جہاں پروں والے نہیں پہنچ پاتے‘ وہاں بے پر کی اڑنے لگتی ہیں۔ انسان نے ہر دور میں بے پر کی اڑا کر‘ ان گنت خلائی اور خیالی آسمانوں کی گہرائیوں میں جھانکا ہے۔ کہانیاں اس وقت مزید دلچسپ ہو جاتی ہیں‘ جب بے پرکی اڑانے کے لئے ٹیکنالوجی کی مدد لی جائے۔ آج کل ہالی ووڈ کی فلموں کے موضوعات ‘ بے پر کی اڑائی ہوئی کہانیوں پر تیار ہو رہی ہیں۔ ایسی ایسی مخلوقات کرداروں کی شکل میں پیش کی جاتی ہیں‘ جیسے واقعی دنیا میں اس طرح کے جاندار پائے جاتے ہیں۔ مچھر کے سر والی مخلوق ‘ کیکڑوں کے پیروں جیسے ہاتھ پائوں رکھنے والے جاندار‘ آنکھوں سے تابکار شعائیں چھوڑنے والے اُلو‘ ہدایت کار چاہیںتو شہروں پر مینڈکوں کا قبضہ کرا دیں اور چاہیں‘ تو انسان کو ریچھوں کے ملک میں حکمران بنا دیں۔ اگر ملائشیا کا گمشدہ طیارہ تلاش کر لیا گیا‘ تو سچی کہانیوں میںپراسرار دنیا تخلیق یا دریافت کر لی جائے گی اور خدانخواستہ طیارہ ڈھونڈا نہ جا سکا‘ تو سائنس فکشن تو کہیں نہیں گئی۔جس تیزرفتاری سے سائنس ترقی کر رہی ہے‘ اس میں حقائق بھی کہانیاں لگتے ہیں۔ انسان کی زندہ رہنے کی تمنا الف لیلوی کہانیوں میں طرح طرح سے سامنے آتی رہی ہے۔ نئی سائنسی ایجادات کا مطالعہ کیا جائے‘ تو وہ بھی حقیقت سے زیادہ افسانہ لگتی ہیں۔ ملائشیا کے گم شدہ طیارے کے گرد پراسرار کہانیوں کی تخلیق شروع ہو چکی ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی برطانوی اخبار ''انڈی پینڈنٹ‘‘ میں پڑھنے کو ملی۔ یہ کہانی اخبار کے تین سینئر تحقیقاتی رپورٹروں نے مل کر مرتب کی ہے۔ ماضی میں جہاں محیرالعقول کردار وںاور قصوں کا بیان آتا ہے‘ وہاں کی منظر گاہ کو‘ کوہ قاف کو بنا لیا جاتا ہے۔ آج بھی ایسے لوگ باقی ہیں‘ جو سنجیدگی سے اس خیالی مقام کا تصورہی نہیں کرتے‘ دریافت بھی کر ڈالتے ہیں۔
دنیا میں بہت سے پہاڑ ایسے ہیں‘ جنہیں کوہ قاف قرار دیا جاتا ہے۔ یورپ والے ایلپس کو پراسرار کہانیوں کا مرکز بناتے ہیں۔ اب اس کے اوپر سڑکیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ لیکن دیومالائی کہانیوں میں آج بھی بچے اسے حقیقی سمجھتے ہیں۔ہم خواہ مخواہ چیچنیاکی طرف دیکھتے ہیں۔ حقیقت میں پاکستانیوں سمیت دنیا کے مختلف محقق کوہ قاف کو چترال میں تلاش کرتے ہیں۔ وہاں کی وادی کیلاش کے رہنے والے کافر کہلاتے ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں۔ لیکن کافر‘ جو کہ ان کی نسلی شناخت ہے‘ طالبان انہیں لفظی مفہوم میں کافر سمجھتے ہیں۔ انہیں متعدد دھمکیاں بھی دی جا چکی ہیں۔ یہ لوگ واقعی بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ مگر ان کے رہن سہن کا خوبصورتی سے زیادہ تعلق نہیں۔ ان کے حالات انہیں روزنہانے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس طرززندگی کے ساتھ ان کے لباس اور جسم کی ''مہک‘‘کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس پورے علاقے کا نام ''نورستان‘‘ ہے‘ جس کا ایک حصہ افغانستان اور دوسرا پاکستان میں شامل ہے۔ ملائشیا کے گمشدہ طیارے کے حوالے سے جو سائنس فکشن اب تخلیق ہو گی‘ اس میں بھی پاکستان مرکزی حیثیت حاصل کر سکتا ہے۔ پہلی کہانی آج برطانوی اخبار ''انڈی پینڈنٹ‘‘ میں پڑھنے کو ملی۔ کہانی کے مطابق یہ گمشدہ طیارہ‘ پاکستان کے شمال میں کسی پہاڑی مقام پر اترگیا ہے۔ ملائشیا کی حکومت نے توسرکاری طور پرمعلومات مانگ لی تھیں۔ پاکستان کو بتانا پڑا کہ ہمارے ریڈار کے ریکارڈ میں ایسی کوئی چیز نہیں آئی۔پاکستان نے 15مارچ کو وضاحتی بیان جاری کر دیا تھا۔ اس کے بعد 16مارچ کو نہایت سنجیدگی سے یہ تحقیقاتی رپورٹ شائع کی گئی۔ مقام کا تعین کرنے کے بعد اس مخلوق کی نشاندہی بھی کی گئی ہے‘ جس نے گمشدہ طیارے کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ اس قوم کا نام طالبان بتایا گیا ہے۔ ابھی کردار تخلیق نہیں ہوئے۔ اگر خدانخواستہ مزید کچھ عرصے تک جہاز تلاش نہ کیا جا سکا‘ تو پھر پراسرار کردار بھی تخلیق ہونے لگیں گے۔ ان میں ملافضل اللہ‘ ان کے ساتھی اور کئی دوسرے طالبان کمانڈر شامل ہوں گے اور پھر گردنیں کاٹنے‘ سروں سے فٹ بال کھیلنے اور سر کٹے بھوتوں جیسے کردار نمودار ہوں گے۔ عین ممکن ہے طالبان کی امن کمیٹی کے اراکین کے گرد بھی کہانیاں لکھی جائیں۔ ان میں مولانا سمیع الحق کو مرکزی کردار بنایا جا سکتا ہے۔ ان کی جناتی پوشاک اور پراسراریت‘ اس کردار کو مزید دلچسپ بنائیں گی۔ تازہ ترین کہانی کا ایک حصہ‘ آج سامنے آیا ہے۔ اس کے مطابق ماہرین نے اندازہ لگایا کہ طیارہ گم ہونے سے پہلے نچلی پرواز کرتا رہا اور اس دوران کنٹرول روم سے اس کا رابطہ منقطع ہوا۔ یہ نچلی پرواز طیارے کے پائلٹ یا اس کے معاون نے خود کی؟ یاجہاز کا کنٹرول دکھائی نہ دینے والی‘ مخلوق نے اپنے ہاتھ میں کر لیا تھا؟ یہ قصہ بھی کہانیوں کا موضوع بن سکتا ہے۔ خود پاکستان کے ساتھ طالبان کے مذاکرات‘ اچھی خاصی دیومالائی کہانیوں کو جنم دے رہے ہیں۔ مثلاً سب سے پہلے مولانا سمیع الحق نے اعلان کیا کہ وزیراعظم نے انہیں‘ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اہتمام کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ جس پر وزیراعظم ہائوس میں فوراً ہاتھ کھڑے کر دیئے گئے اور اعلان ہوا کہ وزیراعظم نے مولانا کو کوئی ذمہ داری نہیں سونپی۔ بعد میں وزیراعظم نے اپنی جس کمیٹی کا اعلان کیا‘ اس میں مولانا سمیع الحق کا نام نہیں تھا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں طالبان نے جس کمیٹی کا اعلان کیا‘ اس میں مولانا کا اسم گرامی موجود تھا۔ اس کردار کی بنیاد پر‘ کہانی میں جو دیو یا جن تخلیق کیا جائے گا‘ اس میںمافوق الفطرت خوبیاں پیدا کی جائیں گی۔ مولانا نے ایک دوسرے کا خون بہانے والے دو فریقوں کے دل میںبیک وقت اپنے لئے جو احترام کی جگہ پیدا کی، وہ ایک عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں۔ ان کے کردار کی مافوق الفطرت خصوصیات کے لئے‘ جن کا کردارتخلیق کیا جا سکتا ہے۔ جس میں بتایا جائے گا کہ وہ جن ایسے علاقوں میں جا کر مذاکرات کر لیتا تھا‘ جہاں کوئی پاکستانی جانے کی جرأت نہیں کر سکتا
تھا۔پھر اس جن کے بارے میں یہ بھی بتایا جائے گا کہ وہ نوگو ایریا میں کیسے گھس جاتا تھا؟ طالبان کے زیرکنٹرول علاقوں میں کوئی پاکستانی مکمل چھان بین کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن جن ‘ تمام پہریداروں‘ کیمروں اور سیٹلائٹ کی نگاہوں سے بچتا ہوا‘ خفیہ ٹھکانوں کے اندر اچانک نمودار ہو جاتا تھا۔ اسی طرح پاکستان نے طالبان کے ساتھیوں اور ہمدردوں پر کڑی نظر رکھی ہوئی تھی، لیکن اس کے باوجود جن تمام نگرانیوں کو ناکام بناتا ہوا‘ وزیراعظم ہائوس میں اچانک نمودار ہو جاتا تھا۔یہ بھی دکھایا جائے گا کہ جو برسرپیکار فریق ایک دوسرے کا خون بہا رہے تھے‘ وہ دونوںجن پر پورا اعتماد کرتے تھے۔ رستم شاہ مہمند بھی دیومالائی تاریخ کا حصہ بننے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ عام پاکستانی‘ ان کے بارے میں سمجھ ہی نہیں سکتے تھے کہ وہ کس کے حامی ہیں؟ طالبان کے؟ یا حکومت پاکستان کے؟ وہ پراسرار مقامات پر بات کرتے تھے‘ تو طالبان کے ترجمان لگتے تھے اور اسلام آباد آ کر وہ پاکستان کی زبان بولنے لگتے تھے۔پروفیسر ابراہیم جب دیومالائی کہانی کا کردار بنیں گے تو مصور‘ ان کے خیالی خاکوں میں‘ جن کا جو حلیہ اور نقوش بنایا کریں گے‘ ان میں وہ ایک خوبصورت اور طرحدار جن دکھائی دیں گے۔ان کی جناتی خصوصیت یہ بیان کی جائے گی کہ وہ بیک وقت جماعت اسلامی کے بھی لیڈر تھے اور طالبان بھی ان کی رہنمائی سے فیضیاب ہوا کرتے تھے۔ طالبان نے اپنی پراسرار صلاحیتوں کی وجہ سے جو طیارہ غائب کیا تھا‘ اسے ابراہیم نامی جن‘ منصورہ میں لے آیا تھا۔ جسے جماعت اسلامی کے سائنسدانوں نے ایک دکھائی نہ دینے والے طیارے میںبدل دیا تھا۔ اس پراسرار طیارے پر سیدمنور حسن کابل جایا کرتے تھے۔ یہ سب قصے کہانیاں‘ ملائشیا کے گمشدہ طیارے کے اردگرد تخلیق ہوں گی۔ دور مذاکرات کی جو دیومالائی کہانیاں تخلیق ہوں گی‘ ان میں ایک بھوت کا قصہ بھی آئے گا۔ بھوت کی شکل میںوہ کردار پیش کیا جائے گا‘ جسے پڑھ یا دیکھ کر مولانا یوسف شاہ کا گمان ہو گا۔ بتایا جائے گا کہ وہ طالبان کی باقاعدہ کمیٹی کا حصہ نہیں تھے۔ وہ اچانک بھوت کی طرح اترے اور طالبان کی کمیٹی پر چھا گئے۔ مذاکراتی دور کی دیومالائی کہانیوں میں مولانا عبدالعزیز کا کرداراچانک آنکھوں سے اوجھل ہو جانے والے جن کا ہو گا۔ و ہ ایک مسجد میں جہاد کا مورچہ لگاتے ہیں اور پھر کسی اور بھیس میں غائب ہو جاتے ہیں۔ طالبان کی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے‘ ہر ٹاک شو میں بیک وقت دکھائی دیتے ہیں اور پھر وہاں سے بھی غائب ہو جاتے ہیں۔ دیومالائی کہانیوں میں خود طالبان کو بھی پراسرار مخلوق کے طور سے پیش کیا جائے گا۔ بوئنگ 777جیسا بڑا جہاز موجودہ سائنسی دور میں اچانک غائب ہو جائے‘ تو کیا آنے والے زمانوں میں دیومالائی کہانیاں نہیں لکھی جا سکیں گی؟ اور پھر سائنس فکشن کی تخلیقی کمندیں تو عالم غیب کی فصیلوںپر ڈالی جا سکتی ہیں۔ ایسے واقعات کو‘ آنے والی نسلیں کس طرح حقیقت پر مبنی سمجھیں گی؟ جب انہیں بتایا جائے گا کہ ایک آئینی اور قانونی حکومت ‘ ریاست کے باغیوں سے یوں چھپ چھپ کر ملاقاتیں کرتی رہی ‘ جیسے محبت کے دشمنوں کے شہر میں‘ پیار کرنے والے لڑکا لڑکی چھپ چھپا کے ملتے ہیں۔اس طرح کے واقعات دیومالائی دنیا میں ہی ہو سکتے ہیں۔