"NNC" (space) message & send to 7575

تین عورتیں ایک کہانی

مختاراں مائی ہو‘ کائنات سومرو ہو یا آمنہ بی بی‘ ناموں میں کیا رکھا ہے؟ تینوں حوا کی بیٹیاں ہیں۔ تینوں پاکستان کی بیٹیاں ہیں۔ تینوں کا صرف ایک جرم ہے کہ وہ بیٹیاں ہیں۔ تینوں کا جرم ایک ہے۔ پاکستان میں پیدا ہو گئیں۔ جب یہ ہو گیا‘ تو ان تینوں کے تمام انسانی حقوق ختم ہو گئے۔ کچھ اخبار ہیں‘ جو شورمچاتے مچاتے تھک جاتے ہیں۔ عالمی میڈیا ہے‘ جو ایسی کہانیاںڈھونڈ کر اپنے ناظرین اور قارئین کو تفصیل پہنچاتا اوردنیا کو بتاتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک چہرہ یہ بھی ہے اور ہمارے بعض دانشور اصرار کرتے ہیں کہ دنیا میں پاکستانیوں کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ خودکش بم دھماکوں کی خبریں ۔ مساجد کی دیواروں اور چھتوں پر انسانی گوشت کے چپکے اور لٹکتے ہوئے لوتھڑے۔ کٹے ہوئے انسانی سر اور ان سے فٹ بال کھیلتے ہوئے اسلامی انتہا پسند۔ تھر میں بھوک سے بلکتی مائوں اور ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے ہوئے معصوم بچوں کے لئے منظور ہونے والی امدادی رقوم خوردبرد کرنے والے سرکاری اہلکار۔ انسانی اور اسلامی برادری کے معزز اراکین مصر ہیں کہ وہ بیرونی دنیا میں جاتے ہیں‘ تو ان کی بے پناہ عزت کی جاتی ہے۔ چند لوگ ایسے ہیں‘ جو اس طرح کی لچر‘ بیہودہ اور جھوٹی خبریں شائع کرکے پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل آہستہ آہستہ قوانین کو ''اسلام‘‘ کے دائرے میں لا رہی ہے۔ اس کا تازہ کارنامہ لڑکیوں کی شادی کے لئے‘ عمر کے تعین کی پابندی ختم کرنے کی سفارش ہے۔اس ''آزادی‘‘ کے نتائج کو تصورات میں دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاکستان میں عمر کی پابندی کے باوجود ایسی شادیاں ہوتی رہتی ہیں‘ جنہیںاب قانون کے مطابق کردیا جائے گا۔
پاکستان کے فرزندان اسلام نے ‘فرنگیوں کے گناہ پرورقوانین ختم کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ اب سات آٹھ سال کی بچی کو ‘پچاس ساٹھ سال کے مرد کے نکاح میں دیا جا سکتا ہے۔ اسلام میں لڑکی کو اپنے شوہر کے نکاح میں آنے کے سوال پر‘ ہاں یا نہ کہنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن جب آٹھ نو سال کی بچی سے یہ پوچھنے کی رسم پوری کی جائے گی‘ تو وہ کیا سمجھ کر اثبات یا نفی میں جواب دے گی؟ اگر اسے اتنی عمر میں‘ اس سوال کی سمجھ نہیں آئے گی‘ تو بھی کیا فرق پڑتا ہے؟ پوچھنے کی شرط پوری ہو گئی۔ دین کا تقاضا پورا ہو گیا۔ کیا دین میں یہ شرط رکھنے کا یہی مقصد ہے؟اس کی تشریح مولوی حضرات ہی کریں‘ تو بہتر ہے۔ میں یہ جسارت کر بیٹھا‘ تو فحش نگاری کا ملزم ٹھہرایا جائوں گا۔دین فطرت میں یہ تو ہو نہیں سکتاکہ ایک انسان کو خدا نے اپنی زندگی کے معاملے میں انکار یا اقرارکا حق دیا ہو‘ تو اسے مطلب کی سمجھ آنے سے پہلے‘ فیصلے پر مجبور کیا جائے۔ جب 9سال کی بچی اپنے والدین کے اصرار پر ہاں کہے گی اور اس ''ہاں‘‘ کے مطلب سے بے خبر ہو گی‘ تو کیا دین کا تقاضا پورا ہو جائے گا؟ اس کا جواب بھی مولوی صاحبان ہی دے سکتے ہیں۔ جہاں تک ہمارے معاشرے کا تعلق ہے‘ ہمارے ہاں ایسی باتوں کی پروا نہیں کی جاتی۔ ایسے لوگوں کو معتبر سمجھا جاتا ہے‘ جو ساٹھ ستر سال کی عمر میں‘ نو دس سال کی بچیوں سے نکاح کرنا معیوب نہیں سمجھتے۔ نکاح کے بعد رخصت کرنے کے لئے دوچار پانچ سال کی مہلت کا شرع میں کہیں ذکر نہیں۔ یہ محض ایک رواجی پابندی ہے۔ نکاح کے بعد شوہر کا حق بن جاتا ہے کہ وہ جب چاہے اپنی منکوحہ کو گھر لے جائے۔ عجیب رواج ہے کہ دین فطرت کی منشا کو سمجھے بغیر‘ اس کے احکامات پر عمل کر دیا جاتا ہے۔ لیکن سماجی روایت کی پابندی کرنا دین کی منشا پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس مسئلے پر بھی مولوی صاحبان ہی رائے دے سکتے ہیں۔ میں یہ جسارت نہیں کر سکتا۔ 
ہمارے ملک میں آٹھ نو سال کی بچیاں بھی بیاہ دی جاتی ہیں۔ کوئی ایک ہفتہ ایسا نہیں گزرتا‘ جب ٹی وی اور اخبارات میں ایسی خبر نہیں آتی کہ ادھیڑ عمر شخص کی 8 سالہ بچی سے شادی۔ خبر صرف وہ بنتی ہے‘ جو میڈیا کی نظر میں آ جائے اور جو کچھ میڈیا کی نظر میں نہیں آتا‘ وہ اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ عام شہری مولوی صاحب سے رہنمائی لینا کافی سمجھتے ہیں اور مولوی صاحبان اقرار یا انکار کے حق کو سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ بچی سے نظر کیوں ہٹائی جائے؟ دین فطرت پر ایمان رکھنے والوں نے‘ بدکاری کے لئے عبرتناک سزائیںرکھی ہوئی ہیں۔ ان میں ایک سماجی قانون کاروکاری کا ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے‘ جس میں آج بھی بدکاری کرنے والے مرد اور عورت کو سنگسار کیا جاتا ہے۔ تازہ واقعہ اسی سال بلوچستان میں رونما ہوا۔ سندھ میں بھی ایسی سزائیں عام ہیں۔ قتل کرنے کے طریقے الگ الگ ہوتے ہیں۔ وجہ الگ نہیں ہوتی۔ اس میں اگر کوئی شادی شدہ لڑکی‘ کسی دوسرے مرد کے ساتھ تعلقات کے شک میں پکڑی جائے‘ تو قبیلے کے معززین اسے کاروکاری کا ملزم ٹھہراتے ہیں۔ مرد اور عورت دونوں کو قتل کرنے کے لئے کوئی بھی طریقہ اختیار کر لیا جاتا ہے۔ اسلام میں متعدد شرائط کے ساتھ سنگساری کی سزا رکھی گئی ہے۔ اگر سنگسار ہونے والا بھاگ نکلے‘ تو میرے ناقص علم کے مطابق اس کا تعاقب نہیں کیا جاتا۔ یہ مسئلہ سمجھنے کے لئے بھی مولوی صاحب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ مجھ میں یہ اہلیت نہیں۔ یہاں مجاہدین اسلام نے اغوا برائے تاوان کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ وہ کسی بھی مرد یا عورت کواغوا کر کے‘ قید میں ڈال دیتے ہیں۔ مغوی کے ساتھ غیرانسانی برتائو کیا جاتا ہے۔ صرف احتیاط یہ رکھی جاتی ہے کہ مغوی مرنے نہ پائے تاکہ تاوان ضائع نہ ہو۔ مجھے نہیں پتہ کہ شریعت میں اس کی گنجائش کہاں ہے؟ لیکن اغوا کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ وہ حقیقی اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ حکومت میں آ گئے‘ تو کیا ان کے زمانے میں اعلیٰ حکام اغوابرائے تاوان کی روایت پر عمل کریں گے یا نہیں؟ آج تو میں یہ سوال کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ ان کی حکومت آ گئی‘ تو اس کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔ زیادہ سے زیادہ رعایت ملی‘ تومیرا سر کاٹ کر اس سے فٹ بال نہیں کھیلا جائے گا۔ ہمارے فوجیوں کے ساتھ ایسا سلوک ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ مگر ہمارے مولوی صاحبان نے مجاہدین اسلام کے اس اقدام کی مذمت نہیں کی اور یہ بھی نہیں بتایا کہ اغوا برائے تاوان اور کلمہ پڑھنے والوں کے سروں سے‘ فٹ بال کھیلنے کے سوال پر شرعی حکم کیا ہے؟ 
آج کا یہ کالم لکھنے کی تحریک مظفر گڑھ کی آمنہ بی بی کی خودسوزی کی خبر سے ہوئی۔ 18سال کی یہ لڑکی فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی۔ اسے تین آدمیوں نے زبردستی پکڑ کے ہوس کا نشانہ بنایا۔ وہ انصاف مانگنے پولیس کے پاس گئی۔ طبی رپورٹیں لڑکی کے حق میں ہونے کے باوجود‘ تفتیشی افسر نے ملزمان کو بے قصور قرار دے دیا۔جب وہ رہا ہوئے‘تو لڑکی نے تھانے کے سامنے خود سوزی کر لی۔ اگلے دن وہ دم توڑ گئی۔ اس سے پہلے اسی علاقے کی ایک لڑکی مختاراں مائی کو‘ پنچایتی سزا کے تحت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ ساری دنیا نے اس سے اظہارہمدردی کیا۔ وہ کئی سال تک مقدمہ لڑی اور ہار گئی۔ سارے ملزم آزاد ہو گئے۔ اس کے دل پر اب کیا گزر رہی ہے؟ یہ اندازہ اس خبر سے ہوا کہ وہ ترک وطن کا ارادہ کر رہی ہے۔ آمنہ بی بی جان دے گئی۔ مختاراں مائی‘ دنیا بھر کی ہمدردیاں سمیٹ کر غیروں کی مدد کے سہارے‘ اپنوں کی محتاجی سے آزادہوکربھی چین کی زندگی سے محروم ہے۔ آمنہ کا گناہ کیا تھا؟مختاراں مائی کا گناہ کیا تھا؟ میں کیسے بتائوں؟ اور کیوں بتائوں؟ مولوی ہوتا تو شاید مجھے یہ حق مل جاتا۔ میری بے بسی دیکھئے کہ میں مولوی نہیں۔ تیسری لڑکی سندھی ہے۔ شکر ہے تھر کی بیٹی نہیں۔ ورنہ اس کی کہانی کسی کو معلوم بھی نہ ہوتی۔ اس کے ساتھ بھی وہی ہوا‘ جو غریب دختران پاکستان کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ 13 سال کی تھی‘ جب اسے ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔ اس فعل بد کا اصل نام ہماری مذہبی کتابوں میں لکھا جا سکتا ہے‘ اخباروں میں نہیں۔ اخباروں میں ہم اس کے لئے ''زیادتی‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ جس کی عزت لوٹی جائے‘ اس کی عزت کا بھرم تو رکھنا ہی پڑتا ہے۔کائنات کے ساتھ یہ سانحہ 2007ء میں ہوا اور وہ ابھی تک یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ اسے انصاف مل جائے گا۔ اس کا ایک بھائی انصاف مانگنے کے جرم میں قتل کیا جا چکا ہے۔ وہ پھر بھی انصاف مانگ رہی ہے۔ غیرت مندوں کے معاشرے میں‘ حوا کی بیٹی انصاف مانگ رہی ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل‘ قانون سازی کے لئے تجویز دیتی ہے کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر کی حد ختم کی جائے۔ زیادتی کرنے والے تو 5سال کی بچی کو بھی معاف نہیں کرتے۔ کیا یہ اچھا نہیں کہ 5سال کی بچی سے نکاح کی اجازت دے دی جائے؟ اس کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہو گی؟
نوٹ:- ابھی ابھی پشاور میں دھماکہ ہونے کی خبر آئی ہے۔ صوبائی حکام اس کوشش میں ہیں کہ اسے بم کا دھماکہ قرار نہ دیا جائے۔تادم تحریر دوسری وجہ منتخب نہیں کی جا سکی۔ حملہ آور کے اعضا مل گئے ہیں۔ دھماکے کی وجہ نہیںمل رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں