کل علی الصباح‘ اسلام آباد کی فروٹ منڈی میں طاقتور بموں کے دھماکے ہوئے۔ 25 سے زیادہ مزدوروں‘ محنت کشوں اور خوانچہ فروشوں کے جسموں کے پرخچے اڑ گئے اور جن غریب خاندانوں کی کفالت کرنے والے دنیا میں نہیں رہے‘ پاکستان کے وزیرداخلہ نے انہیںنوید سنائی کہ ''بچوں کو یتیم کرنے والے اللہ کے غضب سے نہیں بچ سکیں گے‘‘ اورپاکستان کے متوقع نائب وزیرداخلہ شاہد اللہ شاہد نے یتیموںاور بیوائوں کے علم میں مزید اضافہ کرتے ہوئے بتایا ''بے گناہوں کی جان لینا شرعاً حرام ہے۔‘‘ جن کے پاس قانون کی طاقت ہے‘ انہوں نے انہیں اسلامی عقیدے کے مطابق اللہ کا فرمان سنایا اور جن کا مشغلہ بے گناہوں کے پرخچے اڑانا ہے‘ انہوں نے بھی اپنے عقیدے کا اعلان کیا ''بے گناہوں کی جان لینا شرعاً حرام ہے۔‘‘یہ دونوںتو بری الذمہ ہوئے۔ ''دنیا‘‘ اخبار کی خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا‘سکیورٹی ایجنسیوں کی رپورٹ ہے کہ ''دہشت گردی سے لاتعلقی کا اظہار‘ حکمت عملی کے تحت کیا جاتا ہے‘‘ اور ساتھ ہی اطلاع دی کہ'' را‘ بلیک واٹر‘ سی آئی اے ‘ موساد اور دیگر دشمن ایجنسیاں دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔‘‘ یتیموں اور بیوائوں کو اللہ کا حکم بھی سنا دیا گیا۔ شرعی پوزیشن بھی بتا دی گئی اور یہ نشاندہی بھی کر دی گئی کہ پاکستان میں دھماکے اور دہشت گردی کرنے والے کون ہیں؟ یہ سب کچھ ایک دن میں ہو گیا۔ دنیا میں شائد ہی کہیںحکومتی عہدیدار‘ عوام کے خیرخواہ اور سرکاری اہلکار اتنا جلد جرائم کا سراغ لگاتے ہوں۔ ان کی شرعی پوزیشن بتاتے ہوں اور بلاتاخیر آگاہ کر دیتے ہوں کہ جرم کرنے والے‘ اللہ کے غضب سے نہیں بچ سکیں گے۔
جب شہیدوں کو کفنانے دفنانے کے بعد‘ ان کے ورثا دادرسی کے لئے کسی حکومتی عہدیدار کے پاس جائیں گے‘ تو وہ انہیں آرام سے بٹھا کر پانی پیش کرے گااور غمگین صورت بنا کر ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہے گا کہ ''دعا ہو جائے۔‘‘ دعا ختم ہونے پر اگر مرحومین کے ورثا خود ہی چلے جائیں‘ تو عزت و آبرو سے گھر آ سکیں گے۔ ورنہ انصاف قسم کی کوئی چیز مانگ بیٹھے‘ تو انہیں ڈانٹ کے ساتھ‘جواب ملے گا''میں نے دعا تو کر دی ہے۔ آپ اور کیا چاہتے ہیں؟‘‘ پاکستان کے عوام بھی عجیب ہیں۔ کسی بات پر مطمئن نہیں ہوتے۔ کسی سے خوش نہیں ہوتے۔ کسی کی خوبیوں کا اعتراف نہیں کرتے۔ تھانے میں ایف آئی آر نہ لکھی جائے‘ تو پولیس کا احسان ماننے کی بجائے‘ اسے برا بھلا کہہ کر بدتمیزی سے نکل جاتے ہیں۔ لیڈر ووٹ لینے کے بعد پہچاننا بھول جائے‘ تو اس کے حافظے کی کمزوری پر رحم کھانے کی بجائے‘ تنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ بے وفائی اور دغا بازی کے طعنے دیتے ہیں۔ ٹیکس دینے کے بعد مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کو تعلیم دی جائے۔ یہ نہیں سوچتے کہ انہوں نے ٹیکس دیا ہے‘ کسی کے باپ پر احسان نہیں کیا۔ وزیروں کے گھروں تک عوام کو آرام سے پہنچ جانے کی اجازت مل جائے‘ تو انہیں صبر نہیں آتا ۔ مطالبہ کرتے ہیںکہ انہیں وزیر سے ملایا جائے اور جب گارڈز مجبوراً دھکے دے کر بھگاتے ہیں‘ تو یہ احسان فراموش بھول جاتے ہیں کہ انہیں وزیر کے گھر کا راستہ اختیار کرتے ہی‘ مارپیٹ کر روکنے کی بجائے‘ دروازے تک جانے کی اجازت دی گئی۔ کس قدر احسان فراموش ہیں یہ لوگ؟عوام کی انہی بے صبریوں ‘ بداخلاقیوں‘ گستاخیوں اور قانون شکنیوں پر ہمارے ارباب اقتدار آپس میں گفتگو کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کرتے ہیں''کیا زمانہ آ گیا ہے؟ جس کی گردن پر انگوٹھا رکھو‘ وہی آنکھیں نکالتا ہے۔جس کے گھر میں آگ لگائو‘ وہ گھر سے بھاگتے ہوئے گالیاں دیتا ہے۔ جس کو نوکری دو‘ اس کا دوسرا بے روزگار بھائی نوکری مانگنے ہمارے گھر پہنچ جاتا ہے۔ یہ لوگ کبھی نہیں سدھریں گے۔ ‘‘ ان کی حیرتیں بلاوجہ نہیں۔ یہ گلا کرتے ہیں کہ'' پاکستان نے انہیں دیا کیا ہے؟ ایک اسمبلی کی سیٹ؟ ایک وزارت؟ ایک افسری؟ ایک پولیس کی وردی؟ اس کے بدلے میں ہم ان کے لئے اور کیا کریں؟ جہاں کہیں سلام کرتے ہیں‘ ہم شرافت سے جواب دیتے ہیں۔ اپنے گائوں کے زمیندار کو سلام کر کے دیکھیں‘ دس گالیوں کے ساتھ سلام کا جواب ملتا ہے۔ان سے یہ خوش رہتے ہیں۔اس سے زیادہ ہم ان کے لئے کیا کریں؟ انہوں نے صرف ووٹ دیا ہے۔ بدلے میں چار دن روٹیاں توڑیں۔ پولنگ اسٹیشن جانے کا کرایہ لیا۔ گھر جانے سے پہلے میرے بندوں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور انہیں کیا جان دے دیں؟‘‘ ایک دوسرے لیڈر نے شکایت کی''میں تو ان کا بہت خیال رکھتا ہوں۔ شادی ہوتو لفافے میں 100روپیہ ڈال کر سلامی بھیجتا ہوں۔ موت ہو تو فاتحہ پڑھنے جاتا ہوں۔ کوئی کام پڑے‘ تو ٹیلیفون کر دیتا ہوں۔ کام نہیں ہوتا تو میرا کیا قصور ہے؟ جو دس پندرہ نوکریاں میرے کھاتے میں آتی ہیں‘ ان کی آدھی رقم تو ادھار میں چلی جاتی ہے۔ آدھے پیسے دے کر‘ منت سماجت کرنے لگتے ہیں کہ تھوڑے دنوں کی مہلت دے دیں‘ ہم وہ بھی پیش کر دیں گے۔مگر اس کے بعد حرام خور پلٹ کر منہ نہیں دکھاتے۔پوچھ بیٹھو‘ تو بدتمیزی سے کہتے ہیں جب نوکری ہی نہیں ملی تو پیسے کس بات کے؟ الٹا اپنی پیشگی واپس مانگتے ہیں۔ اس وقت انسان انہیںجوتے نہ مارے تو کیا کرے؟‘‘
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ عوام پر حکومت کرنے اور ان کے ساتھ یہ برتائو روا رکھنے والے حکمران‘ تعداد میں کتنے ہیں؟ جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر سراج الحق نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی تقریر میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ ''عوام پر حکومت کرنے اور تمام وسائل پر قابض لوگ صرف 5فیصد ہیں۔یہ 95فیصد عوام پر حکومت کرتے ہیں۔ امیر جماعت کو وزیرکی حیثیت میں دیکھنے والے بچے بھی اب بڑے ہو چکے ہیں۔ انہیں وزارت نہیں ملتی تو بھی ممبر بنے بیٹھے رہتے ہیں‘ اسمبلی سے باہر نہیں نکلتے۔ ان کی جماعت کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ حکومت کرنے والے 5فیصد میں‘ اسے زیادہ سے زیادہ جگہ مل جائے۔ اس جماعت کو بھی یہی گلہ ہے کہ عوام ہیں ہی بڑے گندے۔ 1970ء
کے انتخابات میں جب جماعت بڑی امیدوں کے ساتھ‘ انتخابی میدان میں اتری‘ تو اس کی امیدیں آسمانوں پر تھیں۔ زمین پر رہنے والوں کواس نے آسمانوں ہی سے دیکھا۔ یہ پاکباز اور عالی مرتبت لوگ‘ گناہگاروں کو حقیر نہ سمجھیں تو کیا کریں؟ یہی کیا کم ہے کہ ان کے ووٹ قبول کر لیتے ہیں؟ لیکن بدبخت ووٹروں کو ثواب دارین حاصل کرنے کی بھی توفیق نہ ہوئی ووٹ دینے کی سعادت ہی حاصل کر لیتے۔ بدقسمتی اور کیا ہوتی ہے؟ انتخابی نتائج آنے پر جماعت کے ایک لیڈر نے کہا ''عوام جاہل ہوتے ہیں۔‘‘ یہ بات کہنے والے انتہائی برگزیدہ اور شائستہ انسان تھے۔ زیادہ سخت الفاظ استعمال کرنا‘ ان کی نفیس طبیعت کو گوارا نہ تھا۔ طبیعت ہمارے وزیرداخلہ کی بھی بہت نازک ہے۔ اسلام آباد کے دھماکوں پر یو نائیٹڈ بلوچ آرمی نے‘ ذمہ داری قبول کر لی کہ یہ کارروائی انہوں نے کی ہے۔ ہمارے وزیرداخلہ نے جاہل بلوچوں کو عزت دینا بھی گوارا نہ کیا کہ وہ ان کے اعتراف گناہ کو تسلیم کر لیں۔ دنیا بھر کے حکمران اس کوشش میں رہتے ہیں کہ عوام کی جانوں سے کھیلنے والوں کو ہر ممکن طریقے سے تلاش کیا جائے۔ مگر ہمارے وزیرداخلہ کی طبع نازک کا یہ عالم ہے کہ قاتل خود بھی اپنے جرم کا اعتراف کر لیں اور ہمارے وزیرداخلہ کا موڈ اچھا نہ ہو‘ تو وہ کہتے ہیں'' بکواس بند کرو۔ میں نہیں مانتا کہ یہ کام تم نے کیا ہے۔ میں اپنی مرضی سے قتل کرنے والوں کا انتخاب کروں گا۔‘‘اس سوال پر کہ اسلام آباد میں دہشت گرد بم لے کر کیسے داخل ہو گئے؟ تو انہوں نے ڈاٹتے ہوئے کہا ''پولیس ہر گاڑی کو چیک نہیں کر سکتی۔‘‘ انہوں نے کمال دانش مندی سے غصے پر قابو پا لیا اور سوال کرنے والے کو یہ نہیں کہا ''پولیس تمہارے باپ کی نوکر ہے کہ شہر میں بم لانے والوں کو ڈھونڈتی پھرے؟ اسے اور کوئی کام نہیں؟ اگر میری پولیس نے دہشت گردوں کو روکنا شروع کر دیا‘ تو طالبان سے ہمارے مذاکرات کا کیا بنے گا؟ ‘‘ اپنے وزیر داخلہ کو میں مشرق و مغرب کا بادشاہ کہتا ہوں۔ کبھی کابینہ کے اجلاس یا کسی میٹنگ میں انہیں وزیراعظم کے ساتھ بیٹھا دیکھئے۔ آپ کو یوں لگے گا‘ جیسے وزارت عظمیٰ اور وزارت اعلیٰ انہوں نے ہی عطا فرمائی ہو۔ مشرق و مغرب کے بادشاہ‘ اپوزیشن کو ڈانٹ پلانے کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے۔ فروٹ منڈی میں جب وہ دھماکوں کے مقام پر پہنچے‘ تو ابھی بکھرے سامان پر گرا خون بھی نہیں جما تھا۔ لیکن وہ اپوزیشن کو نہیں بھولے اور فرمایا ''سابق حکومت نے ایک ارب کے ناکارہ سکینر خریدے۔‘‘ انہوں نے یہ بات کہنے کے لئے 10مہینے انتظار کیا تاکہ بموں کے دھماکے ہو جائیں۔ ان سے سوال کیا جائے اور وہ پیپلزپارٹی کی چھترول کریں۔ ورنہ وہ چاہتے‘ تو اسلام آباد کی سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی چھان بین شروع کر سکتے تھے۔ دو نہیں تو چار مہینوں کے اندر انہیں پتہ چل سکتا تھاکہ سکینر ناکارہ ہیں اور اگلے ڈیڑھ دو مہینوں میں وہ نئے سکینر لگا سکتے تھے۔ مگر وہ ایسا کر دیتے‘ تو دھماکے کیسے ہوتے؟ وہ اپوزیشن کو چھترول کیسے کرتے؟ شکر کرنا چاہیے کہ چوہدری صاحب ہمارے وزیردفاع نہیں۔ خدانخواستہ ان کے دور میں کوئی دشمن حملہ کر دیتا‘ تو اطلاع ملنے پر ان کا جواب ہوتا۔ ''فکر نہ کرو! اللہ نے چاہا تو دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں گے۔‘‘
ہمارے بھی ہیں حکمراں کیسے کیسے؟