٹس ہی نہ لیا۔ قومی سطح کی ان دونوں بڑی پارٹیوں کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ نئی پارٹی پہلے ہی الیکشن میں اتر کے ایسے شاندار نتائج لے آئے گی۔ یہ عجیب لوگوں کی پارٹی ہے۔ اس کے چند ہی لیڈروں کو کار میسر ہو گی۔ ان کے بڑے سے بڑے لیڈر کی کار بھی 1000 سی سی سے زیادہ نہیں۔ بیشتر کارکن ‘نوجوان اور پڑھے لکھے ہیں اور ان میں جو سیانے اور بزرگ ہیں‘ انہیں بھی زیادہ سے زیادہ مڈل ایج کہا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کوئی چھوٹا دکاندار ہے۔ کوئی صحافی ہے۔ کوئی شاعر ہے اور معاشرے میں سب سے زیادہ بلند مقام رکھنے والا پارٹی کا لیڈر‘ اروندکیچری وال ہے‘ جس نے پرائیویٹ نوکری کرتے کرتے آئی سی ایس کا امتحان پاس کیا اور مختصر سی نوکری کے بعد سماجی خدمت کے میدان میں کود پڑا اور اناہزارے کے قریبی ساتھی کی حیثیت میں شہرت حاصل کی۔ حکومتی وزراء کی ٹیم سے لوک پال بل پر طویل مذاکرات کئے اور وزراء کی مذاکراتی ٹیم کو کیچری وال نے ہی سب سے زیادہ تنگ کیا۔ اناہزارے نرمی سے کام لے جاتے تھے لیکن کیچری وال اپنے موقف سے ذرا پیچھے نہیں ہٹتا تھا اور اسی سخت موقف کی بنا پر اناہزارے کی مرضی کے بغیر‘ اس نے خود اپنی پارٹی کی داغ بیل ڈال دی اور اسے منظم کرنے میں جت گیا۔ 
اس کے ساتھیوں میں بھی بڑے بڑے سر پھرے تھے۔ ان میں ایک نوجوان کماروشواس بھی ہے۔ یہ ایک سرپھرا شاعر ہے۔ بھارت میں ہر جگہ مشاعروں میں شریک ہو کر داد سمیٹتا رہا۔ اس کے تین شعر یاد آ رہے ہیں۔
 
وہ مجھ سے دور ہے کیسی‘ میں تجھ سے دور ہوں کیسا
یہ تیرا دل سمجھتا ہے یا میرا دل سمجھتا ہے
 
--------------------
تمہاری اور ہماری رات میں بس فرق ہے اتنا
تمہاری سو کے گزری ہے‘ ہماری رو کے گزری ہے
وفاقی علاقے میں بھاری اکثریت لے کر سارے خطے کو حیران کرنے والی پارٹی کے اس شاعر نے لکھا ؎
 
دلی صرف جھانکی ہے
سارا دیس باقی ہے
 
اورباقی سارے دیس کے ساتھ یہ جنونی اور بڑے بڑے خواب دیکھنے والے ایک نیا دھماکہ
کرنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ آنے والے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 300 نشستوں پر امیدوار کھڑے کریں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پارٹی کے گمنام کارکنوں کو سارے شہزادوں کے مقابلے میں کھڑا کیا جائے گا۔ شہزادوں سے مراد حکمران خاندانوں سے تعلق رکھنے والے وہ نوجوان ہیں‘ جو اپنے بزرگوں کی نشستوں پر کامیاب ہو کر اسمبلی میں آنا چاہتے ہیں۔ شاعر صاحب نے اپنے لئے جو شہزادہ چنا ہے‘ اس کا نام راہول گاندھی ہے ۔ پہلے تو کانگریس پارٹی بڑی مستی کے موڈ میں رہی کہ بی جے پی کا جو بھی بڑے سے بڑا لیڈر مقابلے میں آئے گا‘ اسے اس خاندانی سیٹ پر آسانی سے ہرایا جا سکتا ہے۔ لیکن جیسے ہی کمار وشواس کا نام آیا‘ کانگریس کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ اس بلا کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ اور کیسے اندازہ لگایا جائے کہ یہ اکثریت کے ووٹ لے اڑے گا؟ اندیشہ یہی ہے کہ اگر یہ شعر کہنے والا‘ایک بڑے قومی لیڈر کو شکست دے کر لوک سبھا میں آ گیا‘ تو پارٹی کا کیا بنے گا؟ خوشی دوسری طرف یعنی بی جے پی کی قسمت میں بھی نہیں۔ ادھر بھی بڑے بڑے لیڈروں کو تاڑ تاڑ کے کارکنوں نے آپس میں اس طرح بانٹا ہے‘ جیسے قربانی کا گوشت لے رہے ہوں۔ ہر بے حیثیت نوجوان نے‘ بی جے پی کے کسی نہ کسی بڑے لیڈر کو نشانہ بنا کر‘ اس کے مقابل امیدوار بننے کا عزم کر رکھا ہے۔ اس وقت عام آدمی پارٹی امیدواروں کے لئے وہی نشستیں چن رہی ہے‘ جہاں کانگریس کوئی تگڑامرغا کھڑا کرنے والی ہو اور کارکن آگے بڑھ بڑھ کر اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے ابھی دو صوبوں میں کام شروع کیا ہے۔ یعنی یہ کمیٹی دلّی میں حکومت سازی کی بھاگ دوڑ سے باہر ہو کریکسوئی سے بڑی پارٹیوں کے نامور لیڈروں کو چنیں گی اور ان کے خاندان میں سے جو ''شہزادہ‘‘ انتخابی میدان میں اترے گا‘ یہ اس کے مقابلے میں الیکشن لڑیں گے۔ ابھی عام آدمی پارٹی نے امیدواروں کا انتخاب بھی نہیں کیا کہ بڑے بڑے راج گھرانوں میںکھلبلی مچی ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہلی کے ریاستی انتخابات کے نتائج دیکھ کر بڑے بڑے گھرانوں میں واقعی کپکپی لگ گئی ہے۔ کیونکہ کسی کو پتہ نہیں کہ عام آدمی پارٹی انتخابات میں کیا پوزیشن حاصل کرے گی؟ دلّی کی صوبائی اسمبلی کے نتائج نے انہیں دم بخود کر رکھا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے جس امیدوار نے بی جے پی کے ایک بڑے لیڈر کو شکست دی ہے‘ اس کے حواریوں سمیت کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ یہ امیدوار اپنی ضمانت بچا لے گا۔ مگر یہ ہو گیا۔ بی جے پی جس کو شکست خوردہ تصور کر رہی تھی وہ غیرمتوقع طور پہ بھاری اکثریت سے جیت گیا۔
کیچری وال نے رام لیلا گرائونڈ میں وزارت اعلیٰ کا حلف لیا‘ تو قومی ترانے کے طور پر کیچری وال صاحب نے ایک فلمی گیت گایا اور حاضرین سے کہا کہ یہ ہمارے ایجنڈے کا آئٹم ہے۔ بڑی عاجزی اور ادب سے گانا شروع کیا۔ تمام حاضرین نے مکمل خاموشی اختیار کر لی۔گانا یہ تھا
 
انسان کا انسان سے ہو بھائی چارہ
یہی اعلان ہمارا
 
مجھے گانا یاد نہیں۔ ایک آدھ لفظ کی بھول چوک ہو گئی تو معذرت چاہتا ہوں۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد کیچری وال صاحب نے یہ کہہ کر مصیبت کھڑی کر دی کہ وہ کہیں پر بھی گارڈز کی خدمات قبول نہیں کریں گے۔ پیر کے روز نئے وزیروں کو اپنے دفاتر میں جانا تھا کہ رات کو کیچری وال کی طبیعت خراب ہو گئی۔ انہیں بخار بھی ہو گیا اور ہیضہ بھی۔ پیر کو انہوں نے پانی کی فراہمی پر نئی پالیسی کا اعلان کرنا تھا۔ ڈاکٹر اسے ہجوم میں جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے اور کیچری وال بھگوان سے شکایت کر رہے تھے کہ اس نے انہیں بیمار کرنے کے لئے اچھے دن کا انتخاب نہیں کیا۔ مگر ان کی ہمت قائم رہی اور انہوں نے بیماری کی حالت میں بھی پانی کو ترسے ہوئے دلّی والوں کو 666گیلن پانی روز دینے کا اعلان کر دیا۔ اب ماہرین انگشت بدنداں ہیں کہ کیچری صاحب اتنا پانی کہاں سے لائیں گے؟ مگر وہ اطمینان سے جواب دے رہے ہیں کہ پانی سب کو ملے گا۔ وزیراعلیٰ ہائوس کا ایک گیٹ صرف وزیروں کے لئے وقف تھا اور گیٹ نمبر 3‘ عام لوگ استعمال کرتے تھے۔ گارڈز وزیروں والے گیٹ کے باہر ڈیوٹی دے رہے تھے۔ اچانک انہیں پتہ چلا کہ وزیرتو سب کے سب اپنے دفتروں میں بیٹھے ہیں۔ بھاگ دوڑ کے بعد پتہ چلا کہ وزراء تو عام شہریوں کے ساتھ گیٹ نمبر 3 سے گزرتے ہوئے اپنے دفتروں میں آ بیٹھے ہیں۔ ایک 26سالہ نوجوان خاتون بھی وزیربنائی گئی ہیں۔ انہوں نے اپنی والدہ اور والد کورکشے میں بٹھایا اور سیدھی چیف منسٹر ہائوس کے گیٹ نمبر 3 پر اتر کے اپنے دفتر میں پہنچ گئیں۔ اب پرانے وزیر اور پرانے لیڈر بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ یہ رکشہ ٹیکسیوں میں آنے اور پیدل چلنے والے‘ وزارتیں کیسے چلائیں گے؟ باقی لوگ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ کل (بدھ) کیچری وال کو بجلی کے نرخ میں 50فیصد کمی کا اعلان کرنا ہے۔ اس پر ماہرین سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ کیچری وال نرخ گھٹا کر کام کیسے چلائے گا؟ لیکن کیچری وال ان کی حیرانیوں پر حیران ہو کر جواب دیتا ہے ''ہو جائے گا! ہو جائے گا! کل تو آنے دو۔‘‘ 
قارئین کرام! میں یہ کالم بھارت پر نہیں‘ عام آدمی کی اس بیداری اور خوداعتمادی پر لکھ رہا ہوں۔
 
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں