معاملہ صرف پرویزمشرف کا نہیں۔ بات ان 18علاقوں کی ہے‘ جنہیں پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے ایک ایک انچ زمین اپنے خون سے رنگین کر کے‘ دہشت گردوں کے پنجے سے آزادکرایا ہے۔ اب طالبان کے نمائندے اور حکومتی مشیر کوشش کر رہے ہیں کہ ان علاقوں کے تھوڑے حصے سے‘ پاک فوج کوباہر کر کے‘ آزاد علاقہ بنا دیا جائے تاکہ طالبان مذاکرات کے لئے قدم رنجہ فرمائیں۔ بات ان قیدیوں کی ہے‘ جنہیں دہشت گردی کے جرائم میں پکڑا گیا۔ اب مذاکرات کی خاطر حکومت پاکستان ‘ان میں سے کچھ کو آزاد کر چکی ہے اور مزید کرنا چاہتی ہے۔ فوج کے وقار پر نہ سیاستدانوں کے بیانات سے آنچ آتی ہے۔ نہ وزیروں کے''روندی یاراں نوں‘ لے لے ناں بھراواں دا‘‘ کی طرز پر‘ جاری ہونے والے بیانات سے۔ فوج کے وقار کی طرف انگلی تب اٹھتی ہے‘ جب اسے خون بہا کر لئے ہوئے علاقوں سے پیچھے ہٹنے کو کہا جائے‘ وہ علاقے‘ جن پر‘ دہشت گردوں کو شکست دے کر‘ فوج نے اپنی ریاست کا کنٹرول قائم کیا ‘ ان کی سہولت کے لئے ‘یہ علاقے خالی کر دیئے جائیں۔ جن دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کے لئے فوج نے‘ اپنے جوانوںکا خون بہایا اور مزید جانیں خطرے میں ڈال کر انہیں گرفتار کیا‘ انہیں مفت میں رہا کر کے‘ اپنے خلاف لڑنے کا ایک اور موقع فراہم کرے تاکہ وہ پھر سے ہمارے جوانوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کریں۔ فوج کی سبکی تب ہوتی ہے‘ جب چند حکمران‘ قاتلانہ حملوں کے خوف سے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کریں۔
پارلیمنٹ یقینا جمہوری ملکوں میں مقتدر ہی نہیں‘ مقتدر ترین ادارہ ہوتا ہے۔ یہ عوام کی اجتماعی طاقت کی علامت ہے اور عوام ہی اس کے محافظ ہوتے ہیں۔ لیکن جن ایوانوں میںبیٹھنے والے‘ پنکچروں کے سوراخوں سے نکل کر اندر داخل ہوئے ہوں۔ اصل نمائندوں کے بیلٹ پیپروں میں خوردبرد کے ذریعے‘ ووٹ اپنے کھاتے میں بٹور کے اسمبلیوں کے اندر گھس بیٹھیںاور اقتدار میں آنے کے بعد قومی سرمائے سے کھلواڑ کرنے لگیں۔ روٹی تین گنا مہنگی کر دیں۔ چینی ‘ سبزیوں اور دودھ دہی کے بھائو دگنے کر دیں۔ گیس بند کر کے ‘ چولہے بجھا دیں۔ لوڈشیڈنگ سے گھروں کو اندھیروں میں ڈبو کے بجلی کے بل کے نام پر‘ اندھیروں کی قیمت وصول کریں۔ عوام جان و مال کے تحفظ کے لئے اپیل کریں‘ تو انہیں جواب دیا جائے کہ ٹیکس ہمیں دو‘ اپنی حفاظت خود کرو۔ اپنے قاتلوں کے ساتھ بات چیت پر اعتراض کریں‘ تو انہیں للکارا جائے کہ ''ہمت ہے‘ تو خود آگے بڑھ کر دہشت گردوں سے لڑ لو۔‘‘ ان حالات میں عوام کا دماغ پھر گیا ہے؟ کہ وہ پارلیمنٹ کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھائیں۔''وہ بوٹی کیوں سینت رکھیں؟ جو اور بڑھائے پیڑ۔‘‘ (وہ بوٹی کس لئے سنبھالیں؟ جو تکلیف میں مزید اضافہ کرے۔) میں بار بار لکھ رہا ہوں کہ منتخب حکمرانوں نے‘ عوام کے حق میں گزشتہ کئی عشروں سے ایسا کام نہیں کیا‘ جس کی وجہ سے لوگ ان کی عزت کریں۔ ملک کا بچہ بچہ چیخ رہا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنا سرمایہ ملک سے باہر رکھا ہوا ہے اور مزید رکھتے جا رہے ہیں۔ کیا باہر کے ملکوں میں پیسہ رکھنے والے کسی ایک سیاستدان نے بھی‘ اپنی صفائی میں عوام کو کچھ بتانے کی کوشش کی؟ کبھی اپنی صفائی میں کچھ کہا؟ کبھی دولت باہر رکھنے کا جواز بتایا؟ کیا قومی دولت کو لوٹنا حکمرانوں کا پیدائشی حق ہے؟ وہ نمائندے‘ جو دوائوں کے پیسے کھا جاتے ہیں۔ وہ نمائندے جو تعلیم کے لئے رکھی گئی رقم ہڑپ کر لیتے ہیں۔ وہ نمائندے‘ جو سکولوں اور ہسپتالوں کی عمارتوں میں گدھے باندھتے ہیں۔ انہیں کس نے یہ سمجھا دیا ہے کہ عوام ان سے پیار کرتے ہیں؟ عوام انہیں باوقار سمجھتے ہیں؟ وہ ان کے وقار کا تحفظ کرنے کے لئے بے تاب ہیں؟
میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا تمام عرصہ ‘فوجی حکمرانوں کی مخالفت کی۔ ایوب خان کو چھوڑ کر ہر فوجی حکمران نے مجھے جیل یاترا کا شرف بخشا۔ جیل میں نہیں ڈالا‘ تو پرائم منسٹر ہائوس کو جیل بنا دیا۔ ضیاالحق نے کیمپ جیل کی ایک تاریک کوٹھڑی کے اکھڑے ہوئے فرش پر‘ مجھے نوکیلے کنکروں اور ٹوٹے ہوئے پلستر کے ٹکڑوں پر 8دن اور 8 راتیں گزارنے پر مجبور کیا۔ دن میں دھوپ نہ دیکھنے دی اور رات کے اندھیرے دور کرنے کے لئے روشنی سے محروم رکھا۔ یہ کڑی سزائیں دینے کے ساتھ ساتھ میرے ذاتی اخبار روزنامہ ''حیات‘‘ کو بند کرنے کے حالات پیدا کر دیئے۔ میںجیل سے باہر آیا تو میرا ادارہ تباہ ہو چکا تھا۔ میں دمے‘ بلڈپریشر اور شوگر کا مریض ہوں۔ مشرف کی قید میں 8 دن تک‘ نہ مجھے بازار سے دوا منگوانے کی اجازت دی اور نہ میرے بھائی اور بیٹے کی طرف سے گیٹ پر پہنچائی گئی دوائیں‘ مجھے اندر پہنچائی گئیں۔مجھے صحافی ہونے کی وجہ سے رہا تو کیا گیا لیکن ایجنسی کے ایک میجر اور اس کے جونیئر کو میری نگرانی پر مامور رکھا گیا۔ لاہور سے باہر جانے کی مجھے اجازت نہیں تھی۔ میرا پاسپورٹ وزارت خارجہ کے پروٹوکول سیکشن میں مقفل کر دیا گیا۔ مزید احتیاط کے لئے میرا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔ میں یہ سب کچھ فوج کی خاطر نہیں کر رہا تھا۔ میری جدوجہد جمہوریت کے لئے تھی۔ میں تو کچھ بھی نہیں‘ جتنے مصائب آزادی کے متوالے ترقی پسندوں‘ وطن پرستوں اور مخلص سیاسی کارکنوں نے‘ برداشت کئے‘ انہیں یاد کر کے بھی کانپ اٹھتا ہوں۔ میں نے ہسپتال کے جالی دار دروازوں کے اندر سے کوڑے کھانے والوں کی دھاڑیں سنی ہیں۔ سلمان تاثیر سے لے کر خالد چوہدری تک سے‘ شاہی قلعے کی کال کوٹھڑیوں میں گزارے گئے شب و روز کی روداد سنی ہے۔میرے دوستوں اور حلقہ احباب میں اکثریت ان لوگوں کی ہے‘ جو عوام کی خاطر قربانیاں پیش کرتے رہے۔ لیکن جمہوریت سے فیض یاب ہونے والوں نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا تک نہیں۔ پیپلزپارٹی کی خاطر کوڑے کھانے والے بھی آج بے یارومددگار ہیں اور محض نوازشریف کی خاطر زنجیروں سے باندھ کر قید خانوں میں ڈالے گئے قیدیوں تک‘ سب قربانیاں دینے والوں کی یہی حالت ہے۔ جس کا یہ خیال ہے کہ بار بار فریب دے کر‘ بار بار قربانیاں مانگنے والے‘ بار بار ووٹ حاصل کر کے‘ دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے میں مصروف لٹیروںکے وقار کو تحفظ دینے کے لئے‘ عوام آج بھی تیار ہیں‘ تو وہ اپنی غلط فہمی دور کر لیں۔ عوام اتنے ستائے ہوئے ‘ دل شکستہ اور زخم خوردہ ہیں کہ طالبان بھی مہذب طرزعمل اختیار کرنے کا یقین دلا دیں‘ تو وہ ان کی حکمرانی قبول کرنے پر تیار ہو جائیں گے۔ فوج تو پھر ان کی اپنی ہے۔ کم از کم فوج ابھی تک دہشت گردوں کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے۔ وہ آج بھی اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر ‘ عوام کے جان و مال کی حفاظت کر رہی ہے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر سیاستدانوں نے مشرف کو نکالنے کے بعد‘ عوام کے زخموں پر مرہم رکھا ہوتا۔ انہیں امید دلائی ہوتی کہ لوٹ مار ختم ہو جائے گی۔ انصاف دینے کے لئے پیسے کی نہیں محض توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ انصاف کے راستے نہیں توپگڈنڈیاں ضرورت کھل جاتیں۔ ظلم کے ہاتھ رک جاتے اور دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کے کھانے کی سہولت میسر آ جاتی‘ تو لوگ یقینا مشرف کو بھول جاتے اور جمہوریت اور پارلیمنٹ کے وقار کے لئے قربانیاں دینے پر بھی آمادہ رہتے۔ مگر اب 10مہینے سے غربت کی دلدل میں مزید دھنسنے‘ ناانصافیوں کے جبڑوں میں مزید کچلے جانے اور بھوک کے ہاتھوں مزید تڑپنے کے بعد‘ یہ امید کرنا کہ عوام کی نظر میں پارلیمنٹ کی کوئی عزت رہ گئی ہے‘ نادانی کے سوا کچھ نہیں۔ بے بسی‘ مہنگائی‘ جبر‘ ظلم اور لوٹ مار کرنے والوں کے شکنجے میں آئے عوام‘ کسی نجات دہندہ کے انتظار میں ہیں۔وہ کسی بھی طرف سے آ جائے‘ عوام اس کا خیرمقدم کریں گے۔ وہ کوئی بھی ہو۔ طالبان ہی کیوں نہ ہوں۔ موجودہ حکمرانوں کی نسبت عوام کو ہر کوئی اچھا لگے گا۔ یہ میرے یا عوام ہی کے جذبات نہیں‘ سیاست کے نام پراندھادھند لوٹ مار کرنے والوں کے اہل خانہ بھی دل ہی دل میں شرمندہ ہوتے ہوں گے اور ہو سکتا ہے ‘ جب تبدیلی کی کوئی لہر نمودار ہوئی‘ وہ خود بھی لپک کر اس پر سوار ہو جائیں اور جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مشرف کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کا فوج سے کوئی تعلق نہیں‘ وہ سابق جنرلوں کے بیانات پڑھ لیں اور اللہ توفیق دے تو ایس ایس جی کے ہیڈکوارٹر میں‘ چیف آف آرمی سٹاف سے کئے گئے‘ سوال کی تفصیل معلوم کر لیں۔ جس کے جواب میں جنرل راحیل شریف نے افسروں اور جوانوں کے جذبات کی نہ صرف ترجمانی کی بلکہ ان کے ساتھ مل کر نعرے بھی لگائے۔