اسے خود پتہ نہیں کہ صوبائی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود ‘ اس کی حکومت کیوں بنا دی گئی؟ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اسمبلی میں اسے اکثریت کی حمایت حاصل بھی ہو گی یا نہیں؟ انتخابی نتائج کے مطابق سب سے بڑی پارٹی بی جے پی ہے۔ اس کی 32 نشستیں ہیں۔ باضابطہ طور پراس نے کسی دوسری جماعت سے مدد نہیں مانگی اور نہ اس کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ کانگریس کے پاس کل 8نشستیں ہیں اور اس نے صرف ایک بار اعلان کیا کہ وہ اسمبلی کی دوسری بڑی پارٹی یعنی عام آدمی پارٹی کی حمایت کرے گی۔ صرف اسی اعلان پر بھروسہ کر کے اروند کیجری وال نے یہ باور کر لیا کہ اسمبلی میں وہ اکثریت کے ووٹ حاصل کر لے گا۔ اس نے ہرگز یہ باور نہیں کیا کہ اعتماد کے ووٹ‘ اسے ضرور حاصل ہو جائیں گے۔ ابھی تک وہ اور کانگریس‘ ایک دوسرے کے بارے میں بڑی سخت باتیں کر رہے ہیں۔ کیجری وال برملا کہتا ہے کہ مجھے کسی کے ووٹوں کی ضرورت نہیں۔ کانگریس کا دل چاہے‘ تو وہ اپنے ووٹ سنبھال کر گھر میں رکھ لے‘ یا بی جے پی کے امیدوار کی حمایت کردے۔ اسے نتائج کی ہرگز پروا نہیں۔ اگر کانگریس نے اعتماد کا ووٹ نہ دیا‘ تو زیادہ سے زیادہ عام آدمی پارٹی کو اقتدار چھوڑنا پڑے گا اور وہ پہلے دن سے اس کے لئے تیار ہیں۔ صورتحال عجیب رخ اختیار کر رہی ہے۔ جس پارٹی کے پاس پورے ووٹ نہیں‘ وہ حکومت بنا کر بیٹھ گئی اور کسی دوسرے سے ووٹ بھی نہیں مانگ رہی اور 8 ممبروں والی جس پارٹی نے‘ اسے حمایت کی پیش کش کی ہے‘ اس کے ساتھ ایک مرتبہ بھی رابطہ نہیں ہوا۔ پھر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ صرف ایک شخص مطلوبہ ووٹوں سے محروم ہونے کے باوجود کس بنیاد پر اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کر کے‘ وزیراعلیٰ بن کے بیٹھ گیا ہے؟ اور صاف صاف کہتا ہے ‘ مجھے کانگریس یا بی جے پی کے کرپٹ لوگوں کی حمایت نہیں چاہیے۔ علی الاعلان اپنے سوا سارے منتخب نمائندوں کو چور اور لٹیرے کہتا ہے اور اعلان بھی کرتا جا رہا ہے کہ میں ان لٹیروں کو جیل بھیج کے رہوں گا۔ وزیراعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد وہ پہلے ہی ورکنگ ڈے میں رام لیلا گرائونڈ میں جا کر وزیروں سمیت وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھا لیتا ہے۔ اگلے روز اس نے دو بڑے کام کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ رات کو اسے ڈائریا ہو گیا اور ساتھ ہی بخار بھی۔ قیاس آرائیں شروع ہو گئیں۔ اس کے حامی مان رہے تھے کہ واقعی اس کی طبیعت خراب ہو گئی ہو گی۔لیکن مخالفین کہہ رہے تھے کہ وہ بھاگنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ جن کاموں کا اس نے وعدہ کیا تھا‘ وہ اس کے اختیار میں نہیں۔ بیماری کا بہانہ کب تک بنایا جا سکتا ہے؟ لیکن وہ بخار میں بھی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ وزیروں کو بلایا۔ سب سے کہا کہ کوئی اس کی صحت کی فکر نہ کرے‘ کام وہ بہرحال اپنے اعلانات کے مطابق کرے گا۔سب سے پہلے وہ پانی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے اعلیٰ افسران سے ملا۔ کسی کو اپنے ہاں بلایا اور کسی کے گھر خود چلا گیا۔ اس کے آنے جانے کے طریقے بھی انوکھے ہیں۔ نیلے رنگ کی اپنی چھوٹی سی کار لے کر‘ وہ گارڈز کے بغیر شہر میں پھرتا رہا۔ جہاں سگنل بند ہوا‘ وہاں گاڑی روک دی۔ جہاں راستہ کھلا تھا‘ وہاں سے نکل گیا۔ کئی بار دلّی کے روایتی ٹریفک جام کے اندر پھنسا۔ کئی بار دائیں بائیں سے ہو کے راستہ بناتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔ دلّی والوں کے لئے یہ تماشا دیدنی تھا۔ کیونکہ صوبے کا وزیراعلیٰ ہجوم کے اندر عام آدمی کی طرح راستہ بناتا ہوا‘ رواں دواں ہے اور سڑک پر چلنے والوں میں کسی کو پتہ نہیں کہ ان کے درمیان کوئی اہم شخص بھی محو سفر ہے۔ اس نے پانی فراہم کرنے والی کمپنیوں سے وقفے کے بغیر مذاکرات کئے۔سارے مطالبات پر بحث کی اور آخر میں انہیں منوا لیا کہ پانی فراہم کرنے والی کمپنیاں اس کے فارمولے کے مطابق عوام کو پانی مہیا کریں گی۔ اس نے 666لٹر یومیہ پانی دینے کا فیصلہ سنا دیا۔ یہ اس کے وعدے سے صرف 35 لٹر کم ہے۔ مگر لوگ اس کی پروا کئے بغیر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں کہ انہیں 666 لٹر پانی مفت میں ملتا رہے گا اور اس مقررہ مقدار سے ایک لٹر پانی بھی زیادہ لیا‘ تو مالک کو سارے پانی کا بل دینا پڑے گا۔دلّی والوں کے لئے یہ ایک ناقابل یقین بات تھی۔ اس پر تو عمل درآمد شروع کر دیا گیا۔اگلے روز بخار میں کمی آ گئی اور یہ شخص دوسرے مشکل ترین کام یعنی بجلی کے ریٹ بھی آدھے کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کمپنیوں کو حکم ملا کہ وہ اپنے حسابات کا آڈٹ کرا کے ‘حساب کتاب سے آگاہ کریں۔ لیکن آدھے نرخوں پر بجلی کی سپلائی شروع کر دیں۔ آج اس حکم پر عملدرآمد کاپہلا دن ہے مگر تمام شہریوں کو یقین ہے کہ بجلی کے ریٹ نصف ہو چکے ہیں۔
گزشتہ حکومت کے دوران مسلسل عوامی مطالبوں اور دبائو کے جواب میں‘ حکومت دونوں محکموں کے کرتادھرتائوں سے مذاکرات کرتی اور منواتی رہی کہ دونوں چیزوں کے نرخ کم نہیں کئے جا سکتے۔ کیجری وال نے سارے مطالبات کو جھٹلاتے ہوئے بجلی اور پانی کے نرخوں میں کمی کا حکم جاری کر دیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ ایک آئینی وزیراعلیٰ کے احکامات کی تعمیل سے انکار نہیں کر سکتے۔ چند گھنٹوں تک کانگریس اور بی جے پی کے لیڈر کہتے رہے کہ افسران اس حکم پر چاہیں بھی تو عملدرآمد نہیں کر سکتے۔ مگر چند ہی گھنٹوں کے بعد وہ کہنے لگے کہ نرخوں میں 50 فیصد کمی کی گئی ممکن ہے سپلائی میں20سے 30 فیصد کمی کر کے کام چل جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی اسمبلی کے اندر صرف 28نشستیں رکھتی ہے۔ جب تک اسے اعتماد کا ووٹ نہیں مل جاتا‘ حکومت کا مستقبل غیریقینی رہے گا۔ لیکن آئینی طور پر حکومت کے اختیارات میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔ جب گورنر کسی بھی پارٹی کے لیڈر کو حکومت بنانے کی دعوت دے توہ وہ کابینہ سمیت حلف اٹھا کر روزمرہ کے امور نمٹانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ بھارتی آئین کے عین مطابق ہے۔ ایک بار لوک سبھا میں ایسا معاملہ پیش آیا تو صدر نے دوسرے نمبر کی بڑی پارٹی کے لیڈر‘ اٹل بہاری واجپائی کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ آئین کے مطابق انہوں نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور معمول کے فرائض انجام دینے لگے۔ جب 13 دن تک انہیں مطلوبہ اراکین کی حمایت حاصل نہ ہو سکی تو انہوں نے یہ کہہ کر لوک سبھا توڑ دی کہ وہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دہلی میں بھی یہی معاملہ درپیش ہے۔ کیجری وال بھی مقررہ ایام کے اندر اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کر سکے‘ تو انہیں حکومت چھوڑنا ہو گی۔ مگر استعفیٰ دینے سے پہلے وہ گورنر کو مشورہ دے سکتے ہیں کہ اسمبلی میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہو رہی‘ اس لئے اسمبلی کو تحلیل کر کے‘ دوبارہ انتخابات کا اعلان کر دیا جائے۔ یہی وہ بات ہے جس پر بی جے پی حکومت بنانے سے ڈر رہی ہے۔ معمول کے حالات ہوتے‘ تو وہ ادھر ادھر سے ممبر توڑ کر یا خرید کے مطلوبہ اکثریت حاصل کر سکتے تھے۔ اس وقت بھی دوچار آزاد اراکین موجود ہیں اور انہیں خرید کر بی جے پی مطلوبہ تعداد پوری کر سکتی ہے۔ لیکن عام آدمی پارٹی نے فلورکراسنگ کے خلاف جو اشتعال انگیز ماحول پیدا کر دیا ہے‘ اسے دیکھ کر
بی جے پی ہمت نہیں کر پا رہی کہ صرف چار ممبر توڑ کر مطلوبہ اکثریت حاصل کر کے حکومت سازی کا دعویٰ کرے۔ آئینی طور پر یہ بالکل درست ہے۔ اراکین اسمبلی کی مطلوبہ تعداد پوری کرنے کے بعد بی جے پی کا قائد ایوان ‘ گورنر کو اپنی اکثریت ثابت کرنے کا یقین دلائے۔ ایسی صورت میں گورنر اسے حکومت سازی کی دعوت دے گا اور وہ اپنی حکومت تشکیل دے کر اقتدار سنبھال سکے گی۔ لیکن صدر‘ گورنر اور خود بی جے پی کی قیادت خطرہ مول لینے سے خائف ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ ووٹوں کی خریدوفروخت کے خلاف جو اشتعال انگیز فضا پیدا ہو چکی ہے‘ اس میں یہ کاروبار برداشت نہیں کیا جائے گا اور حکومت بنانے والی پارٹی عوامی دبائو کے سامنے چار دن کام نہیں کر سکے گی۔ ان حالات میں بی جے پی بھی حکومت سازی کا دعویٰ نہیں کر پا رہی۔ ادھر کیجری صاحب کسی سے مدد مانگے بغیرحکومت سازی کر سکتے ہیں اور انہوں نے یہی کیا۔ کیجری صاحب ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرتے ہیں کہ جب تک انہیں کوئی چیلنج نہیں کرے گا‘ وہ حکومت میں رہ کر عوام کی خدمت کرتے رہیں گے اور اگر کوئی ان کی اکثریت کو چیلنج کر کے حکومت ختم کرے گا تو وہ دوبارہ الیکشن میں چلے جائیں گے اور حکومت توڑنے کی تجویز دینے والی پارٹی کو نئے انتخابات میں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہی وجہ ہے کہ کیجری صاحب ڈنکے کی چوٹ پر بڑے بڑے کام کرتے جا رہے ہیں اور ساتھ کہتے بھی جا رہے ہیں کہ کانگریس اور بی جے پی پتہ نہیں کس دن ہماری حکومت ختم کرا دیں؟ لیکن میں اس یقین کے ساتھ کام کر رہا ہوں کہ عوام کے حق میں جو فیصلے میں کر رہا ہوں‘ انہیں کوئی مائی کا لال بدل نہیں سکتا۔ یا تو ازسرنوانتخابات میں ان کی کامیابی یقینی ہو گی‘ ورنہ کوئی دوسرا اکثریت حاصل نہیں کر سکے گا۔جیت ہر حال میں عام آدمی پارٹی کی ہو گی۔ ایک غیرمتاثر کن شخصیت اور بہت ہی زیادہ عام آدمی‘ اقتدار کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو بے بس کر کے‘ حیرت انگیز طور پر فیصلہ کن پوزیشن میں آ چکا ہے۔ دائو پیچ میں وہ پرانے کھلاڑیوں کی ہر چال کو ناکام بناتا جا رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اقتدار کے پرانے کھلاڑی کب تک اس کا مقابلہ کریں گے؟ اصل کھیل تاریخ کی روایتی بے رحمی کے زیرسایہ شروع ہو چکا ہے۔ بھارت کے روایتی حکمرانوں کے سامنے ایک بہت بڑی لڑائی کا چیلنج سامنے آ گیا ہے۔ حکمران طبقوں کو یا لڑائی کر کے ہارنا پڑے گا۔ ورنہ لڑائی کے بغیر پسپائی اختیار کرنا ہو گی۔ مگر ان دونوں میں سے کوئی بھی کام ہوا نہیں کرتا۔ صرف لڑائی ہو سکتی ہے۔ اندازہ کرنا محال ہے‘ یہ کب شروع ہو گی؟