"NNC" (space) message & send to 7575

سڑی ہوئی سبزی پھینک دیں

امکان ہے کہ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا معاملہ جلد ہی نمٹا دیا جائے گا۔ خصوصی عدالت کی یہ رائے سامنے آ چکی ہے کہ پرویز مشرف مقدمے میں فریق بننے کے بعد‘ اب آزاد ہیں‘ ان کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں۔ ایسی صورت میں پرویز مشرف کے پاس اپنا معاملہ عدالت میں لے جانے کا کوئی جواز نہیں تھا لیکن ای سی ایل میں ان کا نام ہونے کی وجہ سے‘ وہ بیرون ملک نہیں جا سکتے تھے۔ ان کے پاس وزارت داخلہ کی طرف سے کوئی ایسی تحریر بھی نہیں تھی‘ جسے بنیاد بنا کر وہ عدالت کی طرف رجوع کر سکیں۔ غالباً یہی ضرورت پوری کرنے کے لئے وزارت داخلہ سے اپیل کی گئی کہ وہ ای سی ایل سے پرویز مشرف کا نام نکال دے۔ وزارت داخلہ نے اس کے جواب میں یہ اپیل مسترد کرنے کی‘ تحریری اطلاع دے دی۔ اب پرویز مشرف وزارت داخلہ کے فیصلے کے خلاف‘ عدالت میں اپیل کر سکتے ہیں۔ یہ اپیل ہائی کورٹ میں بھی ہو سکتی تھی لیکن سنا ہے پرویز مشرف کے قانونی مددگار‘ یہ اپیل لے کر براہ راست سپریم کورٹ میں جائیں گے۔ اس سے ان کا وقت بچ جائے گا۔ ورنہ یہ امکان موجود تھا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کی استدعا ہائی کورٹ سے مسترد ہو جاتی تو پھر اپیل کے لئے سپریم کورٹ کے پاس جانا پڑتا اور اس طرح دو چار دن کی تاخیر ہو سکتی تھی۔ براہ راست سپریم کورٹ سے اگر مطلوبہ حکم جاری ہو جاتا ہے تو پرویز مشرف بلاتاخیر امارات کے لئے روانہ ہو سکتے ہیں۔
اطلاعات یہ ہیں کہ اب وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی رفقا بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پرویز مشرف کے کیس میں کافی چخ چخ ہو چکی ہے۔ اب اس معاملے کو نمٹا دینا ہی بہتر ہے۔ ان کے پا س بڑے اہم اور فوری توجہ کے طالب کے کام پڑے ہیں۔ مشرف کے کیس میں ہر روز کوئی نہ کوئی نکتہ یا عذر پیدا کر لیا جاتا ہے‘ جس کے لئے یقینی طور پر وزیراعظم سے براہ راست ہدایت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ اس سے ان کا انتہائی قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔ جہاں تک سبق یا عبرت دلانے کا تعلق ہے‘ اس سلسلے میں کافی کچھ ہو چکا ہے۔ ایک ایسا ڈکٹیٹر‘ جس نے حاکم مطلق بن کر ملک پر دس سال تک حکومت کی ہو۔ سیاہ و سفید کا مالک رہا ہو اور تمام ریاستی ادارے اس کے اشارہ ابرو پر چلتے رہے ہوں۔ اس نے بے بسی اور مجبوری کی حالت میں کافی وقت گزار لیا ہے۔ کہنے کو پرویز مشرف قید نہیں رہے لیکن جیسی زندگی انہیں گزارنا پڑی‘ وہ قید سے بدتر تھی۔ ملاقاتوں کے لئے وہ دوسروں کے محتاج تھے‘ روزمرہ کی ضروریات کے لئے انہیں دوسروں سے پوچھنا پڑتا تھا اور نقل و حرکت کرتے وقت‘ وہ چاروں طرف سے مسلح پہروں میں رہتے تھے۔ کسی بھی جگہ پر وہ اپنی من مانی نہیں کر سکے۔ ہر چند انہیں بااثر بیرونی دوستوں کی مدد میسر رہی۔ وزیر اعظم کو بہت سی سفارشیں مسترد کرنا پڑیں۔ جب ملکوں کی برادری میں اس طرح کی فرمائشیں پوری کرنے سے انکار ہوتا رہے تو یہ بھی اچھی بات نہیں ہوتی۔ ایک شخص کی قید و رہائی کا سوال‘ اتنا اہم نہیں ہوتا کہ ملکوں کے سربراہوں کی فرمائشیں سن کر رد کرنا پڑیں۔ اس کا رد عمل زیادہ نہیں تو کم‘ پیدا ضرور ہوتا ہے جبکہ پاکستان کے لئے ایک فرد اتنا اہم نہیں‘ جتنے اہم قومی مفادات ہوتے ہیں۔ دوستوں کی فرمائشیں مسترد کر کے بااثر شخصیات کے ذہنوں میں جو ملال آتا ہے‘ اس کا کچھ نہ کچھ اثر‘ باہمی احترام کے جذبات پر ضرور پڑتا ہے۔ وزیر اعظم یقینی طور پر اس صورت حال کو جلد از جلد ختم کرنا چاہتے ہوں گے۔ سرکاری طور پر خواہ کتنا ہی انکار کیا جائے مگر حقیقت یہی ہے کہ پرویز مشرف کی جان بخشی کے لئے ہمارے بعض بیرونی دوستوں نے بر سبیل تذکرہ اور بعض حالتوں میں خصوصی طور سے‘ پرویز مشرف کو معاف کر دینے کے سوال پر کچھ نہ کچھ کہا ضرور ہے۔
ملک کے اندر صورت حال مختلف رہی۔ نواز شریف ہمارے ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ انہیں انتخابات میں دو تہائی اکثریت دے کر عوام نے وزیر اعظم بنایا تھا۔ پرویز مشرف نے جس تکبر اور بداخلاقی کے ساتھ ملک کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور وزیر اعظم کو ان کی سرکاری رہائش گاہ سے گرفتار کر کے کال کوٹھڑیو ں میں رکھا‘ جہاں پر سورج کی ایک کرن تک اندر نہیں آ سکتی تھی‘ پھر انہیں اٹک کے قلعے کی عقوبت گاہ میں قید تنہائی میں ڈالا گیا۔ جس کوٹھڑی میں وہ بند تھے وہاں سانپ اور بچھو نکلتے رہے جو عین ممکن ہے کہ خود ملازمین نے چھوڑے ہوں۔ جب انہیں کراچی میں عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لئے لے جایا گیا‘ تو ہتھکڑی لگا کر جہاز کی سیٹ سے باندھا گیا۔ یہ نواز شریف کی نہیں پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی توہین تھی‘ جن کے وہ منتخب اور پسندیدہ لیڈر تھے۔ ایسا انسانیت سوز سلوک کوئی مہذب انسان نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد جب عالمی طاقتوں اور مسلمان حکمرانوں کی طرف سے پرویز مشرف پر شدید دبائو آیا کہ وہ نواز شریف کو رہا کریں تو بھی رہائی کے لئے کڑی شرائط پیش کی گئیں۔ جن میں سے ایک یہ تھی کہ وہ دس برس تک وطن واپس نہیں آئیں گے‘ بیرون ملک رہ کر‘ وہ کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے حد یہ کہ سیاسی بیانات بھی جاری نہیں کریں گے۔ گویا اس آزادی میں بھی قید کی پابندی برقرار رکھی گئی۔ نواز شریف کو جلاوطنی میں رہ کر‘ یہ قید بھگتنا پڑی۔ جب بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو نواز شریف بھی اسلام آباد پہنچ گئے‘ انہیں ایئرپورٹ پر ہی نظر بند رکھ کر واپس سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جہاز میں بھیجنے اور بٹھانے کے دوران بھی‘ ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک ہوتا رہا۔ کوئی بھی بے گناہ انسان اتنی طویل مدت تک جلاوطنی‘ اسیری اور زبان بندی کی حالت میں گزارنے پر مجبور رہا ہو تو اس کے غم و غصہ کی حالت کیا ہو گی؟ نواز شریف نے پھر بھی فراخ دلی کا ثبوت دیا اور پاکستان میں فاتحانہ واپسی کے بعد اعلان کر دیا کہ انہوں نے پرویز مشرف کو معاف کر دیا ہے۔
اہل پاکستان کو اس درد بھری کہانی کے ایک ایک لفظ کا علم ہے۔ آمریت کے ظلم و جبر اور انتقامی کارروائیوں سے زیادہ رنج اور تکلیف یقیناً عوام کے لیڈر کو اٹھانا پڑے لیکن عوام کو بھی اپنے حصے کے دکھوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر نواز شریف کے دل میں رنج ہے تو عوام کا غم و غصہ بھی کم نہیں۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی منتخب حکومت‘ اس وقت انتہائی نازک صورت حال کا سامنا کر رہی ہے۔ پاکستان کو چاروں طرف سے چیلنجز درپیش ہیں اور وزیر اعظم کے لئے ضروری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت قومی مسائل کے حل اور عوام کی تکلیفیں دور کرنے میں صرف کریں۔ پرویز مشرف کے ساتھ جتنا کچھ ہو گیا ہے‘ وہ عبرت کے لئے کافی ہے۔ کسی بھی آمر کو پہلی مرتبہ قانون کے سامنے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا‘ اس پر مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ طویل عرصے تک اسے قیدیوں جیسی زندگی گزارنا پڑی۔ عدالتوں میں پیش ہونا پڑا۔ مجبوری اور بے چارگی کے دن بھی اسی طرح دیکھنا پڑے‘ جیسے نواز شریف نے گزارے۔ ایک بار یہ نظیر قائم ہو گئی۔ آئندہ کوئی طالع آزما پاکستان کے آئین اور جمہوری اداروں پر حملہ کرے گا‘ تو وہ اپنے جرم کی سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ ابھی تک آمر اس لئے آسانی سے آتے رہے کہ ان کے کسی پیش رو کو سبق نہیں دیا گیا تھا۔ پرویز مشرف پہلا آمر ہے‘ جسے قانون نے اس کے جرم پر گرفت میں لیا۔ یہ روایت اب آگے چلے گی اور امید ہے کہ پاکستان میں آئندہ آمروں کی مہم جوئی کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ اگر خدانخواستہ کسی نے یہ جرات کی تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جب بھی اس کے زوال کا وقت آئے گا‘ اسے معافی نہیں ملے گی۔ یقیناً اس کی سزا پرویز مشرف سے زیادہ کڑی ہو گی۔ پرویز مشرف کو قانون کی گرفت میں لینے کا مقصد بڑی حد تک پورا ہو گیا ہے۔ اب پرویز مشرف اپنے آپ کو کتنا ہی بڑا لیڈر سمجھتا رہے۔ عوام‘ اس کی اصل حیثیت بتا چکے ہیں۔ حقیقت میں اب وہ محض‘ ایک سڑی ہوئی سبزی ہے‘ اسے اٹھا کر باہر پھینک دینا ہی بہتر ہو گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں