دہلی میں ''عوامی جمہوریت‘‘ کا دلچسپ تجربہ جاری ہے۔میں وقت کے ساتھ ‘ اس کے سارے مراحل قارئین کے سامنے پیش کرتا آ رہا ہوں اوراندازے بھی لگاتا رہتا ہوں کہ اچانک ابال کی طرح چھلکنے والا عوامی ابھار کتنا دیرپا ہوتا ہے۔ اناہزارے کی احتجاجی تحریک کی ایک لہر الگ ہو کر سیاست کے میدان میںداخل ہو گئی تھی۔ اس کے قائدین بڑے پرعزم‘ تبدیلی کے لئے بیتاب اور ایک انقلابی لہر پیدا کرنے کے خواہش مند تھے۔ لیکن وہ سیاسی عمل کی وسعت اور گہرائی کو سمجھنے اور اسے متعینہ منزل کی طرف لے جانے کے ہنر سے ناواقف تھے۔ تاریخی عمل ‘ بے سمت اور بے لگام ہو جائے‘ توافراتفری اور بدنظمی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ عام آدمی پارٹی ‘ ایسی ہی افراتفری اور تیزرفتاری سے قائم کی گئی۔ عوام مزاجاً تماشا پسند ہوتے ہیں۔ کوئی بھی نئی اور انوکھی چیز سامنے ہو تو اسے دیکھنے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور ان کی دیرینہ مایوسیاں ‘ اچانک امیدوں کی روشنی نظر آنے پر بے تاب ہو جاتی ہیں۔ ٹھہری ہوئی زندگی سے تنگ آئے ہوئے لوگ‘ چھلانگیں لگاتے ہوئے‘ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیڈر اور عوام دونوں ہی سرپٹ بھاگتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ نہ تو بھاگنے کے لئے راستہ رہتا ہے اورنہ ہمت۔ انتہائی کڑی آزمائش کے مراحل وہ ہوتے ہیں‘ جن میں سٹیٹس کو کی قوتیں‘ بیتاب لوگوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے لگتی ہیں۔ ان کے غیرروایتی طریقہ کار کا مضحکہ اڑایا جاتا ہے ۔ ان کے بیتابی پر مبنی فیصلوں کو ناپختہ کہا جاتا ہے۔ ان کی توانائی اور سرگرمیوں کا رخ بڑی چالاکی سے نان ایشوز کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ انقلابی خواہشات لے کر آنے والے‘ ان میں الجھ کر اپنے اصل کام بھول جاتے ہیں اور پھر ایک معاشرتی تجربہ‘ اجتماعی یادوں کا حصہ بن کر گم ہو جاتا ہے۔ انقلاب کے خواہش مندوں اور لیڈروں کے حوصلے ٹوٹنے لگتے ہیں۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ مایوسی کا شکار ہو کر‘ اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
ایسے تجربات ہم بھی دیکھ چکے ہیں۔ 1971ء میں چندانقلابی دوستوں نے لائل پور شہرپر قبضہ کر کے‘ احکامات جاری کرنا شروع کر دیئے تھے۔ بلاشبہ اس زمانے میں پاکستانی عوام تبدیلی کا عزم لے کر‘ انتخابی عمل سے گزرے تھے اور واقعی انہوں نے بڑے بڑے سیاسی برج الٹ کر‘ عام آدمیوں کو اسمبلیوں کے لئے منتخب کر لیا تھا۔ دلی کی عام آدمی پارٹی تو محض ایک وقتی ابال کا نتیجہ ہے لیکن مغربی پاکستان سے اٹھنے والی1971ء کی انتخابی لہر کے پیچھے عوام کے سیاسی مقاصد بھی تھے۔ جدوجہد کی تاریخ بھی تھی۔ تجربہ کار سیاسی اور ٹریڈیونین کارکن بھی دستیاب تھے اور سیاسی قیادت بھی موجود تھی۔ لیکن پرجوش انقلابیوں نے کسی کو اعتماد میں لئے بغیرعملی قدم اٹھا لیا اور پھر خود ان کے پارٹی لیڈر کو کال دینا پڑی کہ وہ گھروں کو واپس جائیں اور شہر پر کنٹرول کرنے کا خیال ذہن سے نکال دیں۔ ایک شہر کے اندر انقلاب پر اترے ہوئے یہ پرجوش لوگ بڑی مشکل سے واپس گئے۔ مگر ان کی اس واپسی نے پرامید عوام کے حوصلے توڑ دیئے۔ حقیقت یہی تھی کہ روایتی حکمرانوں کے خلاف ووٹ دے کر ‘ عوام بہت بڑی تبدیلی دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اب حکومتی نظم و نسق ‘ ان کے لیڈر اور وہ خود چلایا کریں گے۔ انقلابی مہم کے دوران‘ مقررین نے بھی کچھ اسی قسم کے دعوے کئے تھے۔ جیسے ''غریب کا راج آ کر رہے گا۔گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو۔ وڈیرے ٹھاہ۔ لٹیرے ٹھاہ۔ چھین لو جاگیریں۔‘‘ عوام ہمیشہ سادہ لوح ہوتے ہیں۔ وہ نعروں پر یقین کر کے‘ سمجھنے لگتے ہیں کہ واقعی جو کچھ کہا جا رہا ہے‘ وہ ہو کر رہے گا۔ لیکن حالات معمول پر آتے ہی ان کے خواب منتشر ہو گئے۔ ان کے سامنے وہی پولیس‘ وہی پٹواری اور وہی جاگیردار آ کھڑے ہوئے تھے۔ جن لوگوں کو انہوں نے الیکشن میں شکست دی تھی‘ وہ شریک اقتدار ہونے لگے اور جو انقلابی انہیں گھروں سے باہر نکال کر لائے تھے‘ وہ خود منظر سے ہٹتے چلے گئے۔ جس سٹیٹس کو کے خاتمے کی امیدیں لے کر ‘ عوام نے اپنے ووٹ کا باغیانہ استعمال کیا تھا‘ وہ نئی طاقت کے ساتھ دوبارہ مسلط ہو گیا اور آج تک مسلط چلا آ رہا ہے۔ دلی والوں کا تجربہ ایک چھوٹے سے جغرافیائی یونٹ کے اندر ہو رہا ہے۔ پورے ملک میں اس کی شہرت تو پھیل گئی ہے‘ لیکن اس کی شاخیں موجود نہیں اور نہ ہی تنظیم کا پھیلا ہوا جال ہے۔ ایک ہی شہر کے چند پرجوش لوگوں نے دکھوں اور تکلیفوں میں مبتلا شہریوں کو‘ نئے نئے خواب دکھا کر انہیں سڑکوں پر تو اتار لیا‘ مگر تنظیم قائم نہ کر سکے۔ ہجوم لے کر نکلے تھے۔ ہجوم کے ساتھ انتخابات میں اترے۔ ہجوم کو ہی لے کر اسمبلی میں آ گئے اور اب ہجوم کے ذریعے ہی نظم و نسق چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے‘ ایسا نہیں ہوتا۔
کیچری وال اور ان کے جوشیلے ساتھی اپنی مقبولیت کو سیاسی طاقت میں بدل کر دیرپا نتائج بھول گئے اورگرم گرم حلوے پر ٹوٹ پڑے۔ جس نے پرجوش تقریریں کر کے گرجدار نعرے لگائے‘ اسے ٹکٹ دے دیا اور یہ بھولے بھالے لوگ‘ پرخلوص انتخابی مہم چلا کر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ قومی سطح کی دونوں بڑی پارٹیوں کو شدید نقصان پہنچا کر‘ یہ اسمبلی کے اندر دوسری بڑی پارٹی بن کر آ گئے اور ان دونوں پارٹیوں کے گھاگ سیاستدانوں نے اطمینان سے ان کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا۔ بی جے پی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ سکتی تھی‘ لیکن اس کے لیڈروں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اوروہ تماشائی بن کر ایک طرف بیٹھ گئے۔ کانگریس خود حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی‘ لیکن وہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ بی جے پی اقتدار میں آ جائے۔ اس نے کیچری وال صاحب کو تعاون کی غیرمشروط پیش کش کر دی۔ میدان سیاست کے نئے نئے شہ سواروں کو آتے ہی شہری انتظامیہ کی لگامیں تھامنے کاموقع ملتا نظر آیا‘ تو وہ حکومت بنا کر بیٹھ گئے اور ان کا ہر ممبر یہ سمجھنے لگا کہ اسے مشرق و مغرب کی بادشاہت مل گئی ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں ایک جلال بابا ہوا کرتے تھے۔ انہیں وزیرمملکت بنایا گیا‘ تو موصوف نے ایوب خان کو دعائیں دیتے ہوئے کہا کہ ''جنرل صاحب نے مجھے مشرق و مغرب کا بادشاہ بنا دیا ہے۔‘‘ کیچری وال اور ان کے ساتھی بھی کچھ اسی طرح حکومت چلا رہے ہیں‘ جیسے وہ مشرق و مغرب کے بادشاہ بن گئے ہوں۔ ویسے تو ہمارے چوہدری نثارعلی خان بھی مشرق و مغرب کے بادشاہ ہی لگتے ہیں۔ کبھی صدرمملکت کی طرح اسلام آباد پولیس کی سلامی لیتے ہیں۔ کبھی وزیراعظم کی طرز پر دوسرے صوبوں کے دورے کرتے ہیں۔ چند ماہ پہلے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اعلان فرما دیا اور سمجھے کہ طالبان‘ مشرق و مغرب کے بادشاہ کا فرمان کیسے ٹال سکتے ہیں؟ لیکن ان ستم ظریفوں نے آنکھ بھر کے نہیں دیکھا اور مذاکرات سے صاف انکار کر دیا۔ جس کے بعد سے آج تک‘ مشرق و مغرب کے بادشاہ ‘روز ایک نیا بیان دے کرنظام کائنات کو سنبھالتے آ رہے ہیں۔ ان کے پیچھے تو نوازشریف کی مضبوط قیادت موجود ہے۔ کیچری وال اپنے آگے پیچھے‘ دائیں بائیں‘ خود ہی کھڑے ہیں۔ خود ہی دھکا دیتے ہیں۔ خود ہی دھکا کھاتے ہیں۔ خود ہی سنبھلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سٹیٹس کو کے محافظوں نے‘ انہیں اور ان کے وزراء کو تماشا بنا کے رکھ دیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مشرق و مغرب کے بادشاہ سیدھی طرح حکومت چلانے کے موڈ میں بھی نہیں۔ ان کے وزیرنے ایس ایس پی کی سطح کے ایک پولیس افسر کے ساتھ پیچے لڑا دیئے۔ اس بدتمیز پولیس افسر نے ڈانٹتے ہوئے کہا ''مسٹرمنسٹر! اپنی اوقات میں رہو۔‘‘ وزیرصاحب غیرملکی خواتین کے ایک اڈے پر چھاپہ مارنے کے لئے بیتاب تھے اور پولیس انہیں ضابطے یاد دلا کر کہہ رہی تھی کہ ''ہم تو قانون کے مطابق چلتے ہیں۔‘‘ دلی کی انتظامیہ کے سربراہ کیچری وال سٹپٹا گئے اور وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے ‘سڑک پر دھرنا دے کے بیٹھ گئے۔ اس وقت ان کامطالبہ یہ ہے کہ ایک اے پی سی اور تین ایس ایچ او صاحبان کا تبادلہ کیا جائے۔ ورنہ میں وزیراعلیٰ کا کام نہیں کروں گا۔ وہی میڈیا جو ان کی پارٹی کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا تھا‘ اب مذاق اڑانے میں پیش پیش ہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں کے لیڈر‘ چھوٹی چھوٹی باتوں پر انہیں چھیڑ دیتے ہیں اور مشرق و مغرب کے بادشاہ‘ سٹپٹا کر اسی طرح کی حرکتیں کرنے لگتے ہیں‘ جیسے نیا نیا تھانیدار کرتا ہے۔کیچری وال صاحب اپنے ساتھیوں کے حوصلے بلند رکھنے کے لئے باربار کہتے ہیں کہ کانگریس ہماری حمایت واپس لے لے گی اور ہم واپس عوام میں چلے جائیں گے۔ لیکن بدمعاش کانگریسی کہتے ہیں کہ آپ لوگ کچھ بھی کر لو‘ ہم آپ کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ جو حکومت حاصل کرنے کے لئے انقلابی لیڈر بیتاب تھے‘ اب وہ اسے چھوڑنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں اور کوئی انہیں بہانہ مہیا کرنے کو تیار نہیں۔یہ مخلص‘ معصوم اور بھولے بھالے لوگ‘ حکومت لے کر پھنس بیٹھے ہیں۔ انتھک کام کرتے ہیں‘ مگر ہوتا کوئی بھی نہیں۔سرکاری افسر انہیں چھیڑتے ہیں اور وہ مزید غصے میں آ کراحتجاج کرتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک تجربہ ہمارے ملک میں بھی ہو رہا ہے۔ میں نشاندہی کیوں کروں؟ خود ڈھونڈیے۔