مجھ جیسے روز لکھنے والوں کے مزے ہو جاتے ہیں‘ جب کوئی پراسرار واقعہ ہو جائے اور اس کی کہانی کا اختتام دوچار روز میں ہونے کی بجائے‘ دوچار مہینوں تک نہ ہو۔ ملائشیا کے مسافر طیارے کی گمشدگی ایک ایسا ہی ڈرامہ ہے‘ جس کا سسپنس شاید کافی دنوں تک باقی رہے اور جب تک سسپنس باقی ہے‘ تب تک میرا سیزن بھی لگا رہے گا۔ آسٹریلیا کے ساحلی علاقے میں کسی چیز کا ملبہ دکھائی دیا ہے مگر ابھی تک یہ آسمان کی بلندیوں سے دکھائی دینے والی دھندلی سی چیزیں ہیں۔ کہانی کے شروع میں جتنے ڈرامائی موڑ آ سکتے تھے‘ وہ کم و بیش آ چکے ہیں۔ آنے والے دنوں میں دلچسپی برقرار رکھنے کی خاطر ٹھیک ٹھاک کاری گری دکھانا ہو گی۔ کاری گری کے لئے کافی گنجائشیں موجود ہیں۔ مثلاً ایک دھماکہ تو میں یہ کر سکتا ہوں کہ اس سلسلے کو امریکہ اور ابھرتی ہوئی سپرپاور‘ چین کی مسابقت سے جوڑ دوں۔ یوں ہو گیا‘ تو پھر کہانیاں ہی کہانیاں۔ ڈرامے ہی ڈرامے۔ مجھے ایک سہولت میسر ہے کہ جہاں دلائل‘ منطق اور علم ساتھ نہ دے رہے ہوں‘ کالم نگاری کام آ جاتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قارئین بور نہیں ہوتے۔ مجھے عرق ریزی نہیں کرنا پڑتی۔ آپ پڑھنے کی بوریت سے بچ جاتے ہیں۔ میں لکھنے کی بوریت سے بچ جاتا ہوں۔ دونوں اپنے اپنے گھر خوش۔ ایک روز پہلے میں اس طیارے کو دیومالائی دنیا میں لے جا کر ‘کالم کے لئے دانے دنکے کا انتظام کر چکا ہوں۔ آج سوچا ہے کہ جو طیارہ ساری دنیا کو نہیں مل سکا‘ اسے چین میں کیوں نہ جا ڈھونڈوں؟
12مارچ سے‘ جس دن طیارے کا رابطہ دنیا سے ٹوٹ گیا‘ 26ملکوں کی افرادی قوت اور ٹیکنالوجی اس کی تلاش میں لگے ہیں۔ مختلف شعبوں کے 30 ہزار ماہرین‘ بہترین آلات سے لیس ہو کر اپنی جگہ مصروف ہیں۔ 39 سراغ رساں طیارے اور 42 سمندری جہاز ‘اسے فضائوں اور سمندروں میں تلاش کر رہے ہیں۔ ان میں امریکہ کے تباہ کن جہاز بھی شامل ہیں۔ سمندر کی گہرائیوں اور آسمان کی بلندیوں سے‘ زمین کے ایک ایک انچ اور پانی کے ایک ایک قطرے کی چھان بین کی جا رہی ہے۔ چین جس کے 153باشندے لاپتہ ہونے والے طیارے میں سفر کر رہے تھے‘ اس کے 8 بحری جہازسمندر کے پانیوں کو چھان رہے ہیںاور 10مصنوعی سیارے مسلسل نگرانی کر رہے ہیں۔ان تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک طیارے کا کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ دنیا بھر کے ماہرین اس معمے کو حل کرنے میں ابھی تک ناکام ہیں۔ ایسا حیران کن واقعہ ہوا بازی کی حالیہ تاریخ میں تو رونما نہیں ہوا۔ گمشدہ طیارے کے مسافروںکی چھان بین معمول کے مطابق کی گئی تھی۔ جب سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے‘ فضائی سفر کے معاملے میں خصوصی احتیاطیں کی جا رہی ہیں اور مسافروں کی تلاشی اور ان کے سامان کی سکیننگ جدید ترین آلات کی مدد سے کی جاتی ہے۔ تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود‘ گزشتہ سال 40ملین مسافروں کی سفری دستاویزات کی چھان بین کی گئی۔ 800ملین اندراجات ہوئے۔ ان میں سے 238ملین صرف امریکہ میں کئے گئے۔ برطانیہ نے 140ملین کیس پراسس کئے۔ جبکہ یو اے ای نے 104ملین انکوائریاں کیں۔ فضائی دہشت گردی کے تمام واقعات کا جائزہ لینے کے بعد جو احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں‘ ان میں ہر آنے والے دن کے ساتھ نئی نئی تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ بوئنگ کمپنی کا 777طیارہ‘ دنیا کی 8 بڑی ایئرلائنز کے تعاون اور مسلسل ریسرچ سے مدد لیتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا۔ اسے فلائی ''بائی وائر‘‘ ایئرلائنر کہا جاتا ہے۔ اس کے تمام کنٹرولز کمپیوٹر کے ساتھ ہوتے ہیں۔ یہ مکمل طور پر کمپیوٹر کا ڈیزائن کیا ہوا پہلا کمرشل طیارہ ہے۔ اس کا بلیک باکس جہاں بھی ہو‘ پانی کے اندر یا انگاروں کے ڈھیر میں‘ زمین کے اوپر یا ملبے کے نیچے‘ ایک ماہ تک مسلسل سگنل دیتا رہتا ہے۔ اگر یہ پانی میں ڈوب جائے‘ تو اس کے غیردھاتی حصے پانی کی سطح پر آ جاتے ہیں اور اگر کوئی انہیں تلاش کر لے‘ تو جوڑ کر ان میں سے ڈیٹا نکالا جا سکتا ہے۔ تحفظ کے لئے جتنی احتیاطیں اس طیارے میں کی گئی ہیں‘ کسی اور مسافر طیارے میں ابھی تک نہیں ہو سکیں۔ یہ طیارہ 18 سال سے کمرشل سروس میں ہے۔ اس کا پہلا حادثہ جولائی 1913ء میں ہوا تھا۔ بلیک بیری کے ٹیلیفون کی طرح یہ طیارہ بھی اپنی تخلیق کرنے والی کمپنی سے رابطے میں رہتا ہے۔ یعنی اسے چلانے والی ایئرلائنز کے علاوہ بوئنگ کمپنی بھی اس کی نگرانی کرتی رہتی ہے۔جس طرح اس طیارے نے اپنی پروازوں کے دوران حیران کن نتائج دیئے‘ اسی طرح اس نے اپنی نگرانی کرنے والے تمام جدید ترین آلات کو غچہ دے کر روپوشی اختیار کر لی۔ اس سے پتہ چلا کہ ٹیکنالوجی جتنی بھی ترقی کر جائے‘ انسانی غلطی پھر بھی اپنی جگہ ڈھونڈ لیتی ہے۔ طیارہ تو محض ایک شے ہوتا ہے۔ چند روز پہلے روس نے کریمیا کے خلاف فوجی کارروائی کی۔ اس کے ٹینک اور فوجی دستے کریمیا کی سرحدوں پر آ کر جمع ہوتے رہے۔ طیاروں نے خفیہ پروازیں کیں‘ کئی دنوں کی نقل و حرکت کے بعد حملے کی تیاریاں مکمل ہو گئیں۔ یوکرائن میں کئی مہینوں سے احتجاجی تحریک چل رہی تھی۔ سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان تصادم مسلسل جاری تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ ان مظاہروں کے پیچھے روس کا ہاتھ ہے۔ یہ خدشہ بھی موجود تھا کہ روس کسی وقت بھی فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔ لیکن کئی دنوں کی کھلی تیاریوں کے بعد‘ صبح 4بجے حملہ شروع ہوا پھر امریکہ کو پتہ چلا کہ کارروائی ہو گئی ہے اور قبل اس کے کہ یورپ اور امریکہ کوئی ردعمل ظاہر کرتے‘ کریمیا پر روسی فوج کا قبضہ ہو چکا تھا۔ گویا نگرانیوں کے تمام تر انتظامات کے باوجود اگر کوئی اچانک حملے کا ارادہ کر لے‘ تو یہ آج بھی ممکن ہے۔
جس طرح حملہ آور فوجوں کی تیاریوں کا ہدف بننے والے ملک کو بیرونی حملے کا پتہ نہیں چلتا‘ اسی طرح اگر کوئی شاہین چڑیوں کو پنجوں میں دبا کر نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے‘ تب تک معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس نے کب یہ واردات کردی؟ ایک واقعہ تو آپ کو یاد ہو گا کہ چین نے امریکہ کے جاسوس طیارے کو اپنی فضائوں سے گرفتار کر کے‘ ایک فوجی ہوائی اڈے پر اتار لیا۔ چین اور امریکہ کے درمیان سفارتی جنگ شروع ہو گئی۔ الزامات اور جوابی الزامات کا مقابلہ ہوا اور اس دوران گرفتار شدہ طیارے کو ورکشاپ میں کھول کر‘ اس کے ایک ایک پرزے کا بلیوپرنٹ تیار کر لیا گیا۔ چند گھنٹوں میں طیارے کو دوبارہ اسمبل کر کے‘ رن وے پر کھڑا کر دیا گیا۔ دو دن امریکی‘ سیاروں کے ذریعے چین کے ہوائی اڈوں پر اپنا طیارہ ڈھونڈتے رہے مگر انہیں نہیں ملا۔ ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ طیارہ رن وے پر کھڑا ہے۔ اس کے بعد طیارہ مسلسل زیرنگرانی رہا۔ جب مذاکرات میں معاملہ طے ہوا‘ تو امریکی اپنا طیارہ لے گئے۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ دو دن کا جو وقت طیارہ ڈھونڈنے میں گزرا ہے‘ اس دن تک انہیں وہ رن وے ہی نہیںملا تھا جہاں طیارہ کھڑا تھا۔ یا تو امریکیوں نے خود یہ حقیقت چھپائے رکھی کہ انہیں چینیوں کی واردات کا پتہ چل چکا ہے یا واقعی وہ یہ سمجھتے رہے کہ طیارے کو جیسے اتار کر رن وے پر کھڑا کیا تھا‘ اسے شروع دن سے وہیں رکھا گیا۔ بڑی طاقتوں کے درمیان اس طرح کی چکمے بازیاں ہوتی رہتی ہیں۔ بوئنگ کا 777آج تک بنائے گئے طیاروں میں سب سے جدید ‘ سب سے زیادہ محفوظ اور پوری طرح کمپیوٹر کنٹرول سے چلنے والا طیارہ ہے۔ جسے بنانے کے لئے 8سال تک ریسرچ کی گئی۔ چین آج بھی ایڈوانس ٹیکنالوجی کی تلاش میں رہتا ہے۔ خود اس کی اپنی لیبارٹریز بھی کام کرتی ہیںاور فیلڈ نیٹ ورک بھی اصل ''نمونے‘‘ ڈھونڈڈھانڈ کر اپنے سائنسدانوں کو پہنچاتا رہتا ہے۔ بعیداز قیاس ہی سہی لیکن سوچا تو جا سکتا ہے کہ چین نے یہ سٹیٹ آف دی آرٹ طیارہ ‘ اس کی ٹیکنالوجی تک پہنچنے کے لئے کسی نہ کسی طرح سے گھیرا اور اب طریقے ڈھونڈ رہا ہے کہ اسے ہضم کر جانا ہے یا اچانک کسی کہانی میں لپیٹ کر مالکان تک پہنچانا ہے؟ جب تک طیارہ گمشدہ رہے گا‘ ہم اپنے کالم گھڑتے رہیں گے۔عالم تصورات میں کیا کیا گنجائشیں نہیں ہوتیں؟