کبھی ہوا نہیں کہ ظلم‘ جبر‘ تشدد ‘ تسلط‘ انسان دشمنی‘ علم دشمنی‘ تہذیب و تمدن کی مخالفت اور جہالت پر مبنی تصورات ‘ دوسروں پر مسلط کرنے والی قوتوں اور امن پسندوں اور آئین و قانون کی عملداری پر یقین رکھنے والوں کے درمیان‘ پہلے سے قابل اتفاق بنیادیں طے کئے بغیر‘ مذاکرات شروع کر دیئے جائیں اور پھر امید رکھی جائے کہ یہ کامیاب ہو جائیں گے۔ ایسا کبھی ہوا ہے‘ نہ ہوگا۔ جب ان مذاکرات کا فیصلہ ہوا‘ تو اس کے دو تین روز بعد ہی عطاالحق قاسمی نے‘ لاہور میں وزیراعظم نوازشریف کو مدعو کر کے ‘ انہیں چند احباب سے ملانے کا موقع پیدا کیا۔ مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ مجھے بات کرنے کے لئے کہا گیا‘ تو میں نے بڑے ادب سے جناب وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کر کے‘ آپ ٹریپ میں آ گئے ہیں۔‘‘ وزیراعظم اس غیرمتوقع رائے زنی پر چپ رہے۔ بولنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ وزیراعظم ایک فرد نہیں‘ ادارہ ہوتے ہیں۔ جب وہ کوئی فیصلہ کرتے ہیں‘ تو اس کے پیچھے ہمہ جہت ریسرچ‘ بحث و مباحثے‘ غور و خوض اور ہر طرح کے امکانات کا وسیع پس منظر ہوتا ہے۔ وہ اس طویل عمل کی تفصیل بیان نہیں کر سکتے تھے اور چند جملوں میں وضاحت ممکن نہیں تھی۔ میں نے متعدد کالموں میں اس واقعے کا ذکر کیا۔ عرصے تک میرے پاس اپنی رائے کو درست ثابت کرنے کے لئے‘ دلائل نہیں تھے۔ انتہاپسندوں‘ طالبان کے حامیوں اور ان سے خوفزدہ لوگوں کو‘ میں اب بھی مطمئن نہیں کر سکوں گا۔ ایسے لوگ میرے مخاطب بھی نہیں ہوتے۔ میں ہمیشہ آزادانہ غوروفکرکرنے اور حقائق کو معروضی انداز میں جاننے اور سمجھنے کے خواہش مندوں کی توجہ کا طالب رہتا ہوں۔
مذاکرات سے پہلے کی صورتحال کو یاد کیجئے تو آپ کو صورتحال میں ٹھہرائواور منتخب حکومت استحکام کی جانب پیش قدمی کرتی نظر آئے گی۔ طویل عرصے کے بعد فوج اور حکومت کے مابین مثالی یکجہتی اور اتفاق رائے پیدا ہوا تھا۔ دور دور تک عدم استحکام کے آثار نہیں تھے۔ دہشت
گرد اپنی وارداتیں کر رہے تھے اور حکومت دستیاب وسائل کے ساتھ ان کا مقابلہ کر رہی تھی۔ جہاں تک افواج پاکستان کا تعلق ہے‘ وہ اپنی عسکری روایت کے مطابق دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے میں مصروف تھی۔ فوج میں یہ کام مسلسل جاری رہتا ہے۔ دہشت گردوں نے فاٹا کے پورے علاقے میں اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے تھے اور جہاں چاہتے تھے‘ آزادی سے دہشت گردی کی وارداتیں کر لیتے تھے‘ لیکن فوج نے بھی ساتھ ساتھ اپنی تیاریوں کا عمل جاری رکھا اور جہاں قابل عمل کارروائی کا موقع پیدا ہوا‘ آپریشن کر دیا۔ یہ معمولی معرکے نہیں تھے۔ دہشت گردوں کو بیرونی امداد حاصل تھی۔ ان کے پاس دولت کی فراوانی تھی۔ خصوصاً عرب دنیا سے سرکاری کے علاوہ‘ انہیں بے پناہ غیرسرکاری ذرائع سے بھی سرمایہ حاصل ہو رہا تھا۔ میں یہ بات خود نہیں لکھ رہا بلکہ خیبرپختونخوا کے سابق سیکرٹری داخلہ کے الفاظ بیان کر رہا ہوں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ہماری فوج جب بھی دہشت گردوں کے مقبوصہ علاقوں میں کارروائی کرتی‘ سامنے سے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا۔ ان کے پاس ایسے ایسے ہتھیار تھے‘ جو پاکستانی فوج کے پاس بھی نہیں آئے تھے۔ بنکرز‘ جدیدترین جنگی تکنیک کے مطابق تعمیر کئے گئے تھے۔ ان میں سے بیشتر نیچے سے پہاڑوں کو کھود کر بنائے گئے تھے اور ان کے دروازے کنکریٹ سے تعمیر کئے گئے‘ جو باہر سے توتے کی ناک جیسے نظر آتے تھے۔ اس کامطلب یہ تھا کہ ان پر بلندی یا سامنے سے راکٹ یا میزائل اثر نہیں کرتا تھا‘ کنکریٹ کی توتا ناک سے ٹکرا کر‘ ادھر ادھر ہو جاتا۔ غاروں کے اندر جدید زندگی کا ہر وہ سامان موجود تھا‘ جو لاہور یا کراچی کے عشرت کدوں میں پایا جاتا ہے۔میں اندھے اعتقادات رکھنے والوں کے جذبات مجروح نہیں کرنا چاہتا‘ ورنہ باقی تفصیل بیان کرتا‘ تو جذباتی لوگ اپنے ممدوحوں کی غلطیاں تسلیم کرنے کی بجائے‘ مجھ پر چڑھ دوڑتے۔ جس چھوٹے سے اشارے پر ایازامیر پر زہریلی تنقید کی گئی‘ اس
معاملے میں‘ جتنا کچھ زیرزمین پناہ گاہوں کے اندر ملا‘ وہ صرف جنت میں ہی مل سکتا ہے۔ شراب جنت میں بھی ہوگی‘ مگر اس میں نشہ نہیں ہوگا۔ زمین پر یہ شے نشے کے ساتھ ہوتی ہے۔ جو کچھ میں نے نہیں لکھا‘ سمجھ لیں کہ وہ سب کچھ برآمد ہوتا رہا۔ اس ''سب کچھ‘‘ کی تصویریں اور ویڈیوز موجود ہیں‘ جن کا کچھ حصہ ہمیں دکھایا بھی گیا۔ لیکن ''مومن‘‘ آپس کی لڑائی میں بھی ایک دوسرے کے عیب چھپا لیتے ہیں‘ جیسے مذاکراتی ٹیم کے اراکین نے وہ سب کچھ چھپایا‘ جو طالبان کے ساتھ ملاقاتوں میں انہیں سنایا گیا۔ انہیں اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے‘ امن کے مشن پر کام جاری رکھنا پڑا۔میں پاک فوج کی اس طویل جنگ کا حوالہ دے رہا ہوں‘ جو وہ انتہائی نامساعد حالات میں 6برس سے لڑ رہی ہے۔ اس کے لاتعداد جوانوں اور افسروں نے جام شہادت نوش کیا‘ لیکن بڑھتے ہی چلے گئے اور اب تک 18علاقوں پر طالبان کا قبضہ ختم کر کے‘ وہاں ریاست کی رٹ قائم کر چکے ہیں۔ ان میں سوات اور دیر کے بندوبستی علاقے بھی شامل ہیں۔ اب دہشت گردوں کے مراکز دشوار گزار علاقوں میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت باقی ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مرکز شمالی وزیرستان ہے‘ جنوبی وزیرستان میں بھی دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔ مگر جنوبی وزیرستان پر ان کا وہ کنٹرول نہیں‘ جو شمالی وزیرستان میں حاصل ہے۔
میں دہشت گردوں کی طاقت سے انکار نہیں کرتا‘ لیکن ان کے پاس وہ محفوظ ٹھکانے اس تعداد میں باقی نہیں رہ گئے‘ جو کچھ عرصہ پہلے ہوا کرتے تھے‘ البتہ انہوں نے اپنانیٹ ورک پاکستان کے اندر بڑی مہارت کے ساتھ پھیلا دیا ہے۔ آپ نے آج ہی خبر پڑھی ہو گی کہ اسلام آباد میں دو مدرسوں کی مدد سے دہشت گرد نئی وارداتیں کرنے والے ہیں۔ لال مسجد میں قائم مدرسے کے کرشمے آپ دیکھ چکے ہیں۔ وہاں اتنی طاقت جمع کی جا چکی تھی کہ پاک فوج کو بھی اپنی پوری طاقت استعمال کر کے کنٹرول حاصل کرنا پڑا اور اس دوران پاک فوج کے ایک اعلیٰ افسر کی شہادت بھی ہوئی۔ مدرسوں کا سلسلہ پورے پاکستان میں پھیلا ہوا ہے اور میں طالبان کی اس صلاحیت کو تسلیم کرتا ہوں کہ وہ جب چاہیں پاکستان کے تمام شہروں میں بدامنی پھیلا سکتے ہیں‘ خونریزی کر سکتے ہیں‘ لوٹ مار اور اغواکی وارداتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں مگر ان کی یہ طاقت مذاکرات کے ذریعے ختم نہیں کی جا سکتی۔ یہی میرا نکتہ ہے۔ اس حوالے سے میں کئی بار اظہار خیال کر چکا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنی آزادی‘ جمہوریت اور آئین کو بچانے کے لئے طویل جنگ لڑنا پڑے گی۔ اس جنگ میں ساری دنیا ہمارے ساتھ ہے۔ جس دن منتخب حکومت نے دنیا
کو یقین دلا دیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہم نے عزم صمیم کر لیا ہے اور اب ہم اپنے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کر کے ہی چین لیں گے‘ تو آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ دنیا کس طرح ٹوٹ کر آپ کی مدد کرتی ہے۔ یہ جنگ لڑنے کے لئے ڈالروں کا سیلاب آ سکتا ہے۔ جدید ترین آلات اور اسلحہ مہیا ہو سکتا ہے۔ شہری دفاع کے لئے تمام آلات بکثرت اور بلامعاوضہ مہیا ہو سکتے ہیں۔ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں ‘ دہشت گردوں کے خلاف ہمیں معلومات مہیا کر سکتی ہیں اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے یہ حوصلہ کر لیا‘ تو دہشت گردوں کو یا ہتھیار ڈالنا پڑیں گے یا پاکستان چھوڑ کر بھاگنا پڑے گا۔ دہشت گردوں کی طاقت ان کے اپنے اندر نہیں‘ ہمارے اندر ہے۔ وہ جماعتیں جو اسلام کے نام پر سیاسی کاروبار کرتی ہیں‘ سب کی سب‘ دہشت گردوں کی درپردہ مددگار ہیں۔ مدرسوں میں ان سے ہمدردی رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ جو طلبا اور اساتذہ ‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں‘ انہیں طاقت سے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ جگہ جگہ ایسی خفیہ تربیت گاہیں موجود ہیں‘ جہاںسادہ لوح طلبا کو تربیت دی جاتی ہے۔ ہم نے مذاکرات شروع کر کے‘ ملک بھر میں طالبان کے ہمدردوں اور ساتھیوں کو منظم ہونے کی مہلت دے دی ہے۔ انہوں نے جنگ بندی کی آڑ میں قتل و غارت گردی کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مذاکرات کی آڑ میں پاک فوج کی کارروائیاں بھی رکوا دیں اور اپنے کمانڈروں اور تربیت یافتہ دہشت گردوں کی رہائی کے لئے‘ حکومت پاکستان میںآمادگی کا رحجان بھی پیدا کر لیا۔ جس طرح پاکستان کے میڈیا میں طالبان اور ان کے حامیوں کو کھل کر پراپیگنڈے کی آزادی ملی‘ وہ دہشت گردی کی عالمی تاریخ میں‘ کبھی کسی کو نہیں دی گئی اور خود ان مذاکرات کے اندر ہونے والے اور متوقع فیصلوں کے سوال پر‘ پہلی مرتبہ منتخب حکومت اور فوج کے درمیان اختلاف رائے ہوا۔ مذاکرات کا سب سے تباہ کن نتیجہ یہ ہے کہ طالبان کے بارے میں جو قومی اتفاق رائے اور یکجہتی موجود تھی‘ کمزور پڑنے لگی ہے۔ مذاکرات کو جتنا طول دیا جائے گا‘ پاکستان کی ذہنی اور مادی طاقتوں میں اضمحلال آتا جائے گا اور طالبان کی طاقت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ وہ ہتھیار استعمال کرتے ہوئے کامیابی کی طرف بڑھتے رہیں گے اور ہم اپنے ہاتھ پیر باندھ کر‘ پسپائی کی ڈھلوان پر کھسکتے رہیں گے۔