امریکی میگزین ''فارن پالیسی‘‘ میںپاکستانی طالبان کے بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی ہے اور پھر وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے طالبان سے فرمائش کی ہے کہ وہ انہیںاسلام آبادمیں دہشت گردی کے ذمہ دار ڈھونڈ دیں۔ مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ احرارالہند‘ جس نے اسلام آباد کے قلب میں جا کر وزارت داخلہ کے سکیورٹی سسٹم کے بھرم کا پردہ چاک کیا ہے‘ ٹی ٹی پی کی حمایت کرنے والا ایک گروپ ہے‘ جو نفاذ شریعت کے لئے جہاد کر رہا ہے۔ جب سے ٹی ٹی پی نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے‘ اس گروپ نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ مسلح جدوجہد جاری رکھے گا۔ 3مارچ کے حملے کا ذمہ دار یہی گروپ ہے۔ باخبر ذرائع نے مضمون نگار دائود خٹک کو بتایا کہ ٹی ٹی پی کے امیر ملا فضل اللہ‘ جو پاکستانی سرحد کے قریب افغانستان میں روپوش ہے‘ نے دہشت گردی کے تازہ واقعات اور مذاکرات کے بارے میں‘ پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ یہ قابل غور بات ہے۔ جبکہ کرم‘ اورکزئی اور مہمند قبیلے اور پشاور‘ سوات اور ہنگو کے دہشت گرد‘ مذاکرات کے شدید مخالف ہیں۔ اسی طرح راولپنڈی‘ کوہاٹ‘ مردان‘ صوابی اور جنوبی وزیرستان کے دہشت گرد گروپ مذاکرات کی حمایت کر رہے ہیں۔ میجرمست گل کا گروپ ‘ پشاور اور کوہاٹ میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا ذمہ دار ہے۔ یہ گروپ سیزفائر کا مخالف ہے۔ اس نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف دہشت گردی جاری رکھے گا۔ طالبان کے گروہوں کے مابین صرف مذاکرات کے سوال پر ہی اختلاف نہیں بلکہ اور بھی بہت سے معاملات پر تنازعہ ہے۔ خصوصاً شمالی وزیرستان میں‘ان کے باہمی تضادات شدیدخونریزی کا باعث بن سکتے ہیں۔ طالبان کے ہیڈکوارٹر میں خان سعیدکا گروپ اور الیاس سجنا‘ مذاکرات کے حامی ہیں۔ حکیم اللہ محسود کے بیشتر حامی امن مذاکرات کے حق میں ہیں۔ محسود قبیلے کے لوگ ٹی ٹی پی کی قیادت ملافضل اللہ کے سپرد کرنے پر سخت ناراض ہیں۔ کیونکہ اس کا تعلق ان کے قبیلے سے نہیں۔ محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک صحافی سیلاب خان راوی ہے کہ طالبان کے مختلف گروپوں میں ابھی تک کنفیوژن ہے کہ اصل ٹی ٹی پی کی قیادت کون کر رہا ہے؟
جب خود طالبان کو علم نہیں کہ ان کا لیڈرکون ہے؟ تو ہمارا سرکاری وفد کس قیادت کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے؟ شمالی وزیرستان میں اس سوال پر دہشت گردوںکے درمیان تصادم بھی ہو چکے ہیں۔ ابھی تک کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ طالبان کے کتنے گروپ برسرپیکار ہیں؟ چوہدری نثار نے ان کی تعداد 37 بتائی جبکہ طالبان کے ایک گروپ کے مطابق یہ تعداد 23 ہے۔ مختلف گروہوں کے طالبان کسی ایک تعداد پر متفق نہیں۔ ان گروپوں کی تعداد23 سے لے کر 60 تک بتائی جاتی ہے۔ 24فروری کو ایک نامعلوم مسلح شخص‘ جس نے رنگین عینک لگا رکھی تھی اور ڈبل کیبن گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا‘ میران شاہ کے قریب عصمت اللہ شاہین کو ہلاک کر کے لاپتہ ہو گیا۔خالد عمر خراسانی ‘ پاکستان دشمنی میںسب سے آگے ہے۔اس نے اعلان کر رکھا ہے کہ ''جو طالبان کمانڈر‘ پاکستان کے ساتھ سمجھوتہ یا اس کی حمایت کریں گے‘ انہیں اس کی قیمت ادا کرنا ہو گی۔‘‘ شاہین کو حکیم اللہ محسود کے بعد ٹی ٹی پی کا عبوری چیف بنایا گیا تھا۔وہ اس مجلس شوریٰ کا بھی لیڈر تھا‘ جس نے ملافضل اللہ کو امیر بنایا تھا۔ وہ ان دو طالبان کمانڈروں میں سے تھا‘ جو مذاکرات کے سلسلے میں پہلی مرتبہ رابطے میں آئے۔
خیبرایجنسی کا دہشت گرد گروپ جو لشکر اسلام کہلاتا ہے اور کبھی ٹی ٹی پی کا حصہ نہیں رہا‘ وہ بھی مذاکرات کے خلاف ہے۔ اس کا مرکز باڑہ کے قریب تھا۔ اب اسے کافی پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ اس گروپ نے دورافتادہ جگہ پر اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ اسے وادی تیراہ کہا جاتا ہے۔ ماضی میں لشکر اور ٹی ٹی پی کا طارق آفریدی گروہ‘ ایک دوسرے سے برسرپیکار رہے ہیں۔ طارق آفریدی کا دعویٰ ہے کہ لشکر جھنگوی کے لیڈر منگل باغ کو‘ اسی نے مارا۔ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کو سب سے زیادہ خونخوار دہشت گرد سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اطلاع ہے کہ ان دونوں گروپوں نے امن مذاکرات کے سوال پر چپ سادھ رکھی ہے۔ اس بات کی کوئی توقع نہیں کہ وہ پاکستان میں شیعہ فرقے کے لوگوں پر حملے بند کر دیں گے۔ جہاد کشمیر کو چھوڑ کر افغانستان آنے والے مجاہدین اور حقانی نیٹ ورک‘ کسی قیمت پر اپنے گروہ ختم نہیں کریں گے۔ امن مذاکرات کامیاب بھی ہو گئے‘ تو ان کی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔ امن مذاکرات کے لئے ٹی ٹی پی اور سرکاری وفود کے درمیان رابطے امیدافزا اقدام ہے۔ مگر اس سے یہ امید کر لینا کہ امن قائم ہو جائے گا‘محض خوش فہمی ہے۔ ابھی تک پاکستان کی پوزیشن واضح رہی تھی کہ ہم تمام دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ مذاکرات کی تجویز آنے پر حکومت کے حامیوں نے بھرپور خوشی کا اظہار کیا تھا اور یہ منطق پیش کی تھی کہ مذاکرات کے سوال پر طالبان میں اختلافات پیدا ہو جائیں گے۔ کچھ گروپ مذاکرات کے حامی ہوں گے۔ کچھ ان کی مخالفت کریں گے۔ مگر وہ یہ بھول گئے کہ خود پاکستان کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں بھی زمینی حقائق مجبور کریں گے کہ ہم مذاکرات کے حامی دہشت گردوں کی حمایت کریں اور مخالفین کے خلاف جنگ ۔ ایک طرح کے دہشت گردوں کی حمایت اور ان کے مخالف دہشت گردوں کے ساتھ جنگ‘ ہمارے لئے بھی ایک کڑی آزمائش ہو گی۔ فوج کو دشمن کے خلاف لڑنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ اسے صرف ایک بات کا پتہ ہوتا ہے کہ جو سامنے سے اس پر فائر کر رہا ہے‘ و ہ دشمن ہے اور اسے ہر قیمت پر شکست دینا ہے۔ لیکن ایک ہی سمت میں ایک ہی جیسے لوگوں میں سے کچھ کو دشمن اور کچھ کو دوست سمجھنا‘ جنگ لڑنے والی فوج کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں ہم داخل ہوئے‘ تو سب سے بڑی مشکل یہی ہو گی۔ ہمارے ساتھ مذاکرات یا سمجھوتہ کرنے والے مخمصے میں پڑ جائیں گے کہ وہ فائر کس پر کھولیں؟ اپنے ہی جیسے دہشت گردوں پر یا پاک فوج پر؟ یہی الجھن ہمیں درپیش ہو گی کہ ایک ہی گائوں اور ایک ہی پہاڑی پر مورچہ زن دہشت گردوں میں کون ہمارا دشمن ہے اور کون سمجھوتے کا حامی ہے؟ یہاں تک میں نے صرف شمالی وزیرستان ‘ خیبر اور مہمند ایجنسیوں کی بات کی ہے۔ جنگ یہیں تک محدود نہیں رہے گی۔ طالبان نے پورے خیبرپختونخوا‘ کراچی‘ لاہور‘ مظفرگڑھ‘ ملتان‘ جھنگ اور راولپنڈی میں خفیہ ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔ ملک بھر میں پھیلے ان دہشت گردوں میں کچھ سمجھوتے کے حامی اور کچھ دشمن ہیں۔ کچھ صرف پاکستانی اور کچھ بیرونی ملکوں اور ایجنسیوں سے منسلک ہیں۔ کم از کم 15گروپ القاعدہ نیٹ ورک سے باقاعدہ رابطے میں ہیں اور القاعدہ ‘ پاکستانی فوج کی بدترین دشمن ہے۔ طالبان کے تمام گروہ‘ اسامہ بن لادن کو اپنا امیر مانتے ہیں۔ آپریشن شروع کرنا پڑا‘ تو یہ وزیرستان تک محدود نہیں رہے گا۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ جنگ شروع کرنا تو آپ کے اختیار میں ہوتا ہے‘ لیکن اس کے بعد یہ کیا رخ اختیار کرے گی؟ اس کا فیصلہ کسی کے ہاتھ میں نہیں رہتا۔ ہمارے ساتھ ایک اور بھی مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ ہمارے درمیان اتفاق رائے موجود نہیں۔جتنے گروپ طالبان کے ہیں‘ اتنے ہی گروپ پاکستان کے اندر ‘ ان کی حمایت کرنے والوں کے ہیں۔ یہ ریزہ ریزہ حمایت‘ وہ جذبہ پیدا نہیں ہونے دے گی‘ جو کامل اتحادکے نتیجے میں جنم لیتا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ دہشت گردی پر ہم صرف ٹی ٹی پی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے‘ امن حاصل کر لیں گے‘وہ حقائق سے بہت دور ہیں۔ ٹی ٹی پی سے اگر کوئی سمجھوتہ ہو گیا‘ تو اصل حقائق اس کے بعد سامنے آئیں گے۔میں نہیں سمجھتا کہ صرف ٹی ٹی پی کے ساتھ لڑائی یا صلح کر کے‘ ہمیں امن نصیب ہو جائے گا۔ ایسا ہونا مشکل ہے۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے ہو سکتا ہے ہم دہشت گرد گروہوں کی باہمی چپقلش کے اثرات کا بھی شکار ہو جائیں۔ایک بات تو طے ہے کہ طالبان کے نام پر دہشت گردی کرنے والے تمام گروہ‘ ٹی ٹی پی کے ڈسپلن کے پابند نہیں۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ سمجھوتے ہونے پر بھی ہمیں جنگ لڑنا ہی پڑے گی۔یہ بات اب عالمی میڈیا میں بھی آنے لگی ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر نہیں ہیں۔ خدا نہ کرے یہ حقیقت ہو۔ زیرنظر کالم میںصرف داخلی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ بیرون ملک سے کیا کیا سازشیں کی جائیں گی؟ ان کا اندازہ نہیں لگایا گیا۔