"NNC" (space) message & send to 7575

ٹریپ کیا ہے؟

گزشتہ روز چند سینئر صحافیوں اور وزیراعظم کے مابین باہمی تبادلہ خیال کی ایک نشست ہوئی۔میں نے وزیراعظم نوازشریف سے عرض کیا کہ وہ مذاکرات کو سرکاری حیثیت دے کر‘ طالبان کے ٹریپ میں آ گئے ہیں۔ وہاں تفصیل بیان کرنے کا وقت نہیں تھا۔ آج میں اپنی اس رائے کی چند وجوہ لکھ رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے درپیش صورتحال کو واضح کرنے میں‘ یہ تحریر کسی کام آ جائے۔طالبان کی پہلی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے کمیٹی کے قیام کا اعلان حکومت پاکستان سے کرایا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے باہمی رابطوں کا سلسلہ کافی عرصہ پہلے سے چل رہا تھا۔ ظاہر ہے‘ ان خفیہ رابطوں کے دوران ہی طے پایا ہو گا کہ پہلے حکومت پاکستان‘ مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کرے اور جواب میں طالبان اپنی کمیٹی نامزد کر دیں۔ حکومت پاکستان نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے‘ وزیراعظم کے ایک معاون کی سربراہی میں‘ کمیٹی کے مذاکراتی وفد کا اعلان کر دیا۔ طالبان کی طرف سے جو وفد تشکیل دینے کا اعلان کیا گیا‘ اس میں حیرت انگیز طور پر ان کے کسی لیڈر یا نمایاں رکن کا نام شامل نہیں تھا۔ گویا طالبان‘ حکومت کے ساتھ خود باضابطہ رابطے میں نہیں آئے۔ انہوں نے ایسے اراکین کو نامزد کیا‘ جن کا تحریک طالبان کی تنظیم سے تعلق نہیں تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ حکومت پاکستان کے ساتھ درپردہ رابطوں میں‘ طالبان نے وضاحت کی ہو کہ ان کے وفد میں ٹی ٹی پی کا کوئی عہدیدار یا تنظیم کا کوئی باقاعدہ رکن شامل نہیں ہو گا۔ طالبان کی اس احتیاط کو دیکھ کر شک کرنا بلاجواز نہیں ہو گا کہ براہ راست مذاکرات میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ‘ القاعدہ کی خوشنودی کے لئے کیا گیا ہو گا۔ کیونکہ القاعدہ پاکستانی حکومت اور فوج کے ساتھ مذاکرات پر یقین نہیں رکھتی۔ اس کا اپنا ایک ایجنڈا ہے ۔ حکومت کے ساتھ باضابطہ رابطے رکھنا یا مذاکرات کرنا اس کے نزدیک ناجائز ہے۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے‘ حکومت پاکستان پر سب سے زیادہ زور عمران خان اور مولانا فضل الرحمن نے ڈالا تھا۔ لیکن جب طالبان نے اپنے مذاکراتی وفد میں‘ ان دونوں کو نمائندگی دی‘ تو دونوں نے بلاتاخیر وفد کی رکنیت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ دونوں انتہائی باخبر اور طالبان کی حکمت عملی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ انہوں نے ضرور ایسی وجوہ کی بنا پر انکار کیا ہو گا‘ جن کا ابھی تک میڈیا اور پاکستانی عوام کو علم نہیں۔طالبان کے مذاکراتی وفد میں اب جو تین اراکین باقی رہ گئے ہیں‘ وہ نہ صرف انتہاپسندانہ رحجانات رکھتے ہیں‘ بلکہ ایک رکن کے بارے میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ و ہ القاعدہ کی قیادت کے 
ساتھ قریبی مراسم رکھتے ہیں۔ مذاکرات کے دوران پاکستانی کمیٹی کی طرف سے جو کچھ کہا جائے گا‘ اس کی ذمہ دار حکومت پاکستان ہو گی جبکہ بات چیت میں مقابل وفد کے اراکین جو کچھ کہیں گے‘ طالبان اس کی ذمہ داری قبول یا رد کرنے میں‘ آزاد ہوں گے۔ یہاں بھی پلڑے کا جھکائو طالبان کے حق میں ہے۔ حکومت پاکستان کو ٹی ٹی پی کے ساتھ باضابطہ مذاکرات میں شرکت پر آمادہ کر لینا‘طالبان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔اب تک طالبان کی حیثیت ریاست کے باغیوں کی تھی۔ ٹی ٹی پی آج بھی پاکستان میں کالعدم ہے۔ ہمارے قانون کی نظر میںیہ ریاست کے باغیوں کا گروپ ہے۔ مگر مذاکرات میں برابر کی حیثیت سے شریک ہو کر‘ اس کی حیثیت‘ تسلیم شدہ سٹیک ہولڈر کی ہو گئی۔ اس طرح ایک کالعدم تنظیم نے حکومت پاکستان کی طرف سے‘ کسی باضابطہ اعلان کے بغیرہی اپنی قانونی حیثیت تسلیم کرا لی ہے۔ یہاں بھی وہ اپنے حق میں ایک پوائنٹ سکور کر گئے۔ 
طالبان‘ مذاکرات میں اپنی طرف سے جو ایجنڈا پیش کریں گے‘ اس میں قیدیوں کی رہائی کا معاملہ سرفہرست ہو گا۔ اس وقت قریباً 5ہزار سے زیادہ طالبان قیدی ‘پاکستانی جیلوں میں پڑے ہیں۔گزشتہ چند مہینوں سے جنگ کے مختلف محاذوں پر‘ انہیں کافی جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اسی نقصان کی تلافی کرنے کے لئے انہوں نے دو جیلیں توڑ کر‘ اپنے 4ہزار سے زیادہ قیدی آزاد کرا لئے۔ مگر قیادت کی سطح پر وہ صف اول کے متعدد لیڈروں سے محروم ہو گئے‘ جس کا اکثر وہ اپنے بیانات میں تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے متعدد ساتھی امریکیوں کے خرچ پر‘شام اور عراق کی ''اسلامی جنگوں‘‘ میں حصہ لینے گئے ہیں۔ طالبان دہشت گردی کی جنگ کو‘ پنجاب اور بلوچستان میں بھی پھیلانا چاہتے ہیں۔ انہیں اپنی ضرورتوں کے لئے مطلوبہ افرادی قوت کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ اگر وہ اپنے قیدی آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئے‘ تو نہ صرف اپنی طاقت بحال کرلیں گے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو جائے گا۔ اس کے برعکس پاکستان کے جو قیدی رہا کئے جائیں گے‘ وہ بے گناہ سویلین ہیں‘ جنہیں حکومت کے ساتھ سودے بازی یا قیدیوں کے اہل خانہ سے تاوان وصول کرنے کے لئے رکھا گیا ہے۔ اپنے تربیت یافتہ ساتھیوں کے بدلے میں‘ ان شہریوں کو آزاد کرکے‘ طالبان کسی خسارے میں نہیں رہیں گے جبکہ پاکستانی قیدیوں کی رہائی سے ہماری عسکری طاقت میںکوئی اضافہ نہیں ہو گا۔ اس لین دین میں پاکستان کے لئے خسارہ ہی خسارہ ہے۔ ماسوائے اس کے کہ جدائی کی آگ میں جلتے ہوئے چند خاندانوں کو ان کے پیارے واپس مل جائیں گے اور پاکستان اپنے محروم شہریوں کے انسانی حقوق کا تحفظ کر کے‘ اپنا ایک فرض ادا کر دے گا۔ قیدیوں کی رہائی میں کامیاب ہو کرطالبان کے اثرورسوخ اور طاقت میں اضافے کے سبب‘ ان کی ساکھ بہتر ہو جائے گی اور نئی بھرتی کرنے میں انہیںزیادہ سہولت ہو گی۔
عین ممکن ہے کہ دونوں فریق عارضی فائر بندی پر اتفاق کر لیں۔ بظاہر یہ برابری کا سودا ہو گا۔ لیکن عملاً ایسا نہیں ہو سکے گا۔ حکومت پاکستان اپنی کارروائیاں سکیورٹی فورسز کے ذریعے کر رہی ہے‘ جو اسے معطل کرنا پڑیں گی۔ مسلح کارروائیوں کی ذمہ دار حکومت پاکستان ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ طالبان پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ ٹی ٹی پی‘ تین درجن کے قریب علیحدہ علیحدہ گروپوں کا اجتماع ہے۔ ہر گروپ کی اپنی قیادت ہے اور ہر گروپ دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے میں اپنی جگہ پر آزاد ہے۔ طالبان اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ مختلف باغی گروہ روپوش ہیں۔ ان کے ٹھکانوں ‘ نقل و حرکت کے راستوں اور پناہ گاہوں کا ‘ ہمیں پورا علم نہیں۔ ان کی طرف سے میڈیا اور ٹیلیفونوں کے ذریعے جو بیانات آتے ہیں‘ ان کی تصدیق کی سہولت بھی دستیاب نہیں۔ طالبان‘دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنے کے لئے ہر طرح آزاد ہوں گے۔ انہیں صرف یہ کرنا ہو گا کہ اپنے دوچار گروپوں کو دہشت گردی کے نئے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے پر مامور کر دیں۔ حال میں پشاور شہر کے اندر ایک سینما میں ہونے والے دھماکوں سے ٹی ٹی پی نے لاتعلقی کا اعلان کر دیا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد جنداللہ نے‘ اس کی ذمہ داری قبول کر لی۔ حالانکہ یہ تنظیم بلوچستان تک محدود ہے۔ خیبرپختونخوا سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ واضح ہو گیا کہ طالبان ذمہ داری قبول کئے بغیر‘ دہشت گردی کے ذریعے ‘حکومت پر دبائو کو مسلسل برقرار رکھنے بلکہ اس میں اضافہ کرنے کے لئے آزاد ہوں گے۔ میں نے طالبان کے ٹریپ کی چند نشانیاں قارئین کے سامنے رکھ دی ہیں۔ حکومت پاکستان کو ان مذاکرات سے کیا کچھ حاصل ہو گا؟ اس کا موازنہ طالبان کو حاصل ہونے والے فوائد سے کر کے دیکھ لیجئے۔ آسانی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون‘ کس کے ٹریپ میں آیا؟میری ذاتی رائے اب بھی یہ ہے کہ اگر باوقار انداز میں ‘ اس ٹریپ سے نکلنے کا موقع ملتا ہے‘ تو اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں