"NNC" (space) message & send to 7575

ایک پرانی بات

گزشتہ روز ''دنیا نیوز چینل‘‘ پر ارشد شریف کے پروگرا م میں‘ برادرم ایاز امیر نے 12اکتوبر کے حوالے سے بتایا کہ اس وقت کے سیکرٹری دفاع جنرل(ر) افتخار علی خان مرحوم نے نوازشریف کو منع کیا تھا کہ وہ پرویز مشرف کو برطرف نہ کریں، لیکن انہوں نے جنرل صاحب کی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ فیصلہ ہو چکا ہے(الفاظ دوسرے تھے) ۔ جس پر میں نے وضاحت کی کہ اس دن واقعات کا جو سلسلہ چل رہا تھا‘ اس میں یہ بات فٹ نہیں آتی ۔ جس پر ایاز امیر نے کہا کہ یہ بات جنرل صاحب نے خود انہیں بتائی تھی۔میں نے جواب دیا، اگر ایسا ہے تو جنرل صاحب نے غلط کہا۔ وجہ یہ ہے کہ12 اکتوبر کو ہونے والے اقدامات کی تیاری11اکتوبر کو ہو چکی تھی۔ مشاورت صرف شریف خاندان کے اندر ہوئی۔حتمی فیصلہ بھی یہیں ہوا۔ابتدائی تقریرتبادلہ خیال کے بعد حسین نواز سے لکھوائی گئی۔ ترتیب و تشکیل میں میاں محمد شریف صاحب مرحوم‘ خود وزیراعظم نوازشریف‘شہباز شریف‘ بیگم کلثوم نواز اور حسین نواز کا حصہ تھا۔ اس تقریر میں برطرفی کے واضح اعلان کے سوا ساری کی ساری تمہید اس بات کی تھی کہ جنرل پرویز مشرف نے کس طرح ملکی مفادات کو نقصان پہنچایا اور کیسے جمہوری حکومت کے کام میں رخنے ڈالے۔جن حضرات اور معزز خواتین کا میں نے ذکر کیا ہے، ان سب کے علم میں ہے کہ حتمی فیصلہ کب ہوا تھا۔ بہر حال یہ 12اکتوبر سے پہلے ہو چکا تھا۔عملدرآمد کے مراحل میرے علم کے مطابق یہ تھے۔12اکتوبر کی صبح فیصلے پر عملدرآمد کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ سعید مہدی کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ صدر کے نام وزیراعظم کی سفارش کا ڈرافٹ تیار کر کے‘ ملتان روانگی سے پہلے وزیراعظم کو دکھا دیں۔ وزیراعظم نے یہ ڈرافٹ منظور کیا اور حکم دیا کہ صدر مملکت سے اس سفارش کے مطابق حکم جاری کرا لیا جائے۔وزیراعظم کی ملتان روانگی کے بعد جناب سعید مہدی ایوان صدر میں گئے اور ڈرافٹ صدر صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا۔ میرا خیال ہے کہ سعید مہدی ڈرافٹ ایوان صدر میں چھوڑ کر واپس آگئے تھے لیکن جس وقت میں وزیراعظم کی معیت میں اسلام آباد ایئر پورٹ سے پرائم منسٹر ہائوس کے عقبی پورچ میں اترا تو وزیراعظم فریش ہونے کے لئے اپنی آرام گاہ میں چلے گئے اور میں حسین نواز کے ساتھ تقریر کا آخری حصہ مکمل کرنے کے لئے‘ پی ایم ہائوس کے رہائشی حصے کے لان میں بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد‘ وزیراعظم اپنے کسی مہمان کو رخصت کرنے فرنٹ پورچ تک گئے۔ دروازے کے اندر سعید مہدی ایک فائل کے ساتھ کھڑے تھے۔ وزیراعظم مہمان کو رخصت کر کے واپس دروازے تک آئے تو سعید مہدی نے انہیں فائل دکھاتے ہوئے کہا کہ '' سر!صدر صاحب نے حکم جاری کر دیا ہے‘‘۔وہیں پرویز رشید آگئے اور انہیں اس حکم کے ساتھ پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر روانہ کر دیا گیا کہ وہ خبر نشر کرا دیں۔ان کی ایک علیحدہ کہانی ہے کہ وہ کس طرح پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر پہنچے، کس طرح خبر نشر کرائی اور پھر ان کے دیکھتے ہی دیکھتے کس طرح فوجی جوانوں نے نشریات کے سارے نظام پر قبضہ کر کے بھرتی کے پروگرام چلوانا شروع کر دئیے۔
اب آتے ہیں جنرل(ر) افتخار مرحوم کے بیان کی طرف۔ایاز امیر کے مطابق جنرل صاحب نے بتایا کہ وزیراعظم نے ان سے مشرف کی برطرفی پر بات کی اور پھر جنرل صاحب نے وزیراعظم سے کہا کہ آپ یہ فیصلہ نہ کریں۔وزیراعظم نے جنرل صاحب کی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے بتایا کہ فیصلہ تو ہوچکا( یا ایسے ہی دوسرے الفاظ)۔جس وقت وزیراعظم اور جنرل صاحب یہ بات کر رہے تھے‘ اس سے کئی گھنٹے پہلے برطرفی کا آرڈر ٹائپ ہوا تھا،ایوان صدر بھیجا گیا تھا اور صدر صاحب کے دستخط کے بعد‘ وہ ساڑھے تین بجے وزیراعظم ہائوس میں جناب سعید مہدی کی تحویل میں آچکا تھا، لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم سوچ رہے ہوں اور جنرل صاحب نے انہیں مشورہ دیا ہو کہ آپ یہ فیصلہ نہ کریں۔ اسی پس منظر کی بنا پر میں نے ایاز امیر کی اس بات کے جواب میں کہا کہ اگر جنرل صاحب نے یہ کہا ہے تو پھر انہوں نے غلط کہا۔ میرے خیال کے مطابق بطور سیکرٹری دفاع ‘معاملہ ان کے علم میں تھا لہٰذاجو بات ان سے منسوب کی گئی‘ انہیں کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی اور اگر واقعی انہوں نے یہ بات کی تو یہ بعد میں سوچی گئی کسی وجہ کی بنا پر ہوا ہو گا۔
