"NNC" (space) message & send to 7575

افپاک؟

Correct?
ّّNot Entirely. 
ہفتہ (5اپریل) کے کالم پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمیدگل صاحب کا ایس ایم ایس بھی ایسا ہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
Good But Not Entirely Accurate Analysis on Afghan Elections.
Regards . 
Gul 
میں نے یہ کبھی سوچا بھی نہیں کہ جو کچھ لکھتا ہوں‘ وہ درست ہو سکتا ہے۔میں سماجی سائنس دان ہوں نہ تاریخ کا ماہر۔ جو کچھ لکھتا ہوں‘ وہ ایک صحافی کی کوشش ہوتی ہے۔ رپورٹنگ میں تو صحیح اعدادوشماراور واقعات لکھے جا سکتے ہیں۔ جہاں تک تجزیئے‘ تبصرے اور اظہاررائے کا تعلق ہے‘ اس میں یقینی اور غیریقینی‘ دونوں چیزیں ہی موجود ہوتی ہیں۔ کبھی ایک کم‘ کبھی ایک زیادہ۔ جنرل(ر) حمید گل‘ افغان امور کے ماہر ہی نہیں‘ انجینئر بھی ہیں اور آج بھی وہاں کی تاریخ جس انداز میں بن رہی ہے‘ اس میں جنرل صاحب کا بھاری حصہ ہے۔ افغانستان کے مستقبل کی ساخت اور تشکیلی عمل‘ اتنا واضح نہیں کہ اسے دیکھ کر میں جنرل صاحب سے کہہ سکوں ''آپ نے یہ افغانستان بنایا ہے؟‘‘ افغانستان کو ایک امتیاز ضرور حاصل ہے کہ وہ کئی نسلی اور لسانی گروپوں کاملک ہوتے ہوئے بھی ‘ سب کا مشترکہ وطن ہے۔ سوویت فوجی قبضے سے لے کر آج تک بارہا کوششیں ہوئیں کہ اس ملک کو شمال و جنوب میں‘ نسلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کر دیا جائے۔ کسی بھی طاقت کو یہ توفیق نہ ہو سکی۔ وہاں کے عوام اور ہر شعبے کے قائدین‘ باہمی طور سے جتنے اختلافات ممکن ہوں‘ کر لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کی حب الوطنی پر شک نہیں کرتے۔ جنگیں لڑناان کا تاریخی ورثہ ہے اور بیشتر اوقات ذریعہ معاش بھی۔ ظاہر شاہ کے زمانے میں‘ افغانستان جدیدبیرونی اثرات سے متعارف ہوا۔ اس کے شہری علاقوں میں جدید طرززندگی کے نمونے مشاہدے میں آنے لگے۔ کابل کی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ وہاں پاکستان سے بھی زیادہ جدیدیت دیکھی اور برداشت کی جاتی تھی۔ اونچے طبقے کی افغان خواتین فیشن ایبل بھی ہو گئی تھیںاور کابل کی بیشتر مارکیٹوں اور سیرگاہوں میں مغربی لباس ‘ جس میں سکرٹ بھی شامل ہے‘ پہنے ہوئے دکھائی دیا کرتیں۔قبائلی کلچر ہونے کے باوجود افغان عوام نے کبھی اس تبدیلی کی مزاحمت نہیں کی۔ وہ ایسے مناظر‘ تعجب اور تحیر سے دیکھتے اور گزر جاتے۔ سوویت قبضے کے بعد بھی‘ کابل کے رہن سہن میں کوئی فرق نہیں آیا۔قیامت ‘ طالبان کے دور میں ٹوٹی۔ یہ طالبان کیا تھے؟ 
یہ مفلوک الحال اور روزگار کے اچھے وسائل سے محروم لوگ تھے‘ جو مذہبی شعبے میں مختلف خدمات انجام دے کر‘ گزراوقات کیا کرتے۔ ان کی حیثیت وہی تھی‘ جو برصغیر کے مولوی کی تھی۔ صاحب حیثیت لوگ ان کی کفالت کرتے اور یہ مذہبی خدمات انجام دیتے۔ جیسے بچوں کو قرآن مجید پڑھا دینا۔ مسجد کی دیکھ بھال کرنا۔ نمازوں کی امامت کرا دینااور شادی و غم کی تقریبات میں جنازہ‘ نکاح اور موقع محل کے مطابق دعائیں پڑھا دینا۔ ان کی قسمت اس وقت جاگی‘ جب سوویت یونین نے افغانستان پر فوج کشی کر دی اور امریکہ ‘ویت نام کا حساب چکانے کے لئے مسلح مزاحمت منظم کرنے لگا۔ ابتدا میں یہ کام پاکستان نے اپنے محدود وسائل کے تحت شروع کیا تھا۔ آئی ایس آئی کا کردار اس وقت زیادہ نہیں تھا۔ ضیاالحق نے خفیہ طور پر امریکیوں کو ترغیب دینا شروع کر دی کہ وہ موقع کا فائدہ اٹھا کر ویت نام کا بدلہ لے سکتے ہیں۔ صدر جمی کارٹر کواس تجویز نے زیادہ متاثر نہیں کیا۔ و ہ پوری طرح جنرل ضیا کے مقصد کو نہیں سمجھ پائے تھے۔ جنرل ضیا ایک سپرپاور سے لڑنے کے نام پر لامحدود اسلحہ اور ڈالرز بٹورنے کے چکر میں تھے جبکہ جمی کارٹر نے 200ملین ڈالرزدینے کی پیش کش کر دی۔ اس سے آگے کچھ کرنے کی پیش کش نہیں کی۔ جس پر جنرل ضیا سٹپٹا گئے اور انہوں نے اس پیش کش کو جمی کارٹر کے کھیتوں کی فصل کی رعایت سے ''مونگ پھلی‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ اس دوران رپبلکن پارٹی کا انتہاپسند گروپ حرکت میں آ گیا۔ انتخابات میں جمی کارٹر کو شکست ہو گئی اور جنرل ضیا کے وارے نیارے ہو گئے۔ امریکہ سے فوراً ہی پیغام آیا کہ ہم سوویت یونین سے حساب چکانے کو تیار ہیں۔ آپ بھرپور لڑائی کی تیاری کریں۔ آپ کے منہ اور کندھے ہم ڈالروں اور اسلحہ سے بھر دیں گے۔
اس شاندار ''پراجیکٹ‘‘ کو دیکھ کر‘ اسے بھرپور طریقے سے ''لانچ‘‘ کرنے کی ذمہ داری آئی ایس آئی کے سپرد کی گئی۔ حسب توقع اسلحہ بھی آنے لگا ۔ ڈالر بھی برسنے لگے اور نفاذ اسلام کا کاروبار بھی چمک اٹھا۔ مدرسوں سے مولوی اور زیرتعلیم نوجوانوں کو جمع کیا جانے لگا۔ مذہب کے کاروبار میں سرکردہ لوگوں کی خدمات مستعار لی گئیں۔ان کا ایک متحدہ محاذ بنایا گیا۔ ان میں سے کسی بھی ایک کو چن کر قیادت کے منصب پر فائز کیا گیا۔ مولویوں کو کسی ایک فرد کی قیادت میں اکٹھے کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان کے مولوی‘ افغانوں سے زیادہ جدید اور ترقی پسند ہیں۔ یہ آج تک انتخابی ضرورت کے سوا کبھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ مساجد اور مدرسے‘ ان کے کاروبار ہیں۔ لیکن انہوں نے کبھی اپنے مفادات قربان کر کے‘ تمام مسلمانوں پر ان کے دروازے نہیں کھولے۔ اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھے ہیں۔ جہاں کوئی مفاد حاصل ہونے کا امکان ہو‘ وہاں اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔ ورنہ پھر وہی تکفیراور تبرّے۔ افغان ملائوں کے برعکس‘ برصغیر کے ملائوں میںاجتماعی حریت پسندی کی تحریک کبھی زور نہیں پکڑ سکی۔ انگریزوں اور ہندوئوں کے فراخ دلانہ عطیات اور مسلمانوں کے چندوں پر ان کی توجہ مرکوزرہی اور اس حالت میںرہ کے مزاحمت کا کلچر پیدا نہیںکیا جا سکتا۔ افغانستان کے ملا‘ اپنے حکمرانوں کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کا طویل ریکارڈ رکھتے ہیں۔ جبکہ برصغیر میں جن چند سرپھروں نے بغاوت کی‘ انہیں جلاوطن ہونا پڑا اور ان کی مذہبی رومانویت کو‘ اس وقت مزید ٹھیس پہنچی‘ جب افغانوں نے اسلامی جذبہ اخوت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے‘ انہیں واپس برطانوی حکومت کے حوالے کر دیا۔ 
ہمارے بہت سے سادہ لوح اور خوش فہم لوگ امیدیںلگائے بیٹھے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے طالبان یکجا ہو کر‘ دونوں ملکوں میں نفاذ اسلام کا معرکہ انجام دے سکیں گے۔ ان لوگوں سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ پہلے پاکستانی اور افغان ملائوں کے کلچر اور تاریخ کا جائزہ لے کر دیکھیں۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دونوں ملکوں کی طالبان تحریکوں کا موازنہ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ افغانستان کے ملا اور طالبان‘ سب کے سب ملا عمر کی قیادت میں متحد ہیں۔ دنیا بھر میں ملائوں کی ایسی کوئی تحریک میرے علم میں نہیں‘ جس نے استعماری قوتوں کے خلاف متحد اور یکجا رہ کر طویل جدوجہد کی ہو۔ کسی نہ کسی مقام پر‘ کوئی نہ کوئی گروہ‘ حکمرانوں کے ساتھ جا ملتا ہے اور تحریک کمزور پڑ جاتی ہے۔ میری مراد عوام کی آزادی اور وسائل میں‘ ان کے حقوق کے حصول کی جدوجہد پر مبنی تحریکیں ہیں۔مگر ایسی تمام تحریکوں کا تجزیہ کر کے دیکھیں‘ تو حتمی نتیجہ ملائوں کے مفادات کے حق میں ہوتا ہے۔ وہ عوام کے مفادات کے لئے کبھی نہیں لڑتے۔ اپنے مفاد کے لئے لڑتے ہیں اور مفاد حاصل ہوتے ہی ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ مجھے یہ واقعہ کبھی نہیں بھولتا کہ تحریک ختم نبوت میں قید ہو کر میں لاہور کی کیمپ جیل میں آیا تو وہاں پورے صوبے کے جید علمائے کرام‘ بی کلاس میں پانچ چھ بیرکوں کے اندر رکھے گئے تھے۔ سب کو مشترکہ مشقتی ملے ہوئے تھے۔ سب کا راشن کچا آتا تھا اور سب کے کھانے اکٹھے پکتے تھے۔پہلے جیل کی طرف سے تیارشدہ کھانا مہیا کیا جاتا تھا۔ ظاہر ہے وہ غیرمعیاری تھا۔ تمام فرقوں اور علاقوں کے علمائے کرام نے ''مشترکہ جدوجہد‘‘ کر کے‘ یہ مطالبہ منوا لیا کہ جیل والے ہمیں کھانے کا سامان اور باورچی مہیا کریں گے۔ مگر جب کھانا اور باورچی مشترکہ کنٹرول میں آئے‘ تو پہلے فرقہ وارانہ بنیاد پر سب نے اپنا اپنا باورچی الگ کر لیا۔ اس کے بعد یہ تقسیم علاقہ وار ہوئی۔ پہلے شیعہ کھانا اور سنی کھاناالگ ہوئے۔ اس کے بعد جھنگ والوں کاکھانا‘ لاہور والوں کا کھانا اور لائل پور والوں کا کھانا الگ الگ ہو گئے اور رمضان میں سحر و افطار کے وقت شمشیر زنی کے انداز میں کڑچھا زنی بھی دیکھنے میں آئی۔ آج بھی آپ کو افغانستان میں طالبان ایک قیادت کے پیچھے متحد اور منظم نظر آئیں گے جبکہ پاکستان میں 40 کے قریب گروپوں میں تقسیم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں افغانستان میں تو کسی نہ کسی وقت منظم اور مربوط تبدیلی کی توقع کرتا ہوں۔ لیکن پاکستان؟ اللہ کی پناہ! نہ سیاسی قیادت ہمیں ایک دستر خوان پر رکھ کر کھا سکتی ہے اور نہ مذہبی قیادت۔یہاں پھر ایک مشاہدہ پیش کروں گا۔ بھٹو صاحب نے مری کے سیسل ہوٹل میں ملک کے تمام جیدعلمائے کرام کو لنچ دیا۔لان میں میزوں پر کھانا لگا ہوا تھا۔جیسے ہی کھانا کھلا‘ مہمان شیروں کی طرح شکار پر جھپٹے اور شیروں کی طرح ہی‘ جو چیز قبضے میں آئی اسے لے کر الگ ہو گئے۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر سارے مہمان الگ الگ ٹولیوں میں گھاس پر بیٹھے مزے مزے شکم پری کر رہے تھے۔ درویشی کا یہ عالم تھا کہ جسے چاول ملے‘ اس نے انہی پر قناعت کر لی۔ جس کے حصے میں سلاد آئی‘ وہ اس پر مطمئن ہو گیا۔ جس کو مرغے کی بوٹیاں ملیں‘ اس نے اپنی پلیٹ میں مینار بنا کر اس کی تسخیرشروع کر دی۔ اوپر جہاں میں نے یہ لکھا ہے کہ وہ ہمیں ایک دسترخوان پر بھی نہیں کھا سکیں گے‘ تو میرے ذہن میں یہی واقعہ تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں