"NNC" (space) message & send to 7575

دستی کی مستی 2

دوسرے منتخب نمائندے عوامی موضوعات پر بات کرتے ہیں‘ لیکن جمشید دستی صاحب خود ہی ایک موضوع ہوتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی بات ایسی کر دیتے ہیں کہ عوام ہوں یا ان کے نمائندے‘ موضوع گفتگو دستی صاحب کی ذات گرامی بن جاتی ہے۔ آجکل وہ شراب و شباب کے موضوع پر ایسے ایسے مضامین باندھ رہے ہیں کہ غالب سے عدم تک‘ مئے خانہ خراب کا خانہ‘ کسی نے بھی اتنا خراب نہیں کیا ہو گا‘ جتنا آج کل دستی صاحب کر رہے ہیں۔ مجھے عوامی نمائندوں پر بھی اعتراض ہے‘جو شا م ڈھلتے ہی بادہ نوشی کا آغاز کر دیتے ہیں۔ اس وقت تو دستی صاحب کو شریک محفل نہیں کرتے۔ (میں نے شریک محفل لکھا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔) ایسے بدلحاظ اراکین‘ بھری بوتل تو خود ڈکار جاتے ہیں اور خالی بوتل دستی صاحب کے دروازے کے باہر رکھ جاتے ہیں۔غصہ نہ آئے تو کیا ہو؟ اس پر مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ہمارے محلے میں ایک بہت ہی لڑاکی عورت تھی۔ پرانے دور میں ہر گلی محلے کا ایک ایسا کردار ضرور ہوا کرتا۔ بچے ایسی عورتوں کو غصہ دلا کے بہت خوش ہوا کرتے۔ ہماری گلی کی لڑاکی عورت نے مرغیاں پال رکھی تھیں۔ جب وہ بی بی‘ لڑکوں کو زیادہ ہی تبرے سنا دیتی‘ تو وہ چپکے سے اس کی ایک مرغی اٹھاتے۔ اکٹھے ہو کر پکاتے اور مزے سے کھاتے۔ ساتھ ہی یہ اہتمام کر لیتے کہ مرغی کے پر ‘ سر اور ہڈیاں ایک کاغذ میں لپیٹ کر چوری چھپے‘ لڑاکی عورت کے دروازے پر رکھ آتے۔ اس دن لڑاکی عورت کی پرفارمنس دیکھنے کے لائق ہوتی۔ وہ دوہتڑ مارتے ہوئے‘ نئی سے نئی گالیاں ایجاد کر کے''چوراچکوں‘‘ کو صلواتیں سناتی اور وہ چور اچکے چھپ چھپا کے‘ پرفارمنس سے لطف اندوز ہوتے۔ میں اس ستم ظریف ایم این اے کی حسِ ظرافت کی ستائش نہیں کر سکتا‘ جو دستی صاحب کے دروازے پر شراب کی خالی بوتل رکھ جاتے ہیں اور پھر شراب کے خلاف ان کی تقریریں سن کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ حالانکہ اس میں بگڑنے کی کوئی وجہ نہیں۔ ان کے دروازے پر صرف خالی بوتل ہوتی ہے۔ گالیاں وہ شراب کو دیتے ہیں۔ 
کل عجیب واقعہ ہوا۔ دستی صاحب بیگ لے کر ایک ٹی وی چینل کے دفتر میں داخل ہوئے۔ دفتر کے قریب ایک سٹور تھا۔ وہاں بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں نے دستی صاحب کو پُراسرار انداز میں بیگ لے کر جاتے ہوئے دیکھا‘ تو کھسرپھسر کرنے لگے۔ سب نے قیاس آرائیاں کیں کہ دستی صاحب کے بیگ میں کیا چیزیں رکھی ہوئی ہیں؟ سٹور میںٹی وی چل رہا تھا۔ میزبان دستی صاحب سے سوالات کر رہا تھا۔ اچانک انہوں نے بیگ اٹھا کر میز پر رکھا۔ اس میں سے شراب کی بوتل نکال کر میز پر سجا دی۔بوتل ڈبے کے اندر تھی۔ اس لئے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ دستی صاحب نے خالی ڈبہ رکھا ہوا تھا؟ یا ڈبے کے اندر بوتل تھی؟ میں ایک دوست کے ساتھ بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا‘ اس سے کہا ''دستی صاحب شراب کہاں سے اٹھا لائے؟‘‘
اس نے رائے دی کہ''انہوں نے میز پر صرف خالی ڈبہ رکھا ہے۔‘‘
''اچھا!تو بوتل میز کے نیچے رکھ دی ہو گی؟‘‘
''اکثر لوگ یہی کرتے ہیں۔‘‘
دستی صاحب پروگرام ختم ہونے پر بیگ سمیت سٹوڈیو سے باہر آئے اور چل دیئے۔ سٹور میں بیٹھے لوگوں میں سے ایک نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا ''شہر میں ایک قطرہ میسر نہیں‘ یہ پورا بیگ اٹھائے پھرتے ہیں۔ ہمیں پہلے سے پتہ ہوتا‘ توایک آدھ پیس ہم لے لیتے۔‘‘ دستی صاحب کیا خوب آدمی ہیں؟ شراب کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور ٹی وی پر آ کر اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں۔ یہ شراب کے حق میں ہیں‘ یا خلاف؟ شراب حلال ہو یا حرام؟ دستی صاحب کی ذات ایک بار پھر پورے ملک میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ ایک جگہ دستی صاحب کے حامی کہہ رہے تھے کہ ''یہ ایم این اے حضرات اتنے بے شرم کیوں ہوتے ہیں؟ کہ کھلے عام بیٹھ کر شراب پیتے ہیں۔ مجرے دیکھتے ہیں اور فحش حرکات کرتے ہیں۔ ‘‘ایک شخص نے پوچھا''کیا یہ مجرے لاجز کے لان میں ہوتے ہیں؟کیا دستی صاحب ان مجروں میں شریک ہوتے ہیں؟ کیا شراب سڑک پر بیٹھ کر پی جاتی ہے؟‘‘ ایک واقفِ حال نے وضاحت کی کہ ''ایسا تو مغرب میں بھی نہیں ہوتا۔ وہاں بھی ڈانس چاردیواری کے اندر ہوتا ہے۔ شراب نوشی بھی عموماً گھروں یا باررومز میں کی جاتی ہے۔ بہت کم لوگ فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر پیتے ہیں۔ مگر پاکستان میںاس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہاں تو چھپ کے خریدنا پڑتی ہے۔ چھپ کے گھر یا اپنی رہائش گاہ تک لے جانا پڑتی ہے۔ دروازے بندکر کے پینا پڑتی ہے۔ مجرے صرف فارم ہائوسز یا ڈیروں پر ہوتے ہیں۔ ہوٹلوں یا ہاسٹلوں کے کمروں میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ اکثر نمائندوں کی فیملیز ان کے ساتھ قیام پذیر ہوتی ہیں۔ سارے ایم این ایز ‘ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ آگے پیچھے کے کمروں میں خواتین قیام پذیر ہوں اور وہ مجرا کرانے بیٹھ جائیں۔‘‘
''پھر دستی صاحب نے مجرا کہاں دیکھ لیا؟‘‘
''ضرور چھپ چھپا کے کمروں کے اندر جھانکتے ہوں گے۔‘‘
''یہ کہاں کی تہذیب اور کہاں کا اخلاق ہے؟‘‘
''میرا تو خیال ہے اسلام بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘
''جی ہاں! سعودی عرب میں اسلامی نظام نافذ ہے۔ لیکن وہاں کسی کی مجال نہیں کہ گھروںاور نجی چاردیواریوں کے اندر جھانک سکے۔‘‘
''اس بارے میں علمائے کرام کی رائے‘ معتبر ہو گی۔‘‘
''ہم نے تو یہی سنا ہے کہ خلیفہ وقت کو بھی کسی کی رہائش گاہ کے اندر جھانکنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
''بعض لوگوں کا خیال ہے ‘ دستی صاحب کی جام شکن مہم درحقیقت عوامی نمائندوں کی کردار کشی کے لئے ہے۔ تاکہ انہیں اتنا بدنام اور رسوا کر دیا جائے کہ لوگ جمہوریت سے نفرت اور طالبان کی عزت کرنے لگیں۔‘‘
''لگتا بھی کچھ اسی طرح ہے۔‘‘
''طالبان نے مذاکرات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جس طرح عوام تک اپنی باتیں پہنچائیں‘ دستی صاحب نے اس سے کہیں زیادہ ان کی تشہیر کر دی۔ لوگ یقینا سوچنے لگے ہوں گے کہ ایسے نمائندوں سے تو طالبان ہی بہتر ہیں۔‘‘ عابد شیر علی نے دستی صاحب کو وینا ملک قرار دے کر بڑی پتے کی بات کہی۔ وینا ملک نے برسوں فن کی خدمت کی اور اب توبہ کر کے‘ تبلیغی جماعت میں شامل ہو گئی ہیں۔ دستی صاحب بھی پانچ چھ سال سیاست کی خدمت کرنے کے بعد‘ اب توبہ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔وہ بھی وینا ملک کی طرح اسلام کی خدمت کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں گے۔دستی صاحب کی شراب شکن مہم کے نتیجے میں پارلیمنٹ لاجز کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ مناسب ہو گا کہ کسی تجربے کار جیل سپرنٹنڈنٹ کو‘ پارلیمنٹ لاجز کے انتظامی امور کا سربراہ بنا دیا جائے۔ عوامی نمائندو ں اور ان کے اہل خاندان کو پاس جاری کر دیئے جائیں اور ملاقاتیوں کے لئے باہر جنگلے بنا دیئے جائیں۔ کارڈ کے بغیر 60سال سے کم عمر کی خواتین کا‘ کمروں میں داخلہ ممنوع قرار پائے اور 60 سال سے زیادہ عمر کی جو خاتون‘ کمرے کے اندر جائے‘ باہر جاتے وقت اسے میڈیکل ٹیسٹ کرانا پڑے۔ دستی صاحب کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے حلقے میں تمام برائیاں دور کر دی ہیں اور اب وہ اسلام آبادکو ٹھیک کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ کیا ایک اور لال مسجد؟ آخر میں ایک مودبانہ سوال کہ دستی صاحب جو بیگ لے کر ٹاک شو میں گئے‘ اس کے اندر کیا صرف خالی ڈبے تھے؟ یا بوتلیں بھی تھیں؟ اور اگر بوتلیں تھیں‘ تو کیا وہ بھری ہوئی تھیں؟ اور بھری ہوئی تھیں‘ تو وہ چپکے سے بتا دیں کہ وہ لائے کہاں سے؟اور اگر بوتلیں خالی تھیں‘ تو انہیں خالی کرنے والے کون تھے؟ دستی صاحب تو کر نہیں سکتے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دستی صاحب شرابیوں پر تو الزام ثابت نہیں کر پائے البتہ پارلیمنٹ لاجز کو ایک تہجدگزار افسر سے محروم کردیا۔ سو گلاں دی اکو گل۔ پارلیمنٹ لاجزکے انتظامی امور کی سربراہی کیوں نہ مولانا عبدالعزیز کے سپرد کر دی جائے؟وہ تمام منتخب نمائندوں کوپکا مسلمان بنا دیں گے اور ساتھ دستی صاحب کو بھی۔سکیورٹی سٹاف رکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ان کی اپنی لاٹھی فورس بہت فرض شناس اور مستعد ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں