کچھ لوگ گوبھی کے پھول میں کیڑا ڈھونڈنے کے لئے‘ سارا پھول ادھیڑ دیتے ہیں۔ کیڑا ملنا یا نہ ملنا بعد کی بات۔ مگر پھول گنوا بیٹھتے ہیں۔ ہمارا اجتماعی رویہ بھی اسی قسم کا ہے۔ لاکھوں شہیدوں کا خون اور کروڑوں کی جائیدادیں گنوا کر‘ ہم نے پاکستان حاصل کیا اور آج 66 برس کے بعد‘ ہمارے میڈیا پر سب سے زیادہ گرماگرمی اس موضوع پر ہو رہی ہے کہ پاکستان کس لئے بنا تھا؟ ہم قومی زندگی کے ایک ڈیڑھ عشرے کو‘ گوبھی کے پھول کی طرح ادھیڑنے بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ ختم ہو جائے تو آنے والے عشرے کو‘ گوبھی کے پھول کی طرح ادھیڑنا شروع کرتے ہیں۔ ملک حاصل کرنے کی وجہ تلاش کرتے ہیں۔ وجہ تو ڈھونڈ نہیں سکتے۔ دس پندرہ سال کا جو عرصہ ہم نے گزارا ہوتا ہے‘ اسے ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ ہم نے گوبھی کے بے شمار پھول اگائے‘ ادھیڑے‘ ہنڈیا پوری نہ پکی۔ ایک آدھ پھول ادھیڑا ہوتا‘ تو کوئی بات نہ تھی۔ ہم نے تو جس کھیت میں جو کچھ بھی اگایا‘ پکتے ہی ادھیڑ ڈالا۔ آئین سازی میں سر کھپائے۔ طویل وقت صرف کیا۔ جب آئین بن گئے‘ تو باقی وقت انہیں ادھیڑنے پر لگا دیا۔ تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔ اعلیٰ تعلیمی معیار کی صورت میں جتنے پھول تیار کئے‘ انہیں ضیاالحق کے زمانے میں ادھیڑ ڈالا۔ علم کے ہر کھیت میں‘ اگا ہوا پھول‘ اب ادھیڑا جا چکا ہے۔ جمہوریت کو ہم نے بار بار قائم کیا۔ بار بار گوبھی کے پھول کی طرح‘ اسے ادھیڑا اور پھر سے بحال کرنا شروع کر دیا۔ جمہوریت کے پھول بار بار اگائے۔ ادھیڑ کر پھینکے اور کدالیں تھام کے‘ نئے پھول اگانے کی خاطر کھیت کھودنے لگے۔ کسی بھی شعبے کا جائزہ لے کر دیکھ لیجئے‘ ہر طرف ادھڑے ہوئے پھولوںکے زخمی برگ نظر آتے ہیں۔ ان دنوں ہم ساڑھے چھ عشروں کی محنت سے اگائے ہوئے‘ دو پھولوں کو ادھیڑنے کے عزم نو کے ساتھ سرگرم ہیں۔ آئین کا پھول‘ جسے ہم‘ کئی بار ادھیڑ کے نئے پھول اگا چکے ہیں‘ چند روز سے دوبارہ ادھیڑنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ طالبان اور پاکستان (طالبان اور پاکستان؟ واہ! کیا برابری ہے؟) کے مابین مذاکرات کا نتیجہ تو پتہ نہیں کیا نکلے مگر آئین کی خیر نہیں۔ گوبھی کے پانچ چھ پھول ہم ادھیڑ چکے ہیں۔ 18ویں ترمیم والے پھول کی ادھڑائی کا افتتاح ہونے جا رہا ہے۔
کرکٹ کے کھیت میں بھی ہم نے بہت سے پھول اگائے۔ ادھیڑے۔ پھینکے۔ پھر اگانے کی تیاری میں لگے۔ کیسے کیسے پھول کھلائے۔ فضل محمود‘ حنیف محمد‘ خان محمد اور امتیاز احمد جیسے عظیم کھلاڑیوں نے‘ اپنے دور کا ایک پھول کھلایا تھا‘ ہم نے ادھیڑ دیا۔ کئی پھول کھلے اور ادھیڑ دیئے گئے۔ کرکٹ کے کھیل میں‘ ساری دنیا کی ٹیموں کو شکست دے کر‘ ہم نے ورلڈ کپ حاصل کیا۔ عمران خان نے ورلڈ کپ کی صورت میں فتح کا پھول لہرایا اور اس کے بعد ہم نے اسے گوبھی کا پھول سمجھ کے ادھیڑنا شروع کر دیا۔ پھر کرکٹ کے کھیت میں کوئی فصل پوری نہ پک سکی۔ کرکٹ کا کھیل پھر ہمارے شوق تخریب کا ہدف ہے۔ طالع آزما جنرل ملک کا آئین توڑتے ہیں اور منتخب حکومتیں‘ کرکٹ بورڈ کا آئین توڑتی ہیں۔ آئینہ اور آئین شکنی ہمارا قومی شوق ہے۔ جس کا جہاں زور چلتا ہے‘ توڑ دیتا ہے۔ قانون کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔ ہمارا کوئی ہم وطن ایسا نہیں‘ جو قانون توڑنے کے اعزاز سے محروم ہو۔ جو کچھ نہ کر سکا‘ اس نے ٹریفک کا اشارہ توڑ دیا۔ کرکٹ اور سیاست کے کھیل میں ہماری کارکردگی کے انداز حیرت انگیز حد تک ملتے جلتے ہیں۔ سیاست میں جب کوئی ایک پارٹی کامیاب ہو کر حکومت چلانے لگتی ہے‘ تو باقی پارٹیاں پچ ادھیڑ کے‘ کھیل ہی ختم کرا دیتی ہیں‘ کھیل عدالتوں میں پہنچ جاتا ہے۔ جب حزب اختلاف کی پارٹیاں‘ اپنے حریف یا حریفوں کی حکومت کو مستحکم ہوتے دیکھتی ہیں تو پارلیمنٹ کو ہی ادھیڑ دیتی ہیں۔ سیاست عدالتوں میں چلی جاتی ہے۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ سیاست عدالتوں سے بری ہو کر‘ پارلیمنٹ میں واپس آئی۔ کرکٹ کی پیشیاں شروع ہونے والی ہیں۔ برطرف چیئرمین ‘ عدالت میں جانے والے ہیں اور مسند نشین چیئرمین‘ وکیلوں سے ملاقاتوںکے لئے کمر کس رہے ہیں۔ مقدمے بازی کا کھیل بھی اتنا برا نہیں۔ آج بھی یہ کھیل‘ کرکٹ کے مقابلے میں کہیں زیادہ مقبول ہے۔ ملک میں کرکٹ کھیلنے کے لئے بہت کم گرائونڈز ہیں۔ میچ دیکھنے والے خوش نصیبوں کی اکثریت شہروں میں رہتی ہے اور دیہات میں رہنے والے شوقین‘ شہروں میں آ کر کھیل دیکھتے ہیں۔ مقدموں کے شوقین‘ گائوں گائوں پھیلے ہیں۔ دیہات میں ہر پانچواں نہیں تو چھٹا یا ساتواں گھر کوئی نہ کوئی مقدمہ ضرور بھگت رہا ہے۔ عدالتوں کی تعداد‘ کرکٹ گرائونڈز سے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں گنا ضرور ہے۔ مقدمے ہر دور میں جاری رہتے ہیں۔ لیکن قریباً پانچ سال پہلے دہشت گردوں نے کرکٹ پر حملہ کر دیا۔ سری لنکا کی مہمان ٹیم کو‘ کھیل ادھوارا چھوڑ کر ملک سے نکلنا پڑا۔ کرکٹ کے کھیل کو ایسا دیس نکالا ملا کہ وہ آج بھی پاکستان کا رخ نہیں کرتا۔ میچ اب کھلاڑی نہیں‘ چیئرمین کھیلتے ہیں اور اس بار تو باریاں بھی جلدی جلدی آ رہی ہیں۔ صحافت اور سیاست کے ''آل رائونڈر‘‘ نجم سیٹھی کو گیند ملی‘ تو انہوں نے ذکاء اشرف کی وکٹ اڑا دی۔ اپنی باری آئی‘ تو مصباح کی طرح ٹک ٹک کرنے لگے۔ کرکٹ کے کھیل کی حالت یہ ہو گئی کہ ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم۔ اب کرکٹ کا کھیل جسم گرمانے کے لئے بیرونی ملکوں میں جاتا ہے۔ جیسے ہمارے ارباب اقتدارعلاج کے لئے‘ بیرون ملک جاتے ہیں۔ ہماری کرکٹ بیرون ملک جاتی ہے۔ خرچ دونوں کا سرکار اٹھاتی ہے۔
چیئرمینوں کے میچ کی طرف چلتے ہیں۔ رننگ کمنٹری کے مطابق نجم سیٹھی نے ذکاء اشرف کو ایل بی ڈبلیو کر کے‘ حساب برابر کر دیا ہے۔ اس میچ میں تھوڑے سے ردوبدل کے بغیرٹیم ایک ہی کھیلتی ہے۔ مثلاً جب ذکاء اشرف کو آئوٹ کر کے نجم سیٹھی وکٹ پر آئے‘ تو ان کی بنائی ہوئی ٹیم میں دوچار کھلاڑیوں کے سوا‘ کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جس ٹیم کے ساتھ نجم سیٹھی کھیل رہے تھے‘ ذکاء اشرف بھی کم و بیش اسی ٹیم کے ساتھ کھیلے۔ ان کے وکٹ کیپر بھی سبحان احمد تھے۔ نجم سیٹھی کے وکٹ کیپر بھی وہی ہیں۔ بورڈ کی مستقل ٹیم میں صرف تین یا چار کھلاڑی ایسے ہیں‘ جو کچھ دیر کے لئے پویلین میں بیٹھتے ہیں۔ ذکاء اشرف کو آئوٹ کر کے‘ نجم سیٹھی نے پویلین میں بیٹھے جن کھلاڑیوں کو میدان میں اتارا‘ ذکاء اشرف نے واپس آتے ہی انہیں پویلین بھیج دیا تھا۔ اب نجم سیٹھی آئے ہیں‘ تو پویلین میں بیٹھے اپنے ساتھیوں کو بلا کر‘ ذکاء اشرف کے ساتھی پویلین میں بٹھا دیئے۔ کرکٹ بورڈ کی ٹیم میں سب سے دلچسپ کھلاڑی شہریار خان ہیں۔ ٹیم کسی کی ہو‘ وہ گرائونڈ سے باہر نہیں ہوتے۔ دفتر میں کرسی نہ ملے‘ پویلین میں جا بیٹھتے ہیں اور دفتر کی کرسی مل جائے‘ تو پویلین کی کرسی چھوڑتے نہیں۔ کرکٹ اور پاکستان کی سیاست میں بھی زیادہ فرق نہیں۔ سیاست میں کچھ محب وطن پاکستانی ہوتے ہیں اور کچھ بھارت نواز۔ یہی صورتحال کرکٹ میں ہے۔ ذکاء اشرف آج کل محب وطن ہیں۔ نجم سیٹھی‘ بھارت نواز کیمپ سے نکل کر محب وطن کیمپ میں آ گئے ہیں۔ ذکاء اشرف اگر عدالت سے بحال ہو کر دوبارہ چیئرمین بن گئے‘ تو نجم سیٹھی پھر سے بھارت نواز ہو جائیں گے اور ذکاء اشرف جو آج کل نجی طور سے محب وطن ہیں‘ سرکاری طور سے محب وطن ہو جائیں گے۔ کرکٹ کے کھیل میں‘ پاکستانی آئین کی طرح گوبھی کا جو پانچواں یا چھٹا پھول کھلا ہے‘ ادھڑتے ادھڑتے اب ڈنٹھل تک آ گیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا‘ نیا کھیت بونے میں اب کتنا وقت لگے گا؟ ہم پاجامہ ادھیڑ کر سینے کی مشقت سے نہ جانے کب نکل پائیں گے؟ شاعر کا مشورہ تو یہ تھا کہ
بیکار مباش کچھ کیا کر
پاجامہ ہی ادھیڑ کر سیا کر
ہم بیکار تو نہیں لیکن پاجامے بے شمار ادھیڑے اور سیئے ہیں۔ کیڑے کی تلاش میں ان گنت صحت مند پھولوں کو ادھیڑ کے پھینکا ہے اور پھینکتے جا رہے ہیں۔ پھول ادھیڑادھیڑ کے دیکھ لیا‘ کیڑا کسی میں نہیں تھا۔ کیوں نہ آئینہ دیکھ لیں‘ کیڑا کہیں ہم خود تو نہیں؟