"NNC" (space) message & send to 7575

جہاں رہو‘ خوش رہو

وزیراعظم نوازشریف کے مومن ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ایک سوراخ سے وہ ڈسے جا چکے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں۔مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیںڈسا جاتا۔ یہ بھی یقینی ہے۔ پھر وہی سوراخ دوبارہ کیوں ڈھونڈا جا رہا ہے؟ پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں۔ عوام کے ووٹ لے کر‘ پارلیمنٹ کی سادہ یا دو تہائی اکثریت سے حکومت بنائی اور چلائی جائے۔ مہذب ملکوں میں جمہوری حکمرانوں کو یہ سہولت حاصل ہوتی ہے کہ امن و امان کی صورتحال خراب ہونے لگے‘ تو وہ فوج کو مدد کے لئے بلا لیتے ہیں۔پاکستان میں منتخب حکومت کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔ یہاں کا منتخب حکمران ‘ فوج کو صرف بلانے کا اختیار رکھتا ہے۔ واپس بیرکوں میں نہیں بھیج سکتا۔ بلانے والے کو خود قیدی بن کر‘ بیرکوں میں جانا پڑتا ہے۔ یہ واقعہ نوازشریف کے ساتھ ہو چکا ہے۔ بھٹو صاحب نے امن و امان کے لئے فوج بلائی تھی‘ انہیں بیرکوں میں نہیں‘ کوٹ لکھپت جیل میں قید کیا گیا اور راولپنڈی جیل میں پھانسی دی گئی۔ ان کی طاقت میں کمی نہیں تھی۔ انہوں نے عوام سے دور ہوکے‘ اپنے اقتدار کی طاقت گنوا دی۔ طاقت کی کمی پوری کرنے کے لئے‘ ڈنڈے سے مدد مانگی۔ ڈنڈے نے ''اپنا‘‘ کام کر لیا۔ضیاالحق کے بعد کسی منتخب وزیراعظم کو اقتدار ہی منتقل نہیں ہوا۔ پرائم منسٹر ہائوس میں کبھی بے نظیر اور کبھی نوازشریف بیٹھے۔ حکمرانی کا مرکز جی ایچ کیو میںرہا۔ پرویزمشرف کی رخصت کے بعد‘ اقتدار ایک بیوہ کی حالت میں ہے۔ جس کا دائو لگتا ہے‘ پاس بلا لیتا ہے۔ گزشتہ حکومت میں اس بیوہ کو چیف جسٹس نے اپنے پاس بلائے رکھا۔ ان کے جانے کے بعد بیوہ پھر سے لاوارث ہے۔ اصولاً اسے نوازشریف کے نکاح میں آ جانا چاہیے تھا۔ مگر وہ اسے اپنے پاس نہیں بلا پائے۔ جب تک وہ اس بیوہ کو جائز منکوحہ نہیں بنائیں گے‘ یہ لاوارث ہی رہے گی۔ ایسا نہیں کہ نوازشریف نے اسے منکوحہ بنانے سے گریزکیا۔ وہ کوشش کرتے رہے ہیں۔ بیوہ کو سہاگن نہیں بنا پائے۔
اقتدار کی بیوہ‘ دوبارہ سہاگن اس وقت بنتی ہے‘ جب وہ ریاست کی رٹ قائم کر سکے۔ ریاست کی رٹ قائم کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک آئینی اور قانونی ‘ جس کا انحصار حکومت کی اخلاقی طاقت پر ہوتا ہے اور ایک ڈنڈا۔ جو صرف ڈنڈے والوں کے کام آتا ہے۔ منتخب اداروں اور حکمرانوں کے پاس قانون کی طاقت ہوتی ہے۔ جس قدر وہ آئین کو موثراورقانونکوطاقتور بنائیں گے‘ وہ بااختیار رہیںگے۔ جس دن انہوں نے آئین و قانون کو اخلاقی بنیادوں سے محروم کرکے‘ ڈنڈا چلانے کی کوشش کی‘ تو جانئے کہ انہوں نے خودقانون سے طاقت چھین کر‘ ڈنڈے کے سپرد کر دی۔ نوازشریف یہ کام کر کے دیکھ چکے ہیں۔ انہوں نے خصوصی عدالتیں قائم کر کے‘ اخلاقی بنیادوں پر قائم قوانین کو بے اثر کیا۔ڈنڈا انتظامیہ کے ہاتھ میں دے دیا۔ اور پھر انہوں نے غیرمعمولی اختیارات اور خصوصی عدالتوں کے اپنے ہی بنائے ہوئے نظام میں تکلیفوں کا سامناکیا۔ اگر جلاوطنی ان کے بچائو کے لئے نہ آتی‘ توخاکم بدہن‘ وہ خصوصی عدالتوں کے فیصلوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہوتے۔وہ پھر سے اسی سوراخ کی طرف کیوں بڑھ رہے ہیں‘جس سے ایک بار ڈسے جا چکے ہیں؟ 
گزشتہ جمہوری حکومت میں آصف زرداری نے اختیارات اپنے ہاتھ میںلیکر جنرل کیانی کے کنٹرول میں دے دیئے۔ جب بھی کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتا‘ وہ اپنے وزیراعظم‘ چند وزیروں اورافسروں کو جنرل کیانی اور ان کے ساتھیوں کی خدمت میں پیش کرکے‘ فیصلوں پر''مشترکہ ‘‘کا ٹھپہ لگاتے اور عملدرآمد کی ذمہ داری‘ جنرل کیانی کے سپرد کر دیتے۔ یہ ایک غیر آئینی انتظام تھا۔ اس میں اقتدار کی بیوہ لاوارث ہو کے رہ گئی۔ فوج نے اسے اپنے نکاح میں نہیں لیا تھا اور زرداری حکومت میں بااختیار شوہر بننے کی صلاحیت نہیں تھی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے‘ اختیارات کی بیوہ اپنے گھر بٹھا لی۔ پارلیمنٹ ‘آئین لے کے اونگھتا رہا۔ اس کے پاس طاقت نہیں تھی۔ جنرل کیانی چلتے پھرتے ہوئے ڈنڈا گھماتے رہے۔مگر ان کا ڈنڈا فلمی 7لاکھ روپوں کی طرح تھا‘ جسے وہ گھما سکتے تھے‘ چلا نہیں سکتے تھے۔ اسے کسی اور پر چلانے سے پہلے‘ کیانی صاحب کو یہ ڈنڈا آئین پر چلانا پڑتا۔ مگر نتائج کے خوف سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔اقتدارکی بے بس بیوہ کو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے ہاتھ پر آئین کا دستانہ چڑھا کے‘ اسے اپنے پاس لا بٹھایا اور اس کے نام پر بے دھڑک راج کرتے رہے۔ نوازشریف نے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعدآٹھ نو مہینے آئینی طاقت استعمال کرنے کی کوشش کی۔ قدرت نے انہیں سنہری موقع عطا فرمایا تھا۔ وہ یاہو کا نعرہ لگا کر کرپشن پر لشکر چڑھا دیتے۔ مظلوموں کی داد رسی شروع کر دیتے۔ پولیس اور فوج کوسماج دشمن عناصر پرچڑھائی کا حکم دے دیتے۔ٹیکس خوروں سے ٹیکس کی وصولیاں کرنے لگتے‘ تو آئین کی طاقت خود بخود ان کے ہاتھوں میں آ جاتی۔ آئین کی طاقت محض بول بچن سے پیدا نہیں ہوتی۔ اسے اخلاقی طاقت میں بدل کر‘عوام کی حمایت اور محبت حاصل کی جاتی ہے اور جس حکمران کے پاس آئین اور عوام کی طاقت ہو‘ اس کی طرف نہ کوئی غیر میلی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے اور نہ اندر کا کوئی طالع آزما سازش کا حوصلہ کر سکتا ہے۔ قانون‘ جو اس وقت ایک زنگ آلود مشین کی طرح غیرمتحرک پڑا ہے‘حرکت میں آ جاتا‘ توزندگی رواں دواں ہو جاتی۔ امن و امان کی فضا میں ‘عوام کے دلدر‘ دور ہو جاتے اور وہ پراعتماد ہو کر تعمیروترقی کے عمل میں سرگرم ہو جاتے۔ عدالتیں‘ افتخار چوہدری کی طرح ذاتیخواہشات کے بجائے‘ آئین و قانون کی طاقت‘ ناانصافی کے خلاف استعمال کرنے لگ جاتیں‘ نوازشریف کو عزت‘ نیک نامی‘ محبت اور طاقت ‘ سب کچھ حاصل ہو جاتا اور اپنی اس کارکردگی کے ساتھ‘ انہیں طالبان سے مذاکرات نہ کرنے پڑتے‘ وہ آہنی ہاتھ سے قانون شکنوں اور دہشت گردوں کو بے بس کر کے‘ امن پسند شہری بنا سکتے تھے اور جو نہ بنتا‘ اسے قانون کی زنجیریں پہنا کرجیل میں ڈال سکتے تھے۔ دہشت گردوں پر قابو پانے کیلئے‘ انہیں دوسرے دہشت گردوں سے مدد کی اپیل نہ کرنا پڑتی۔ یوں لگتا ہے کہ نوازشریف نے اپنے آپکو طاقتور بنانے کے سارے طریقے نظراندازکرکے‘ دلوں پر حکمرانی کا راستہ چھوڑدیااوررعب ڈالنے‘ ڈرانے دھمکانے اورخوفزدہ کرنے کے لئے‘جبرکی مشینری تیارکرنے کاراستہ اختیارکر لیا۔یہ مشین وہ نہیں‘ جو وہ اپنی فیکٹریوں میں بناتے رہے ہیں۔ یہ مشین وہ ہے‘ جسے بنانے کے بعد‘ ڈکٹیٹر کمزوروں کوڈرانے اوردبدبہ بٹھانے کیلئے گولیوں‘ توپوں اور زنجیروں کا بے رحمی سے استعمال کرتے ہیں۔ 
ریپڈ فورس‘انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کا قیام‘جیلوں کو عقوبت گاہوں میں بدلنے کے فیصلے‘ملزموں کوجلد''کیفرکردار‘‘ تک پہنچانے کی تیاریاں اورچاروں صوبوں کی طاقت جمع کرکے ناانصافی کی زنجیریں توڑنے والوں کی کمر توڑنے کیلئے‘ ایک ساتھ جھپٹنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ‘ ریپڈفورس، محفوظ جیلیں مجرموں اور دہشت گردوں کے لئے تو پہلے سے موجود ہیں۔نئے منصوبے کے تحت یہ سب کچھ کس کے لئے ہو گا؟ پرامن‘ احتجاج کرنے والوں کے خلاف جبرکے آلات!قارئینکو یاد ہوگا‘ جب مصر میں فوج نے امریکی سرپرستی میں منتخب حکومت کا تختہ الٹا‘ تو میں نے لکھا تھا کہ یہ ریہرسل ہے۔ اس طرح کے مزیدکئی ڈرامے شروع ہونے والے ہیں۔پاکستان میں اس ڈرامے کی کہانی‘ کردار اور مکالمے کیاہوں گے؟ اس کی پیش گوئی تو میں نہیں کر سکتا۔ البتہ پلاٹ وہی ہوگا‘جس میںزیربحث موضوع پرمبنی ڈرامے‘ عوام صدیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس طرح کے ڈراموں میں عوام کے قاتلوں اورتخریب کاروں سے ہاتھ ملایا جاتا ہے۔ ان سے بات چیت کی جاتی ہے۔ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جاتے ہیں اور زنجیریں توڑنے کے خواہشمند عوام کے ہاتھ باندھے جاتے ہیں۔ جس ملک کی حکومت‘ قاتلوں‘ دہشت گردوں اور قانون شکنوں سے ہاتھ ملائے اور ساتھ ہی غیرآئینی اختیارات حاصل کرنے کیلئے‘ مشینری بنانیکی تیاری کرنے لگے‘جس میں آزادی کی خواہشیں کرنے اور مستقبل کے خواب دیکھنے والوں کا چورا بنا کرکامیابی کی مٹھائی پر چھڑکا جاتا ہے‘ تو سمجھ لیجئے کہ مومن نے دوسرے سوراخ کی طرف چلنا شروع کر دیا ہے۔ ہمیں اس کی فکرنہیں۔ ہم تو نصف صدی پہلے کے ایک ہی بارڈسے ہوئے ابھی تک‘ بے سدھ پڑے ہیں۔کروٹ تک لینے کی سکت نہیں۔دعائے خیران کے لئے ہے‘ جو مومن بھی کہلاتے ہیں۔ ایک بار‘ ڈسے بھی جا چکے ہیں اور دوسری بار‘ڈسے جانے کے لئے سوراخ تک پہنچنے کیلئے بھی بے تاب ہیں۔ہم اس کے سوا کیاکہہ سکتے ہیں؟جہاں رہو‘خوش رہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں