آج تک ایسا ہوا نہیں کہ جدے کے جادوگر‘ شریف الدین پیرزادہ نے‘ جس کام پر ہاتھ ڈالا‘ اسے ''انجام‘‘ تک نہ پہنچایا ہو۔ ان کی جادوگری کا ''اسم اعظم‘‘ ایک پتے پر لکھا ہوتا ہے۔ تاش کے کھیل میں اسے ترپ کا پتہ کہتے ہیں۔ وہ بازی میں شریک ہی تب ہوتے ہیں‘ جب ترپ کا پتہ پہلے سے ان کی جیب میں ہو۔ وہ مقدمہ ہاریں یا جیتیں؟ ان کا موکل بہرطور فائدے میں رہتا ہے۔ جنرل ضیاالحق کی جو دعا انہیں نہیں لگی‘ وہ صرف دو شخصیتوں کے کام آئی۔ یہ درازی عمر کی دعا تھی۔ ایک پیرزادہ صاحب‘ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور دوسرے بھی اللہ کے فضل و کرم سے تمام خطرات کو روندتے ہوئے زندہ سلامت ہیں۔ ان کا نام آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ پیرزادہ صاحب کی اصل جادوگری یہ ہے کہ وہ آئین اور قانون کو اپنے موکل کی ضروریات کے مطابق تراشنے اور ڈھالنے کے بعد‘ سامعین کے سامنے یوں پیش کرتے ہیں کہ انہیں اصل مفہوم یا الفاظ کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ جدہ کا جادوگر بھی اپنی طلسمی ٹوپی سے وہی چیز نکال کر دکھاتا ہے‘ جو وہ سامعین و ناظرین کو دکھانا چاہتا ہے۔ جنرل مشرف نے وکلا کی ایک بہت بڑی ٹیم‘ اپنا مقدمہ لڑنے کے لئے مرتب کر رکھی ہے۔ اس ٹیم میں کمانڈو ونگ بھی ہے‘ جس کے لیڈر صاحبزادہ احمد رضا قصوری ہیں۔اتنے ہی قد کاٹھ والے ایک اور وکیل اختر شاہ‘ گزشتہ روز بہت بڑے بینگ کے ساتھ نمودار ہوئے اور حریفوں کی ٹیم کو للکارتے ہوئے کہا ''جہینے ساڈے نال ویر پایا‘ اوہنوں مچھیاں ای کھان گیاں‘‘۔ معاف کیجئے کچھ گڈمڈ ہو گیا۔ اصل میں یہ پنجابی فلموں کے مشہور ولن مظہر شاہ کا ڈائیلاگ تھا۔ اختر شاہ کا ڈائیلاگ یہ تھا کہ '' فوج کے خلاف باتیں کرنے والے کی زبان کھینچ لیں گے‘ ٹانگیں چیر دیں گے۔‘‘
ڈھونڈنا چاہیے کہ اختر شاہ کا مظہر شاہ کے ساتھ‘ کوئی دور نزدیک کا واسطہ تو نہیں؟ مظہرشاہ میرے دوست تھے۔ میں اس فلم میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہا تھا اور مظہر شاہ فلم یونٹ میں پروڈکشن کنٹرولر تھے۔ فلم کے ڈائریکٹر انور بیگ‘ پچپن سال کے ایک خوبرو بزرگ تھے۔ دنیا کے بہترین سے بہترین خضاب ڈھونڈ کر استعمال کرتے مگر ان کے بالوں نے تو اصلی سیاہی برداشت نہ کی‘ جعلی کیسے کرتے؟ ہیروئن نیئر سلطانہ تھیں‘ جو اپنے زمانے کی حسین ترین ہیروئن مانی جاتی تھیں۔ بیگ صاحب نے اپنے مقابل مارکیٹ میں جس ولن کو بھی کردار ادا کرنے کے لئے کہا‘ وہ یہ سنتے ہی بدتمیزی سے معذرت کر کے رفوچکر ہو گیا کہ فلم کے ہیرو وہی خوبرو ڈائریکٹر صاحب ہیں‘ جو انہیں اپنا ولن بنانا چاہتے ہیں۔ فلم کا سیٹ لگ چکا تھا۔ شوٹنگ ہونے والی تھی۔ ولن دستیاب نہ ہوا۔ فلموں کے پروڈکشن کنٹرولرز عموماً سیٹ پر سہولیات فراہم کرتے ہیں اور شوٹنگ کے دوران جسے بھی کوئی ضرورت پڑے‘ پروڈکشن کنٹرولر کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ اسے چائے‘ سگریٹ یا جو مشروب وہ چاہے‘ پیش کر دے۔ لائٹنگ شروع ہو چکی تھی۔ ہم سب حیران تھے کہ پہلا سین ہیرو اور ولن کے درمیان ہے جبکہ ولن کا دوردور تک پتہ نہیں تھا۔ شاٹ تیار ہوا‘ تو بیگ صاحب نے شاہ جی کو آواز دی ''مظہرشاہ! چائے پانی کا ڈیپارٹمنٹ اپنے اسسٹنٹ کو دے دو اورمیک اپ کر کے آئو۔‘‘ شاہ جی کو اداکاری کا شوق دیوانگی کی حد تک تھا۔ وہ ہر وقت پاکستانی فلم انڈسٹری کے کسی نہ کسی نامور ولن کو تختہ مشق بنا کر جوابی اداکاری کے جوہر دکھایا کرتے اور اس وقت تک گرج گرج کر مکالمے بولنا بند نہ کرتے‘ جب تک گلا نہ بیٹھ جاتا۔جب شاہ جی کو اچانک طلب کر کے بتایا گیا کہ انہیں میک اپ روم سے واپس آتے ہی شاٹ دینا ہے‘ تو شاہ جی کی حالت دیدنی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی سیارے کی مخلوق کو اچانک ہمارے سامنے لا کر رکھ دیا گیا ہو یا کسی انسان کو مریخ پر چھوڑ دیا گیا ہو۔ شاہ جی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیمرے کے سامنے شاٹ دینے کے لئے کھڑے ہیں۔ پہلی ریہرسل کے لئے مکالمہ بولنا پڑا‘ تو شاہ جی کا گلا جواب دے گیا۔ یقینا وہ سیٹ کے باہر بیٹھ کر پاکستان کے تین چار ولنز کی ایسی تیسی کر کے آئے ہوں گے۔ لیکن قدرت کا اپنا نظام ہوتا ہے۔ فلم کے سارے اداکار فلاپ ہو گئے‘ شہرت اور دولت صرف دو کے حصے میں آئی۔ ایک نیئرسلطانہ تھیں اور دوسرے مظہرشاہ۔ اخترشاہ کا نام اس سے پہلے کبھی سننے میں نہیں آیا۔ یوں لگتا ہے کہ قسمت انہیں بھی اچانک گھیر کے پرویزمشرف کے وکلا کے ٹیم میں لے آئی اور انہوں نے پہلا ہی شاٹ اوکے دے دیا۔ اتنے خوش نصیب تو مظہر شاہ بھی نہیں تھے۔ پہلے شاٹ میں تو ان کا بھی گلا بیٹھا ہوا تھا۔
پہلے شاٹ کا ایک اور قصہ یاد آ گیا۔ اردو کے مشہور شاعر جاوید شاہین‘ اپنے زمانے کے ہزاروں نوجوانوں کی طرح‘ ایک دلیپ کمار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر انہیں اداکاری کا موقع مل گیا‘ تو وہ دلیپ کمار کو گھر بٹھا دیں گے۔ لاہور میں ساحر لدھیانوی کے درجنوں دوست موجود تھے۔ جاوید شاہین نے ساحر کے قریبی دوست حمید اختر مرحوم سے سفارشی خط لکھوایا اور ممبئی چلے گئے۔ ساحرلدھیانوی کو سفارشی خط دیا۔ انہوں نے ایک ڈائریکٹر سے کہہ کر جاوید شاہین کے لئے فلم میں ایک کریکٹر کی گنجائش پیدا کرائی۔ جاوید شاہین شوٹنگ کے دن سیٹ پر پہنچ گئے۔ فلم میں ان کے لئے جو کردار نکالا گیا‘ وہ ایک ہکلے کا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جاوید شاہین ہکلاتے تھے۔ساحر کی سفارش تھی۔ ڈائریکٹر انکار نہ کر سکا۔ آزمائشی ریہرسلوں میں ڈائریکٹر کو پتہ چلا گیا کہ موصوف ہکلے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے مکالمہ نویس سے بطورخاص ہکلے کے ڈائیلاگ لکھوائے۔ریہرسلوں کے دوران جاوید شاہین ٹھیک ٹھاک ہکلا کر بولے۔ جب اصلی شاٹ دیا گیا‘ تو جاوید شاہین نروس ہو کرہکلانا بھول گئے۔ سیٹ پر موجود لوگوں کی جو حالت ہوئی‘ اس کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔ میں اخترشاہ کی پہلی ٹیک کے مشاہدے سے محروم رہا۔ جن صحافی دوستوں نے ملک کے قانونی منظرمیں ایک ابھرتے ہوئے ستارے کی پہلی پرفارمنس دیکھی ہے‘ انہیں‘ کسی نہ کسی رپورٹ میں اس کی تفصیل لکھ کر تاریخ میں محفوظ کر دینا چاہیے۔ کیونکہ ایسے لوگ جب شہرت کی بلندیوں پر پہنچتے ہیں‘ تو مداحین کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے کیریئر کے ابتدائی دور کے بارے میں کچھ جان سکیں۔ ایک بات تو ''چھوٹے شاہ جی‘‘ نے آتے ہی ثابت کر دی کہ وہ پہلا ڈائیلاگ بول کر ہی‘ احمد رضا قصوری پر چھا گئے ہیں۔ لیکن یہ تاثر صرف خبر پڑھنے سے ملتا ہے۔ کسی نے رپورٹ نہیں کیا کہ ان کی آواز میں قصوری صاحب جیسی گھن گرج ہے یا جسٹس نسیم حسن شاہ جیسی ملائمت؟ سننے میں آیا ہے کہ پرویزمشرف صاحب نے اپنے وکلا کی ٹیم کا انتخاب ایک کمانڈو کی نظر سے کیا۔ اس بات کا اندازہ مخالف وکیل اکرم شیخ کی حالت زار سے ہوتا ہے۔ جب دیکھو وہ شریف الدین پیرزادہ سے شکایت لگا رہے ہوتے ہیں کہ انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔گھور کے دیکھا جاتا ہے۔ کبھی وہ سکیورٹی اہلکاروں سے مدد لینے کی بات کرتے ہیں۔ سنا ہے‘ اسی صورتحال کو دیکھ کر کسی نے ریٹائرڈ جنرل صاحب کو مشورہ دیا کہ ''آپ نے کمانڈو تو رکھ لئے۔ ایک وکیل بھی کر لیں۔‘‘ بہت اچھا ہوا‘ شریف الدین پیرزادہ کی خدمات حاصل کر لی گئیں۔ مکھن سے بال کیسے نکالا جاتا ہے؟ پیرزادہ صاحب‘ عمر کے اس حصے میں بھی‘ اپنے ہنر کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دیکھتے جایئے! مکھن سے بال نکلتا کیسے ہے؟ انہیں جدہ کا جادوگر یونہی نہیں کہا جاتا۔