"NNC" (space) message & send to 7575

سچا‘ محبت کرنے والا اور ذرا سا ریاکار

1980ء کے عشرے کے وسط میں‘ خشونت سنگھ بھارتی صحافیوں کے ایک گروپ میں اسلام آباد آئے تھے۔ سید مشاہد حسین نے برصغیر کے سینئر صحافیوں اور دانشوروں کو ایک سیمینار کے لئے مدعو کیا تھا۔ میں بھی بطور سامع اس میں شریک ہوا۔ سارے بیرونی مہمان اسلام آباد ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ خشونت سنگھ 7بجے شام اپنے ہوٹل میں محفل سجا لیتے۔ اس وقت وہ تند رست اور چاق و چوبند نظر آتے تھے۔ مجھ سے ملاقات ہوئی تو بڑی شفقت سے ملے اور پنجابی میں کہا ''تے فیر شام نوں ہیپی آورز وچ آ جائو۔‘‘ انہوں نے اپنا کمرہ نمبر بتایا۔ شام کی چائے بھارت سے آئے ہوئے چند دوستوں کے ساتھ ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں چل رہی تھی۔ 7بجے میں نے اٹھنا چاہا تو کلدیپ نیئر نے پوچھا''کیوں بھاگ رہے ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا ''خشونت سنگھ جی نے بلا رکھا ہے۔ شام اچھی گزرے گی۔‘‘ 
''پہلاں توں کدی بیٹھا ایں؟‘‘ کلدیب نیئر نے پوچھا۔
''نہیں پہلی ملاقات ہے۔‘‘
''یہ تجربہ نہ ہی کرو تو بہتر ہے۔‘‘
''کیوں؟سردار جی! شام کو سکھ ہو جاتے ہیں؟‘‘
''سکھ تو وہ ہر وقت ہی رہتے ہیں۔ مہمان ہاتھ لگ جائے تو پہلے اس کے ساتھ بیٹھ کر خوب چڑھاتے ہیں اور پھر لڑائی ڈال دیتے ہیں۔ وہ بڑا مشکل وقت ہوتا ہے۔ ‘‘
کلدیپ نے ایسا ڈرایا کہ میں نے شام ‘اسلام آباد کے دوستوں کے ساتھ گزاری‘ خشونت سنگھ کی طرف نہیں گیا۔ اگلے روز ان کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے والے ایک ساتھی سے ملاقات ہوئی۔ میں نے گزشتہ رات کا احوال پوچھا‘ تو کہانی کم و بیش وہی تھی‘ جس کا انتباہ کلدیپ نیئر نے کر دیا تھا۔ خشونت سنگھ ایک بھرپور شخصیت کے مالک تھے۔ خوشاب کے ایک گائوں ہڈالی میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان ٹھیکیداری کرتا تھا۔ وہ اپنے علاقے کے متمول خاندانوں میں تھے۔ آزادی سے پہلے ان کے خاندان کا کاروبار دہلی تک پھیل چکا تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا‘ جہاں وہ تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئے۔ برطانیہ گئے‘ تو وہاں کی یونیورسٹیوں سے قانون کی ڈگری لے کر لاہور میں پریکٹس شروع کی۔1947ء میں دیگر ہندوئوں سکھوں کی طرح ترک وطن کر گئے۔ دہلی میں پہلے ہی سے ان کا گھر موجود تھا‘ لیکن نہ تو وکالت کا پیشہ ان کی تسلی کر سکا اور نہ ہی وہ کاروبار کی طرف گئے۔ وزارت خارجہ میں ملازمت کی‘ تو سفارتکار کی حیثیت سے پہلے کینیڈا اور پھر برطانیہ اور آئرلینڈ میں افسر اطلاعات اور پریس اتاشی کے طور پر بھارتی حکومت کی نمائندگی کرتے رہے۔ ڈپلومیسی ان کے مزاج میں ہی نہیں تھی۔ سفارتکاری چھوڑ کر آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے ۔ سرکاری ملازمت کے دوران انہوں نے منصوبہ بندی کے جریدے ''یوجنا‘‘ کی ادارت کے ساتھ صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔مختلف اخباروں میں کالم لکھنے لگے۔ ''السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا‘‘ کے ایڈیٹر بنے۔ ان کے دور ادارت میں اس جریدے نے معیار اور سرکولیشن کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ اس کے بعد ''ہندوستان ٹائمز‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ ادب میں وہ اپنے ناول ''ٹرین ٹو پاکستان‘‘ کی اشاعت کے ساتھ معروف ہوئے اور پھر ملازمتوں کا سلسلہ چھوڑ کرآزاد کالم نویس بنے اور ساتھ ہی کالم لکھنا شروع کیا‘ جو اتنا مقبول ہوا کہ بھارت کے متعدد اخبارات نے اس کالم کے حقوق اشاعت حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ ان پیشکشوں کی وجہ سے وہ سنڈیکیٹڈ کالم نویس بن گئے اور بھارت کے 100 کے لگ بھگ اخبارات و جرائد میں بیک وقت ان کا کالم شائع ہونے لگا۔ اپنے کالم میں وہ اسٹیبلشمنٹ کی اچھی طرح خبر لیا کرتے۔ خاندانی پس منظر کی وجہ سے بھارت کے حکمران طبقوں کے ساتھ ان کا پہلے سے میل جول تھا۔ 60ء اور 70ء کے عشروں میں وہ مسز اندراگاندھی کے ساتھیوں میں شامل رہے اور یہ تعلق 80ء کے عشرے میں پھر بحال ہو گیا۔مسز گاندھی کی کچن کیبنٹ کے اراکین میں انہیں خوشامدی کہا جانے لگا۔لیکن 1984ء جب مسز گاندھی نے دربار صاحب امرتسر پر ٹینک چڑھائے‘ تو خشونت سنگھ نے سرکاری ایوارڈ واپس کر دیا۔ بعد میں مسز گاندھی کی بہو سونیا گاندھی نے انہیں زیادہ بڑا ایوارڈ دیا۔خشونت سنگھ ‘خالصتان کی تحریک کے مخالف رہے۔1980ء سے 1986ء تک وہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کے ممبر رہے۔ اس دوران وہ پارٹی بازی سے بلند ہو کر‘ ایک مدبر کی حیثیت سے معرو ف ہوئے۔وہ اپنے آپ کو ''بھارت کی سرزمین پر رہنے والا آخری پاکستانی‘‘ کہا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک سو کے قریب ناول لکھے۔ ان کے ابتدائی ناولوں میں سیکس پر زیادہ زور ہوتا۔ ان پر فحش نگاری کے الزامات لگائے گئے‘ لیکن وہ خود کہتے تھے کہ میں منافقت اور دوغلے پن پر یقین نہیں رکھتا۔ سیکس زندگی کی ٹھوس حقیقت ہے‘ جو اسے تسلیم نہیں کرتا‘ وہ پورا انسان ہی نہیں۔ وہ خود تحریر اور گفتگو ‘دونوں میں زیادہ ہی ''انسان‘‘ بن جاتے تھے۔ دوسری طرف یہی فحش نگار جب تاریخ کی طرف متوجہ ہوئے‘ تو انہوں نے سکھوں کی تاریخ پر ایسی مستند کتاب لکھی‘ جسے آج تک سب سے معیاری تصنیف مانا جاتا ہے۔ ان کی یہ کتاب متعدد کالجوں اور یونیورسٹیوںمیں پڑھائی جاتی ہے۔ وہ عام بھارتیوں کی طرح پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف تعصب نہیں رکھتے تھے‘ جس کی وجہ سے ہندوقوم پرست ان کے خلاف رہتے۔ وہ گورمکھی کے ساتھ ساتھ اردو لکھنا اور پڑھنا بھی جانتے تھے۔ انگریزی ادب میں تو انہیں امتیازی مقام حاصل ہوا۔ ان کا آخری ناول 2010ء ''دی سن سیٹ کلب‘‘ (The Sunset Club)ہے۔ اپنی آٹوبائیوگرافی ''سچائی‘ محبت اور ذرا سی ریاکاری‘‘ (Truth,Love and Little Malice)کے عنوان سے لکھی۔اس کتاب پر انہوں نے زندگی کے حقائق کو کھلی آنکھ اور کھلے دل سے دیکھا اور بیان کر دیا۔ وہ فیض صاحب کے گہرے دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ اردو شاعری میں ان کی گہری دلچسپی تھی اور اردو ادب کے ذوق کی جھلکیاں ان کی انگریزی تحریروں میں بھی جھلکتی ہیں۔ ظرافت تو انہیں ورثے میں ملی تھی۔ ان کے انگریزی ہفتہ وار کالم کا عنوان ہی چونکا دینے والا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے ''بخشا کسی کو نہیں جائے گا۔‘‘بہت مخلص ‘ انسان دوست اور جلدی کھل جانے والے آدمی تھے۔ ان کی لحاظ داری پر مصنفہ سعدیہ دہلوی نے لکھا ''اگر خشونت سنگھ عورت ہوتے‘ تو ہمیشہ امید سے ہی رہتے۔ کیونکہ انہیں کسی کام کے لئے منع کرنا نہیں آتا تھا۔ اردو ادب اور شاعری کا انہیں بے پناہ شوق تھا‘ جس کی جھلک ان کے مضامین میں خوب نظر آتی تھی اور ان کی ظرافت شناسی بے مثال تھی‘ جس کا وہ اپنے کالم میں بھرپور استعمال کرتے۔‘‘ موت کا ذکر کرتے ہوئے خشونت سنگھ نے ایک بار لکھا تھا ''ہمارے گھروں میں موت کا شاذونادر ہی ذکر کیا جاتا ہے۔ نہ معلوم کیوں؟ جبکہ ہم سب کو معلوم ہے کہ موت آنی ہی ہے۔ خدا پر شک ہو تو ہو‘ موت میں کوئی شک نہیں۔ 95سال کی عمر میں اکثر موت کے بارے میں سوچتا ہوں‘ لیکن اتنا نہیں کہ نیند اڑ جائے۔ جو لوگ گزرچکے ہیں ان کے بارے میں سوچتا ہوں کہ وہ کہاں ہوں گے؟ مجھے اس کا جواب نہیں معلوم کہ مرنے کے بعد آپ کہاں جاتے ہیں؟ پھر کیا ہوتا ہے...؟ بس امید کرتا ہوں کہ جب موت آئے تو تیزی سے آئے۔ زیادہ تکلیف نہ ہو‘ جیسے بس آپ سوتے ہوئے اس دنیا سے چلے جائیں۔‘‘سہیل حلیم نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام میں اس تحریر کے حوالے سے خشونت سنگھ کی موت پر لکھا ''خشونت سنگھ کو اپنے سوالوں کا جواب ملے گا یا نہیں؟ یہ تو معلوم نہیں۔ لیکن موت انہیں ویسی ہی نصیب ہوئی‘ جیسی وہ چاہتے تھے۔‘‘ خدا نے انہیں جو کچھ دیا‘ خوب دیا۔ محبت کرنے والے قارئین‘ بے تکلف دوست‘ ان کے مزاج کے مطابق سیکس پر آزادانہ گفتگو کرنے والے بچے۔ عام لوگ اپنے دوستوں سے ایسی کھلی گفتگو نہیں کرتے ہوں گے‘ جیسے خشونت سنگھ اپنی پوتی سے کر لیا کرتے تھے۔ زندگی نہایت آسودہ گزری۔ کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ عمر بھی 99سال کی ملی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں