آج کے بعد افغانستان ایک بے یقینی کی صورتحال سے نکل کے‘ بے یقینی کی دوسری صورتحال میں داخل ہو جائے گا۔ ملاعمر کی حکومت ختم ہونے کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی تھی اور آج تک برقرار ہے‘ اس میں طالبان اور ان کے مخالفین کے درمیان محاذ آرائی جاری رہی۔ طالبان مخالف عناصر میں مقامی تاجک‘ ازبک‘ ہزارہ اور چند دوسرے قبیلے شامل تھے اور ان کے بیرونی مددگار قریباً 40 ملکوں کی حکومتیں اور فوجی نفری تھی۔ ایک طرف دولت‘ جدید ہتھیاروں اور مہارتوں کی بہتات تھی اور دوسری طرف بے سروسامانی‘ عزم و ہمت اور جانفروشی کے جذبے۔ یہ درست ہے کہ اتحادی افواج نے‘ مقامی لوگوں کی مدد سے بڑے شہروں پر اپنا قبضہ قائم کر لیا تھا‘ لیکن پسماندہ قبائلی علاقوں پر طالبان نے قبضہ جما رکھا تھا۔ دونوں برسرپیکار طاقتوں نے ایک عجیب طرح کی انڈرسٹینڈنگ قائم کر لی تھی۔ طالبان نے مقامی سرداروں اور قبیلوں سے تاوان کی وصولی شروع کر دی اور اس کے ساتھ ہی افیون اور ہیروئن کے تاجروں سے بھتہ لینے کا نظام بنا لیا‘ جس سے ان کی مالیاتی ضرورتیں پوری ہونے لگیں۔ اتحادی اور ان کے مقامی مددگاروں نے اس صورتحال پر آنکھیں بند کر لیں اور ان کے ٹھکانوں پر حملے بھی روک دیے۔ اس کے بدلے میں طالبان نے دہشت گردی کے بڑے واقعات سے گریز کیا؛ البتہ حسب ضرورت جہاں انہیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو جھٹکا لگانا مطلوب ہوتا‘ وہ دہشت گردی کی واردات کر گزرتے۔ یہ ایک ایسی ''بندوبستی‘‘ جنگ تھی‘ جو صرف افغانستان ہی میں لڑی جا سکتی ہے۔
غیرمستحکم امن کی حالت میں‘ اتحادیوں نے مقامی مددگاروں کے تعاون سے نہ صرف ریاستی مشینری قائم اور منظم کر دی بلکہ ایک بڑی تربیت یافتہ سکیورٹی فورس کھڑی کر کے‘ مقامی حکمرانوں کو دفاعی صلاحیت بھی مہیا کر دی۔ ہر چند طالبان تعداد اور تربیت میں پہلے سے بہتر پوزیشن میں ہیں لیکن حکومت بھی اب اتنی کمزور نہیں کہ اپنے آپ کو برقرار نہ رکھ سکے۔ میں اسے مقامی حکمرانوں کا اعتماد سمجھتا ہوں کہ امریکیوں نے انخلا سے پہلے ‘دوطرفہ دفاعی معاہدے کی جو تجویز پیش کی تھی‘ کرزئی نے اسے مسترد کر دیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حامد کرزئی‘ امریکہ کا اپنا لگایا ہوا پودا تھا‘ جو ابتدائی برسوں میں امریکی تحفظ کے بغیر ایک دن بھی نہیں گزار سکتا تھا مگر آج وہ اپنے آپ کو اتنا مضبوط سمجھتا ہے کہ اپنے ہی محسن امریکہ کو آنکھیں دکھا سکے۔ انتخابات کے بعد جو لیڈر اقتدار میں آنے کی سوچ رہے ہیں‘ ان سب نے مجوزہ معاہدے کو قبول کرنے کا اعلان کر رکھا ہے‘ اس لئے امریکہ کو کرزئی کے انکار سے کوئی تشویش نہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ انتخابی نتائج آنے کے بعد جو لوگ بھی حکومت میں آئیں گے‘ وہ دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے پر پہلے ہی رضامندی کا اعلان کر چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں طاقتور امیدوار حامد کرزئی کے ماتحت وزیر رہ چکے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ‘ جو شمالی اتحاد کے سرکردہ رکن رہے‘ احمد شاہ مسعود کے دست راست تھے اور ان کی موت کے بعد شمالی اتحاد کی قیادت وہی کرتے آ رہے ہیں۔ دوسرے امیدوار اشرف غنی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ افغانستان میں غالباً وہ ماہر ترین معیشت دان سمجھے جاتے ہیں۔ ایک موقع پر اشرف غنی‘ عبدالرشید دوستم کو اپنا ساتھی امیدوار بنانا چاہتے تھے‘ لیکن ان کے مجرمانہ پس منظر کی وجہ سے گریزاں ہو گئے۔ تیسرے مضبوط امیدوار زلمے رسول ہیں۔ حامد کرزئی بظاہر انتخابات میں خود کو غیرجانبدار ظاہر کرتے ہیں‘ لیکن انہیں زلمے رسول کا حمایتی سمجھا جاتا ہے۔ اس تصور کو مزید تقویت اس وقت ملی‘ جب حامد کرزئی نے اپنے بھائی کو انتخابی میدان سے باہر کر دیا اور درپردہ زلمے رسول کی حمایت شروع کر دی۔ افغانستان کے بارے میں اس ملک کی سیاست کا بڑے سے بڑا ماہر بھی کوئی بات یقین سے نہیںکہہ سکتا۔ ہر چند یہ افغانستان کے تیسرے عام انتخابات ہیں لیکن نتائج وہاں بھی پاکستانی سٹائل کے نکلتے رہے۔ ہمارے ہاں بھی دھاندلی سب کے ساتھ ہوتی ہے مگر ایک لیڈر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور ہارنے والے جمہوریت کے استحکام کی خاطر‘ دھاندلی کو قبول کر لیتے ہیں۔ عام اندازہ یہی ہے کہ افغانستان کے انتخابات میں بھی پاکستان کی طرح کھلی دھاندلی ہو گی اور پہلے رائونڈ میں کوئی امیدوار بھی فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کر سکے گا۔ یاد رہے‘ افغانستان میں اگر کوئی امیدوار 51 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کرتا‘ تو دوسرا رائونڈ کرایا جاتا ہے۔ جس میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار مقابلہ کرتے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ چونکہ غیرپختون ووٹوں پر انحصار کرتے ہیں‘ ان کے حامی اقلیت میں ہیں‘ اس لئے اندازہ ہے کہ وہ پہلے رائونڈ میں مقابلے سے باہر ہو جائیں گے۔ انہوں نے اکثریت کو یقینی بنانے کے لئے‘ ہزارہ قبیلے کی ایک بااثر شخصیت کو نائب صدارت کے لئے اپنا امیدوار بنا رکھا ہے۔ لیکن ازبکوں اور تاجکوں کے ووٹ تقسیم ہونے کے امکانات ہیں۔ دوسری طرف دونوں پختون امیدواروں میں پختون اکثریت کے ووٹ تقسیم ہو جائیں گے۔ اس تقسیم در تقسیم کا نتیجہ یہ دکھائی دے رہا ہے کہ کوئی بھی امیدوار پہلے رائونڈ میں فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کر پائے گا۔ اگر انتخابی عمل دوسرے رائونڈ کی طرف جاتا ہے‘ تو انتخابی عمل کا بندوبست کرنے والے محکمے اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ زیادہ عرصے تک کنٹرول برقرار رکھ سکیں۔ اس بار طالبان کی حکمت عملی یہ نظر آ رہی ہے کہ وہ سیاسی طاقتوں کو نشانہ بنانے کی بجائے‘ انتظامیہ کی کمر توڑیں گے۔ اس پالیسی کا آغاز وہ کابل میں الیکشن کمیشن کے دفتر پر حملے کی صورت میں کر چکے ہیں۔ انتخابی مشینری جیسے جیسے کابل سے دور ہوتی جائے گی‘ طالبان کا آسان ہدف بنے گی۔ گزشتہ انتخابات میں قندھار کے اندر طالبان نے یہی پالیسی اختیار کر کے‘ انتخابی مشینری اور ووٹرز‘ دونوں کو خوفزدہ کیا تھا۔ جس کی وجہ سے صرف 5 فیصد ووٹر پولنگ سٹیشنوں پر آ سکے۔ اس کامیاب تجربے کو آج سے شروع ہونے والے
الیکشن میں زیادہ بڑے پیمانے پر دہرایا جائے گا۔ ووٹنگ ختم ہونے کے بعد گنتی کا عمل 2 ہفتے میں مکمل ہو گا۔ کیا انتخابی مشینری ان دو ہفتوں کے دوران طالبان کی طرف سے لگنے والی ضربیں برداشت کر لے گی؟ طالبان نے ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی بیرونی مبصروں اور میڈیا ٹیموں کو خوفزدہ کر کے‘ افغانستان سے نکال دیا ہے۔ امریکی اور اتحادی مبصرین اور ماہرین کی اکثریت بھی افغانستان چھوڑ کے جا چکی ہے۔ یہ ساری تیاریاں‘ ووٹوں کی گنتی کے دوران انتخابی مشینری کو تہس نہس کرنے کے لئے کی گئی ہیں۔ ان کا ٹارگٹ یہ ہے کہ انتخابی نتائج کو جس قدر ممکن ہو متنازعہ بنایا جائے۔ فریقین کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا جائے۔ جس قدر بدنظمی اور بدانتظامی بڑھے گی‘ طالبان کے لئے حالات سازگار ہوتے جائیں گے۔ طالبان کا اندازہ یہ ہے کہ اگر انتخابی نتائج تمام فریقوں نے قبول کر لئے‘ تو ریاستی طاقت موجود رہے گی اور سلامتی کے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد‘ امریکی فوجیں بھی مناسب حد تک موجود ہوں گی اور ان کی مدد سے طالبان کی تخریب کاری کو کنٹرول میں رکھا جا سکے گا‘ لیکن اگر انتخابات میں حصہ لینے والی طاقتوں کو آپس میں لڑا دیا جائے اور اتحادیوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لئے کوئی قانونی حکومت قائم نہ ہو سکے‘ تو یہ صورتحال ان کے حق میں سازگار ہو گی۔ پاکستانی طالبان نے کمال ہوشیاری سے مذاکرات کا دام پھیلا کر‘ جنگ بندی کی آڑ میں پاک فوج کی کارروائیاں رکوا دی ہیں اور اس ایک ماہ کے عرصے میں‘ وہ شمالی وزیرستان سے اپنی محفوظ افرادی قوت کو افغانستان میں بھیج چکے ہیں‘ جو اب تک ملاعمر کی کمان میں اپنی مقررہ پوزیشنیں لے چکے ہوں گے۔ حکومت پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کے عرصے کو ممکنہ حد تک بڑھایا جائے گا۔ طالبان اپنے اس حربے میں کامیاب رہے‘ تو افغانستان کے عدم استحکام کے اثرات ایران‘ چین اور شرق اوسط تک بھی جائیں گے۔ لیکن پہلا نشانہ پاکستان بنے گا۔ یہاں طالبان کی خفیہ طاقت کا ہمیں اندازہ نہیں۔ لیکن جس دن پاکستان کی ریاستی طاقت کو غیرموثر کرنے کا فیصلہ ہوا‘ اچانک طالبان کی حامی مذہبی جماعتوں کے رضاکار میدان میں نکل آئیں گے۔ ہمارے حکمران اس وقت عدم مقبولیت بلکہ عوامی ناپسندیدگی کی انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔ عوام تو کیا؟ ریاستی مشینری بھی ان کا احترام نہیں کرتی۔ مجھے امید کا صرف ایک ہی راستہ دکھائی دے رہا ہے اور وہ ہے افغانوں کی غیرمعمولی صلاحیتیں۔ ان میں یہ حیرت انگیز خوبی پائی جاتی ہے کہ گھمسان کی جنگ لڑتے لڑتے‘ اگر محسوس کر لیں کہ کوئی فریق غالب نہیں آ رہا‘ تو وہ فوراً ہی ہتھیار رکھ کے جرگے میں بیٹھ جاتے ہیں اور باہمی نفرتوں کے باوجود ایک ساتھ رہنے کے طریقے تلاش کر لیتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ملا عمر نے امریکہ سے بات چیت شروع کر دی تھی۔ لیکن حامد کرزئی نے خفیہ رابطے قائم کر کے‘ انہیںکچھ امیدیں دلا دیں اور انہوں نے امریکہ کے ساتھ رابطے ختم کر دیئے۔ کرزئی کا منتر کیا تھا؟ ''پہلے غیروں کو نکال دیں۔ بعد میں مل بیٹھیں گے۔‘‘ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ افغان انتخابات میں نہ کوئی عالمی اور نہ ہی کوئی علاقائی طاقت‘ کسی بھی فریق کے لئے ہمدردی یا ناپسندیدگی رکھتی ہے۔ سب انتظار میں ہیں کہ دیکھیں کیا برآمد ہوتا ہے؟ امیدیں بھی ہیں۔ خدشے بھی۔