خبر ہے کہ طالبان اور پاکستان کے مذاکرات ‘ معطل ہو گئے۔ یہ شروع کب ہوئے تھے؟ ابھی تک دونوں طرف کی کمیٹیاںایک میز پر نہیں بیٹھ پائیں۔ طالبان نے اپنے نمائندوں پر مشتمل کوئی کمیٹی تشکیل ہی نہیں دی۔ جن لوگوں کو انہوں نے اپنی طرف سے مذاکرات کے لئے نامزد کیا‘ وہ پہلے دن سے آپس میں بھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ عمران خان نے وفد کا رکن بننے سے انکار کر دیا۔ مفتی کفایت اللہ کو ان کے لیڈر مولانا فضل الرحمن نے منع کر دیا اور وہ ایک دن کے لئے بھی کمیٹی میں نہیں گئے۔ جاتے بھی تو کہاں جاتے؟ دیگر نامزد 5 ارکان میں سے صرف دو متحرک رہے۔ لیکن ان کی نقل و حرکت بھی بے مقصد تھی۔ ان کالموں میں بارہا لکھا گیا کہ تحریک طالبان پاکستان تک محدود نہیں۔ اس کی جڑیں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ مکمل فیصلہ سازی کے اختیارات بھی پاکستان میں کسی شخص کے پاس نہیں۔ اس کے نئے امیر صاحب ‘خود افغانستان میں پناہ گزین ہیں۔ ظاہر ہے‘ وہ جب تک پناہ دینے والوں کے علاقے میں ہیں‘ آزادانہ پالیسیاں نہیں بنا سکتے۔ ان کے پاکستانی ترجمان شاہد اللہ شاہد اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ ان کے مرکزی امیر ملا عمر ہیں۔ حکومت پاکستان اور اس کے نمائندوں نے جن لوگوں سے رابطے کئے‘ ان میں ایک بھی ایسا نہیں‘ جو طالبان کی مرکزی تنظیم یعنی ملا عمر یا ان کا نامزد کوئی نمائندہ ہو۔ جنہوں نے مذاکرات کے بارے میں بات چیت کی‘ و ہ سب پاکستانی برانچ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی سرگرمیوں کا دائرہ بھی پاکستان تک محدود ہے۔ اصلی طالبان کی پالیسی وہیں بنتی ہے‘ جہاں ان کی مرکزی لیڈر شپ رہتی ہے۔
طالبان کی پاکستانی برانچ نے جن باخبر لوگوں کو مذاکراتی کمیٹی میں نمائندگی دی تھی‘ انہوں نے اس فیصلے کو اہمیت ہی نہیں دی۔ بظاہر یہی لگتا ہے۔ ورنہ معاملہ سنجیدہ ہوتا‘ تو وہ یہ رکنیت قبول کرنے سے انکار نہ کرتے۔ دونوں فریق یعنی پاکستان اور ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت دونوں ہی ایسے حالات میں نہیں تھے کہ کسی ایک کو مذاکرات کی ضرورت پڑتی۔ مذاکرات اس وقت ہوتے ہیں‘ جب دونوں پارٹیاں کچھ لینے اور کچھ دینے کی پوزیشن میںہوں۔ جو چیز طالبان کو درکار ہے‘ وہ کوئی پاکستانی حکومت انہیں نہیں دے سکتی اور پاکستان‘ طالبان سے جو کچھ چاہتا ہے‘ وہ دینا ان کے اختیار میں نہیں۔ دونوں فریقوں نے بالواسطہ یا اشاروں میں اپنے مطالبات کے بارے میں بتا دیا تھا۔ جب پاکستان کے وزیراعظم نے یہ کہہ دیا کہ ''مذاکرات آئین کی حدود میں ہوں گے‘‘ تو طالبان کی حقیقی لیڈرشپ پر واضح ہو گیا تھا کہ مذاکرات میں ان کے لئے کچھ نہیں رکھا۔ ان کے مقاصد سرحدوں سے بالاتر ہیں۔ پاکستانی آئین کو تسلیم کرنے کا مطلب ان کے لئے یہ ہوتا کہ وہ اپنے حقیقی مقاصد سے دستبردار ہو جاتے۔ یعنی وہ اپنے جہاد کو محدود کر دیتے۔ مجھے نہیں معلوم ہمارے پالیسی سازوں نے طالبان کے فکروفلسفے کے بارے میں کیا سمجھا ہے؟ وہ ان کے مختلف بیانات کو ہی توجہ سے پڑھ لیتے‘ تو انہیں معلوم ہوتا کہ وہ کسی حکومت پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ پاک فوج ان کی دشمن ہے۔ وہ ہمارے آئین کو اسلامی نہیں مانتے۔ عدلیہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہ بنیادی باتیں ہی سمجھ لی جائیں‘ تو ان کے ساتھ مذاکرات کا خیال بے معنی لگتا ہے۔ دہشت گردی کا جو ہتھیار وہ استعمال کر رہے ہیں‘ اس کا نشانہ ریاست کا ڈھانچہ ہے۔ وہ ہماری سکیورٹی فو رسز کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ شہری نظم و نسق کے اداروں کو اپاہج کرنے والی کارروائیاں کرتے ہیں۔ حکومت پر عوام کے اعتماد کو مجروح کرتے ہیں۔ میڈیا میں خوف و ہراس پھیلاتے ہیں۔ پیداواری صلاحیتوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ چند روز سے انہوں نے ریلوے کے نظام کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا ہے۔ یہ سارے کام ایسے ہیں‘ جو کسی بڑے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں۔
طالبان کو اپنے مقاصد پورے کرنے میں سب سے زیادہ مدد ہمارے حکمران طبقوں سے ملتی ہے۔ وہ عوام سے بری طرح کٹے ہوئے ہیں۔ بیوروکریسی اور حکمران طبقوں کی کرپشن نے ریاستی مشینری کو رسوائی کی انتہائوں تک پہنچا رکھا ہے۔ کسی بھی سطح پر عوام کو وہ حیثیت حاصل نہیں‘ جس کا ایک عام شہری حق دار ہے۔ عوام کی اکثریت قانون کی حدود میں رہ کر زندگی گزارتی ہے۔ عوام سے شہری ہونے کے جرمانے ‘ ان کی حیثیت سے زیادہ اور بے رحمی کے ساتھ وصول کئے جاتے ہیں۔ یہ جرمانے دہرے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو حکومت ٹیکس کی صورت میں وصول کرتی ہے ۔ دوسرے وہ‘ جو سرکاری اہلکار قدم قدم پر وصول کرتے ہیں۔ پاکستانی شہری ٹیکس ہی نہیں تاوان بھی دینے پر مجبور ہیں۔ ریاستی اہلکاروں کے علاوہ ان کی سرپرستیوں میں چلنے والے گروہ علیحدہ سرگرم ہیں۔ دیہات میں رسہ گیر‘ راہزن‘ ڈاکو اور چور عام آدمی کی پونجی بٹورتے ہیں اور شہروں میں مختلف جرائم پیشہ گروہوں نے لوٹ مار کا نظام قائم کر رکھا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میں منظم گروہ ‘ عوام کو لوٹتے ہیں۔ بھتہ خوروں نے الگ اپنا نظام قائم کر رکھا ہے۔ اغوا برائے تاوان نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ ایسی حالت میں کسی بھی شہری کو حکومت سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ طالبان کا دہرا ہتھیار انتہائی ہوشیاری سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف وہ دہشت پھیلاتے ہیں اور دوسری طرف ان گنت لٹیروں کے خلاف عام شہری کو تحفظ بھی مہیا کرتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں تو انہوں نے اپنی انتظامیہ قائم کر رکھی ہے۔ جہاں وہ مالی تنازعات کا تصفیہ کرتے ہیں۔ انہیں طاقتوروں کے مظالم سے بچایا جاتا ہے۔ فی الفور سزائیں دینے والی عدالتیں موقع پر ''انصاف‘‘ مہیا کر
دیتی ہیں۔ یہ سلسلہ کراچی میں بھی شروع ہو چکا ہے۔ ایک امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس شہر کا ایک بڑا حصہ طالبان کے کنٹرول میں جا چکا ہے۔ کراچی کے 370مربع میل علاقے پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ صنعتی علاقوں میں پختونوں کی اکثریت ہے‘ جو طالبان کے زیراثر ہیں۔ موجودہ حکومت نے شہر میں امن و امان کی حالت بہتر بنانے کے لئے رینجرز اور پولیس کی مدد سے جو آپریشن شروع کیا ہے‘ طالبان کے کنٹرول پر اس کا کوئی اثر نہیں۔ وہ اپنا نظام معمول کے مطابق چلا رہے ہیں۔ شہریوں کی آمدنی کے حساب سے اپنا ٹیکس وصول کرتے ہیں اور بدلے میں انہیں بھتہ خوروں‘ قبضہ گروپوں اور ڈاکوئوں سے تحفظ دیتے ہیں۔ اخبار کی اپنی تحقیقات کے مطابق کراچی میں طالبان لیڈرشپ پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ عام شہریوں میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار اداروں کے بعض ارکان‘ طالبان سے خوف محسوس کرنے لگے ہیں۔ خصوصاً چوہدری اسلم کو جس طرح شہید کیا گیا‘ اس کی وجہ سے پولیس فورس میں عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔ گزشتہ دو سال کے عرصے میں زیادہ پختون قبائلی علاقوں سے کراچی آئے ہیں۔ پہلے کراچی سے جمع ہونے والی بھاری رقوم مختلف ذرائع سے شمالی وزیرستان بھیجی جاتی تھیں۔ اب طالبان کا اپنا مالیاتی نظام قائم ہو چکا ہے۔ خیبرپختونخوا میں قبائلی علاقوں کے علاوہ طالبان کا اثر و رسوخ بندوبستی علاقوں تک بھی پھیل گیا ہے۔ خصوصاً ڈیرہ اسماعیل خان‘ پشاور‘ کوہاٹ‘ بنوں‘ سوات ‘ ایبٹ آباد اور کئی دوسرے علاقوں میں طالبان نہ صرف موجود ہیں بلکہ عام لوگوں نے ان کی موجودگی کو بڑی حد تک قبول کر لیا ہے۔ جنرل کیانی کے 40 فیصدوالے جواب نے عام پاکستانیوں کے حوصلوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ آج کے اخبارات میں جنرل صاحب کی طرف سے جو وضاحت آئی ہے‘ اس سے عدم تحفظ کا احساس مزید بڑھ گیا ہے۔ جنرل کیانی نے اپنی وضاحت میں کہا کہ انہوں نے کل جماعتی کانفرنس میں یوں کہا تھا کہ ''یہ سمجھنا درست نہیں ہو گا کہ شمالی وزیرستان میں کارروائی ہوتے ہی دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ البتہ (غالباً دہشت گردوں کی طاقت میں) 40 فیصد تک کمی آ جائے گی۔‘‘شمالی وزیرستان بہت تھوڑا سا علاقہ ہے۔ اگر ہم وہاں ریاست کی عملداری قائم نہیں کر سکتے‘ تو پھر اپنے تحفظ اور دفاع کے لئے عوام کس کی طرف دیکھیں؟ اور ہمارے سابق چیف آف آرمی سٹاف کی رائے یہ ہے‘ تو کوئی یہ بتائے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں حکومت پاکستان کو کیا ملے گا؟ وہ اس حکومت کے دبائو میں کیوں آئیں گے؟ جو ان کی صرف 40 فیصد طاقت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔کرپشن نے ریاست کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ ریاستی اداروں کو چلانے والوں کی عوام کی نظر میں کوئی عزت نہیں رہ گئی اور جب عوام اور حکومت چلانے والوں کے مابین عزت و احترام کا رشتہ ختم ہو جائے‘ تو اخلاقی اتھارٹی کا خلا پیدا ہو جاتا ہے۔طالبان کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے کرپشن سے لڑنا پڑے گا۔ اخلاقی طاقت کے بغیر ہتھیار کسی کام نہیں آتے۔