ملتان سے واپسی پر‘ میں وزیراعظم کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا تھا۔ وہیں سے انہوں نے حکم جاری کیا کہ جنرل افتخار کو ایئرپورٹ پر بلوا لیں۔ ہم جب اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے تو وزیراعظم نے باہر کھڑے جنرل افتخار سے کہا کہ وہ ان کی گاڑی میں تشریف رکھیںا ور ساتھ بیٹھ کے وزیراعظم ہائوس روانہ ہو گئے۔ جہاں وزیراعظم کو چھوڑ کر‘ جنرل افتخار واپس چلے گئے ۔ یقیناً بہت سے لوگوں نے غوروفکر کے دوران وزیراعظم کو مشورے دئیے کہ وہ احتیاط سے کام لیں لیکن اندر کی صورت حال وزیراعظم کے علم میں تھی۔ پرویز مشرف مسلسل اشتعال انگیز حرکتیں کر رہے تھے۔ جنرل طارق پرویز کسی ذاتی حوالے سے ہیڈ کوارٹر میں اطلاع دئیے بغیر‘ وزیراعظم سے ملنے کے لئے ان کی سرکاری قیام گاہ پر آئے۔ وہ وزیراعظم کی کابینہ کے وزیر اور ان کے قریبی ساتھی راجہ نادر پرویز کے بھائی تھے۔ اس حوالے سے وہ ذاتی حیثیت میں بھی آسکتے تھے لیکن پرویز مشرف نے ان کی اس ملاقات کو بھی مسئلہ بنا لیاا ور خبر چھپوا دی کہ جنرل طارق پرویز اعلیٰ کمان کو اطلاع کئے بغیر ایوان صدر گئے ہیں جس پر ان سے باز پرس کی گئی (یا اسی طرح کے الفاظ)۔یہ صریحاً ایک باغیانہ حرکت تھی۔ وزیراعظم نے آئی ایس پی آر کے سربراہ سے کہا کہ وہ اس خبر کی تردید جاری کریں۔ اگلے دن اخبارات آئے تو ان میں یہ خبر موجود نہیں تھی‘ جس پر وزیراعظم کا خفا ہونا لازم تھا۔ یہ بات سامنے آگئی کہ وزیراعظم ہائوس اور جی ایچ کیو میں کشیدگی پیدا ہو چکی ہے اور اندرون خانہ کشمکش بھی چل رہی ہے۔ پرویز مشرف کی سرگرمیوں میں تیزی آتی گئی۔ وزیراعظم کو ایک ایک لمحے کی خبر مل رہی تھی۔ دونوں فریقوں سے تعلق رکھنے والی دو معزز شخصیتوں نے‘ اس باہمی تلخی کو ختم کرنے کی کوششیں کیں لیکن پرویز مشرف کچھ اور ہی طے کر چکے تھے۔فطری امر تھا کہ وزیراعظم بلحاظ منصب اپنی ایک ماتحت وزارت کے ملازم کی باغیانہ سرگرمیوں کا نوٹس لیتے۔ اصولی طور پروزیراعظم کو اختیار تھا کہ وہ دفتری کارروائی کر کے پرویز مشرف کو فارغ کر دیتے لیکن چیف آف آرمی سٹاف کو اپنے منصب کی وجہ سے جو اختیارات حاصل ہوتے ہیں ان کا کئی بار ناجائز استعمال کر کے آئین توڑا گیا۔ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو نکالا گیا۔ قومی اسمبلیوں اور سینٹ کو ختم کیا گیا۔ آئین کو مختلف بہانوں سے توڑا گیا اور غیر آئینی حکومتیں قائم کی گئیں‘ جس کی وجہ سے وزیراعظم کو برطرفی کے فیصلے پر عملدرآمد کے تمام مراحل خفیہ رکھنا پڑے مگر پرویز مشرف کے اندرچور تھا ‘ اس لئے وہ اپنے طور پر سازش کا تانا بانا بنتے رہے اور کولمبو روانہ ہونے سے پہلے‘ انہوں نے اپنے ماتحت جنرلوں کے ایک مخصوص ٹولے کی‘ ایک خفیہ میٹنگ میں حکم جاری کر دیا کہ اگر میری عدم موجودگی میں انہیں میری برطرفی کے بارے میں پتہ چلے‘ تو فوری طور سے اقتدار پر قبضہ کر کے وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کو حراست میں لے لیں۔ اس سازش کی پوری تفصیل جنرل شاہد عزیز کی کتاب میں موجود ہے۔یہ کتاب پڑھنے کے بعد ثابت ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے 12اکتوبر کا فیصلہ یقینی طور پر ٹھوس اطلاعات کی بنا پر‘بروقت اور درست کیا تھا۔حیرت یہ ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کے لئے 3نومبر کا اقدام کیوں چنا گیا؟ آئین توڑنے کا اصلی جرم12اکتوبر کو کیا گیا‘ اس پر کوئی مقدمہ نہیں بنایا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں