"NNC" (space) message & send to 7575

شعلوں سے دامن بچائیں

عالمی برادری میں ہمارے دعووں اور تردیدوں کا ریکارڈ اتنا اچھا نہیں کہ ہم ایک دوسرے ملک کے ساتھ‘ مشترکہ اعلامیے میں ایک پالیسی بیان بھی دیں اور جب ردعمل آئے‘ تو تردید کرنا شروع کر دیں۔ سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کے موقع پر‘ جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا‘ اس میں دونوں حکومتوں نے شام کے بارے میں جو مشترکہ موقف اختیار کیا‘ اس میں کوئی ابہام نہیں۔ میں اعلامیے کے الفاظ پھر دہرا دیتا ہوں۔ اس میں درج ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب نے اتفاق کیا کہ ''شام میں ایک ایسی عبوری حکومت کے قیام کی ضرورت ہے‘ جس کے پاس مکمل ایگزیکٹو پاورز بھی ہوں۔ ‘‘ ظاہر ہے کہ عبوری حکومت اسی وقت بنے گی‘ جب صدر بشارالاسد کی حکومت کو ختم کیا جائے گا۔ درحقیقت ہم نے دنیا کے سامنے اپنا موقف واضح طور سے پیش کر دیا ہے اور وہ یہ کہ شام کے لئے سعودی عرب کی پوزیشن سے ہم اتفاق کرتے ہیں اور وہاں پر اسد حکومت کے خاتمے کے لئے سعودی عرب کے ساتھ ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا میں نے اسی دن عرض کر دیا تھا کہ ہم ایک نئی جنگ میں ٹانگ اڑانے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے اندر تو ہم نے ایک ایسی جنگ میں ٹانگ اڑائی تھی‘ جب سوویت یونین اکیلا تھا اوردنیا کے بیشتر طاقتور اور مسلم ممالک ہمارے ساتھ تھے۔ اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے‘ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو فوجی کارروائی کی اجازت دی تھی۔ 
افغانستان میں سوویت مداخلت پر بھی ہم نے جو پالیسی بنائی‘ اس کی تائید کئی ملکوں نے کی۔ اس وقت کے فوجی حکمران کو حسب روایت ڈالر اور بیرونی حمایت کی ضرورت تھی۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد‘ دونوں فوجی آمروں نے اپنے اقتدار کو تحفظ دینے کے لئے پاکستان کے مفادات کا سودا کیا۔ دونوں آمروں نے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے‘ افغانستان میں کردار ادا کرنے کی ''پیشکش‘‘ کی اور اس کے بدلے‘ اپنے اقتدار کے لئے امریکہ سے تحفظ اور ڈالر مانگے۔ خودتو حکومت کر گئے۔ ہمیں مزید مقروض‘ تباہ حال اور کرپشن میں پھنسا کر رخصت ہوئے۔ آج ہم انہی کاکیا بھگت رہے ہیں۔ آمریت کے اذیت ناک ادوار گزارنے کے بعد ملک‘ کو2008ء میں جمہوریت نصیب ہوئی۔ لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت ‘ جنرل کیانی کے سامنے بے بس تھی۔ انہوں نے نہ صرف اپنی مرضی کی پالیسیاں بنوائیںبلکہ بطور چیف آف آرمی سٹاف‘ایک دوسرا عرصہ ملازمت بھی حاصل کیا۔ ہر وقت صدر زرداری کو ہراساں کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کیا جاتا رہا۔ جب امریکی کانگریس نے غیرفوجی امداد میں اضافہ کر کے‘ اسے عوامی مقاصد کے لئے خرچ کرنے کی پابندی لگائی‘ تو کیانی صاحب نے کورکمانڈروں کی کانفرنس میں‘ نہ صرف اس پر اظہارناپسندیدگی کیا بلکہ برملا فوجی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے‘ منتخب حکومت کی خارجہ پالیسی کے برخلاف پوزیشن اختیار کی۔ میموگیٹ کا سکینڈل بھی کیانی صاحب ہی کے دور میں بنا اور وہ خود بھی تحریری بیان دے کر مقدمے میں فریق بن گئے۔ البتہ جب دہشت گردوں نے سوات میں قدم جما کر اسلام آباد کی طرف پیش قدمی شروع کی‘ تو شدید عالمی دبائو آنے پر آپریشن کا فیصلہ کرنا پڑا اور ذمہ داری منتخب حکومت کے سر ڈال کر‘ فوجی کارروائی شروع کر دی۔ پیپلزپارٹی والے ابھی تک دعوے کرتے پھر رہے ہیں کہ سوات آپریشن انہوں نے کیا تھا۔ درحقیقت پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں صرف اور صرف پارلیمانی نظام کو‘ پورے 5سال تک چلانے کا کارنامہ انجام دیا گیا‘ جو یقینا قابل تعریف ہے۔ مگر حقائق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ صدر زرداری کو اپوزیشن اور چیف جسٹس افتخار چوہدری‘ دونوں نے زبردست دبائو میں رکھا ہوا تھا اور ان کے پاس جنرل کیانی کی مرضی کے مطابق چلنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔لیکن صدر زرداری کو ایک بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے فوجی آمروں کی طرح پاکستان پر کسی بڑی طاقت کو غلبہ پانے کا موقع نہیں دیا۔ نہ وہ کسی عالمی جھگڑے میں ملوث ہوئے اور نہ امریکہ سے کوئی نیا معاہدہ کیا۔ 
موجودہ حکومت نے شام کے سوال پر جو موقف اختیار کیا ہے‘ اس کی وجہ سے ہم ایک نئے عالمی جھگڑے میں پھنس کر رہ جائیں گے۔ شام کوئی یمن یا صومالیہ نہیں‘ جہاں ہم کسی بھی قسم کا فوجی کردار ادا کریں اور عالمی ردعمل سے محفوظ رہ جائیں۔ شام میں کئی طاقتوں کے سینگ پھنسے ہوئے ہیں۔ روس‘ اسد حکومت کے پیچھے کھڑا ہے۔ صدر پوٹن نے امریکہ کے ساتھ بطور سپرپاور ڈیل کر کے‘ اسد حکومت کے خلاف فوجی کارروائی رکوائی تھی۔ آپ کو یاد ہو گا ‘ صدر اوباما نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ شام کے خلاف فضائی حملے کریں گے۔ روس کے ساتھ ڈیل کے نتیجے میں یہ کارروائی رکی اور وہاں سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لئے تمام بڑی طاقتوں میں سمجھوتے ہو گئے۔ ایران‘ شام کی جنگ کی صورت میں ایک فریق بنے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ اس جنگ کا دائرہ لبنان اور عراق تک پھیلے گا۔ ایران شعلوں کی لپیٹ میں آئے بغیر نہیں رہ سکے گا اور اس طرح افغانستان کے بعد‘ ہم ایران تک آئی ہوئی جنگ کی آنچ ہمیں بھی محسوس ہو گی۔ اسی خطرے کو دیکھتے ہوئے‘ میں نے عرض کیا تھا کہ ہمیں مزید کسی جنگ میں الجھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہمارے لئے افغان جنگ کا سبق ہی بہت ہے۔ اس جنگ میں ٹانگ اڑا کرہم‘ افغانستان میں خیرسگالی کے جذبات سے محروم ہوگئے۔ اس ملک میں اپنی سٹریٹجک گہرائی ڈھونڈنے کی بیہودہ کوشش کی تھی۔ نتیجے میں ہم اپنے قبائلی علاقوں کو‘ ملا عمر کی سٹریٹجک گہرائی بنا بیٹھے۔ اب ہم وزیرستان میں جنگ چھیڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ اس جنگ کو ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ وزیرستان سے بے گھر ہونے والوں کے قافلے آنا شروع ہو گئے۔ ان کے لئے ابھی تک امدادی سرگرمیاں دیکھنے میں نہیں آ رہیں۔ حالانکہ محدود فوجی کارروائی شروع کرنے سے پہلے ہمیں بے گھر ہونے والوں کے لئے کچھ نہ کچھ انتظام کرنا چاہیے تھا۔ صرف وزیرستان کی 7 ایجنسیوں کی آبادی 14لاکھ کے قریب ہے۔ مگر اس جنگ کا دائرہ محدود نہیں رہ سکتا۔ یہ فاٹا کی باقی ایجنسیوں تک بھی پھیلے گی اور ہو سکتا ہے‘ سوات میں بھی ایک بار پھر دہشت گرد سرگرم ہو جائیں۔ افغانستان اور فاٹا کے اندر‘ دہشت گرد طاقتوں کو تقویت پہنچا کر‘ ہم بہت بڑی مصیبت کھڑی کر چکے ہیں۔ جن نام نہاد طالبان سے ہمارا واسطہ ہے‘ ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی اکثریت کو تو شاید قرآن پڑھنے کا موقع بھی نہ ملا ہو۔ یہ اسلام کو صرف برینڈ نیم کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے دور تک‘ ہم کسی بیرونی جھگڑے میں نہیں الجھے تھے۔ سب سے پہلے ایوب خان نے ہمیں سردجنگ میں گھسیٹا۔ اس کے بعد ضیاالحق نے افغانستان میں جنگ کا الائو بھڑکایا اور پرویزمشرف نے افغان جنگ میں لڑنے والے کئی چھوٹے چھوٹے گروپوں کو پاکستان کے خلاف محاذآرائی کی طرف دھکیل دیا۔یہ لڑائی لڑتے ہوئے ہمیں 36برس ہو چکے ہیں۔ ابھی تک ہمیں نہیں معلوم کہ مزید کتنے برس اس جنگ کو جھیلنا پڑے گا؟ 
شام کی لڑائی بظاہر بڑی دور کی لگتی ہے۔ لیکن اس جنگ کے شعلے پھیل کر ہماری سرحدوں کے دامن تک آ سکتے ہیں۔ جب ہم سعودی عرب کے حلیف بن کر شام کی جنگ میں کودیں گے‘ توایران کے ساتھ معمول کے تعلقات برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا اور عین ممکن ہے کہ ہمیں سعودیوں اور ایرانیوں کی جنگ میں الجھنا پڑ جائے۔ یہ خبر عالمی میڈیا میں آ چکی ہے کہ سعودی عرب‘ پاکستان سے جدید ترین میزائل خریدنے والا ہے‘ جو شام کے باغیوں کو دیئے جائیں گے۔ روس نے یہ میزائل حاصل کرنے پر سعودی عرب کو وارننگ دے دی ہے۔کسی وقت ہم پر بھی روسی دبائو آ سکتا ہے۔ خدا خدا کر کے اب دہشت گردوں کے خلاف امریکی ہمارا ساتھ دینے کی طرف مائل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ لیکن شام کی جنگ میں حصہ ڈال کر‘ ہم امریکیوں کو بھی خوش نہیں کریں گے۔سعودی عرب مالدار ملک ہے۔ وہ امریکہ کے ساتھ کشیدگی برداشت کر سکتا ہے۔ ہمارے داخلی حالات اور معیشت ہمیں اس کی اجازت نہیں دیں گے اورشام کی جنگ پھیلنے کی وجہ سے‘ ہمارے ملک میں جو فساد برپا ہو گا‘ اس میں ہونے والے نقصانات کی تلافی سعودی ڈالروں سے نہیں ہو سکے گی۔ اپوزیشن کو یہ سوال پارلیمنٹ میں اٹھانا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں