"NNC" (space) message & send to 7575

طاقت کا جواب مذاکرات نہیں‘ طاقت ہے

حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کرتے وقت شاید کوئی ہوم ورک نہیں کیا۔ اس طرح کے فیصلے کرنے سے پہلے‘ دونوں فریقوں کے مابین خفیہ پیغام رسانی ہوتی ہے‘ جس میں حدود اور شرائط کا تعین کیا جاتا ہے۔ دوران مذاکرات ان کی پابندی پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔ اکثر اوقات ان افراد کے بارے میں بھی اتفاق رائے کر لیا جاتا ہے‘ جن کو مذاکراتی ٹیموں میں شامل کرنا ہو۔ ایسا کوئی کام نہیں ہوا۔ یوں لگتا ہے جناب وزیر اعظم نے مذاکرات کا فیصلہ کرتے وقت‘ اپنے ساتھیوں سے مشاورت بھی نہیں کی۔ ایسا ہو جاتا‘ تو سب سے پہلے ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کرنے اور بیگناہ شہریوں کے جان و مال سے کھیلنے والوں کو سٹیک ہولڈر مان کر برابر کے فریق کی حیثیت سے بٹھانے کا سوال زیر بحث آتا کہ مذاکرات کے اثرات و نتائج کیا ہوں گے؟ یہ سوال زیر بحث آتا‘ تو یقیناً جس نکتے پر سب سے زیادہ بحث کی جاتی‘ وہ یہ ہوتا کہ مسلح باغیوں کے ایک گروپ کو برابر کا سٹیک ہولڈر تسلیم کر کے‘ اس کے ساتھ بات چیت ہو سکتی ہے تو اسی طرح کے دوسرے گروہ یقینی طور پر یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ طالبان کی طرح دہشت گردی کی کارروائیاں کی جائیں‘ تو اسلام آباد کی اتھارٹی جھک کے بات چیت پر آمادہ ہو سکتی ہے۔ یقینی طور پر جو امکانی خطرات زیر بحث آتے‘ ان میں سرفہرست بلوچستان کے مسلح باغیوں کے گروہ ہوتے۔ سندھی قوم پرست‘ ایک مدت سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہیں بھی ترغیب مل سکتی ہے۔ وہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ دہشت گردی کا راستہ اختیار کر کے‘ حکومت سے اپنی باتیں منوائی جا سکتی ہیں۔ ایم کیو ایم ابھی تک اپنی کمیونٹی کے مطالبات منوانے کے لئے‘ آئینی اور جمہوری جدوجہد کر رہی ہے۔ کبھی کبھار وہ اپنی تنظیمی اور تخریبی صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کرتی ہے۔ لیکن یہ مظاہرے طے شدہ پالیسی کا حصہ نہیں ہوتے۔ دہشت گردی کے ذریعے حکومت کو دبائو میں لانے کا طریقہ کار‘ موثر ثابت ہونے پر ایم کیو ایم بھی یہی راستہ اختیار کرنے پر مائل ہو سکتی ہے۔ 
سرائیکی تحریک فی الحال سیاسی مطالبات تک محدود ہے۔ یہ تحریک اپنے علاقے کے محروم لوگوں کے لئے حقوق مانگتی ہے۔ سینکڑوں میل دور واقع‘ تخت لاہور کی رعایا کے درجے سے نکل کر‘ علیحدہ صوبے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ابھی تک یہ تحریک پُرامن ہے‘ لیکن جب کسی کمیونٹی میں حقوق سے محرومی کا تصور جڑ پکڑ لیتا ہے‘ تو اس کی جتنی مزاحمت کی جائے‘ اسی قدر یہ شدت پکڑتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں ہم اس تجربے سے‘ انتہائی تکلیف دہ انداز میں گزر چکے ہیں۔ وہاں بھی ابتدا صوبائی حقوق کے مطالبات سے ہوئی تھی۔ جیسے جیسے ان کے مطالبات کو ٹھکرایا گیا‘ ان میں شدت پیدا ہوتی گئی اور صوبائی حقوق کی تحریک‘ ریاستی مشینری کی طرف سے طاقت کے استعمال کے جواب میں مزاحمت کی طرف بڑھتی رہی۔ آخر میں 6 نکات سامنے آئے۔ جب ان پر بھی تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے میں تاخیر کی گئی‘ تو علیحدگی کا مطالبہ سامنے آ گیا اور اسلام آباد کی اتھارٹی اسلحہ کے استعمال پر اتر آئی اور پھر طویل اور اذیت ناک خونریزی کے بعد‘ ہمیں بیرونی مداخلت کے نتیجے میں وطن کے نصف حصے سے محروم ہونا پڑا۔ 
ہمارے اس تلخ اور اذیت ناک تجربے کا حاصل یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم عوامی مطالبات کو نظر انداز کرنے کی بجائے‘ پہلے ہی مرحلے میں بات چیت پر تیار ہو جاتے اور مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرتے۔ میں نے جتنی بھی تحریکوں کا ذکر کیا ہے‘ یہ مشرقی پاکستان کے بعد کی ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسلام آباد کے حکمران ہٹ دھرمی کے اسی طرز عمل پر قائم رہے۔ نرمی دکھائی‘ تو ایسے مسلح باغیوں کے معاملے میں دکھائی‘ جو نہ ہمارے آئین کو مانتے ہیں‘ نہ عدلیہ کو مانتے ہیں اور نہ ہمارے مذہب پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق ہمارا رہن سہن‘ ہمارے اعتقادات اور ہماری سماجی زندگی‘ سب کافرانہ ہیں۔ وہ ہمیں اپنے پسماندہ اور غیرمہذب طرز زندگی کے مطابق ڈھالنے کے لئے‘ ہر طرح کے ظلم اور جبر کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ گردنیں کاٹنے‘ مسجدوں اور عبادت گاہوں میں بم چلا کر انسانی جسموں کے لوتھڑے اڑانے‘ عورتوں کو میدانوں میں کوڑے مارنے اور گناہ گاروں کو سر عام سنگسار کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کا کمال دیکھیے کہ وہ آئینی حقوق مانگنے والوں کے خلاف تو فوراً طاقت کے استعمال پر اتر آتے ہیں‘ لیکن جو ہماری ریاست سے لے کر ہمارے مذہب تک‘ کسی کو بھی تسلیم نہیں کرتے اور اپنی طرز بودوباش ہم پر تشدد کر کے مسلط کرنا چاہتے ہیں‘ ان کے ساتھ مذاکرات میں پہل کر کے‘ ہم نے دہشت گردی کے راستے کو آسان اور ترغیب انگیز بنا دیا ہے۔ مذاکرات کے لئے رابطوں اور مطالبوں کے کھیل میں‘ وہ ہماری حکومت سے یوں بات کرتے ہیں‘ جیسے وہ فاتح ہوں اور ہم مفتوح۔ طالبان نے جن پاکستانیوں کو قید کر رکھا ہے‘ وہ سب کے سب قانون پسند اور ریاست کے وفادار شہری ہیں۔ ہماری فوج کے جوان اور افسر اگر ریاست کے باغیوں کے خلاف کارروائی کریں‘ تو یہ ان کا قانونی اور آئینی فرض ہے۔ وہ ایک جائز اور قانونی حکومت کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ جن پُرامن اور بے گناہ شہریوں کو اغوا کر کے‘ طالبان نے قیدی بنا رکھا ہے‘ وہ نہ کسی جنگ میں فریق ہیں اور نہ کسی کے حقوق سلب کر رہے تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے‘ تو سب سے پہلے وہ تمام پاکستانی‘ جو طالبان کی جبری قید میں ہیں اور طالبان انہیں کسی قانون کے تحت آزادی سے محروم نہیں کر سکتے‘ انہیں رہا کرنے کا نام تک نہیں لیا جا رہا اور طالبان اپنے قیدیوں کی فہرستوں پر مشتمل‘ نئے سے نئے پلندے بھیج کر‘ ہم پر ان کی رہائی کی شرطیں لگاتے ہیں۔ پاکستان نے 13 یا 19 کی تعداد میں طالبان کو رہا کیا ہے۔ طالبان کی تنظیم کی بنیاد ہی اسلحہ اور طاقت کے استعمال پر رکھی گئی۔ ان کا ہر ساتھی مسلح ہوتا ہے۔ بیگناہوں کو قتل اور اغوا کرنے کے جرم میں وہ عملاً حصہ لیتا ہے۔ جو طالبان کی تنظیم میں شامل ہے‘ اسے ہم غیرجنگی قیدی کہہ ہی نہیں سکتے۔ طالبان کا ہر ساتھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں شریک ہوتا ہے۔ خدا جانے حکومت پاکستان کو ایسی کیا مجبوری آن پڑی کہ وہ طالبان کے جنگجو قیدیوں کو‘ غیرجنگی قرار دے کر رہا کر رہی ہے اور مزید کو رہا کرنے پر تیار ہے۔ طالبان کی قید میں کسی طرح کے قانونی حقوق کے بغیر‘ جنہیںجبری قید میں رکھا گیا ہے‘ ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ہمارے حکمرانوں کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے تو شہید گورنر سلمان تاثیر اور سابق وزیر اعظم کے بیٹوں اور پروفیسر اجمل کی رہائی کا بھی مطالبہ نہیں کیا۔ حکومت کی مذاکراتی ٹیم میں ایک بھی رکن ایسا نہیں‘ جو حکومت کی ترجمانی کرتا ہو۔ طالبان کی کمیٹی کے اراکین روز ہی میڈیا پر میلے لگاتے ہیں۔ بیان پر بیان جاری کرتے ہیں۔ طالبان کی وکالت میں روز نئے سے نئے دلائل لے کر آتے ہیں۔ انہیں ایک ایسے فریق کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں‘ جو بالکل ہی بے گناہ اور معصوم ہے۔ سارے گناہ‘ ساری زیادتیاں حکومت پاکستان کی ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ریاست کے خلاف مسلح بغاوتیں کرنے والوں کو میڈیا کے استعمال کی اجازت نہیں ملتی۔ پاکستانی میڈیا میں طالبان کے حق میں خبریں ہی نہیں‘ تبصرے اور تجزیئے بھی بھرپور طریقے سے پیش ہوتے ہیں۔ ان کے حق میں بولنے اور دلائل دینے والوں کو ہر طرح کی سہولتیں میسر ہیں۔ حکومت کے پاس اپنا میڈیا بھی موجود ہے‘ سرکاری مذاکراتی ٹیم کے اراکین کہیں بات کرتے نظر نہیں آتے۔ مذاکرات کے بارے میں وزرا کی زبان بندیاں کر دی گئی ہیں۔ ہمارے وزیر داخلہ تو ہر معاملے میں طالبان کی وکالت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب مسلح باغیوں کی یوں ناز برداریاں ہوں گی‘ تو مسلح باغیوں کے دوسرے گروہ دہشت گردی کا دائرہ پھیلانے سے کیوں باز رہیں گے؟ اور ایسا ہی ہوا۔ بلوچوں کی ایک گمنام یا نئی تنظیم نے‘ اسلام آباد میں دہشت گردی کے دونوں بڑے واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ہمارے وزیر داخلہ نے بھی اشارے کنائے میں طالبان کو ذمہ داریوں سے آزاد کرتے ہوئے دہشت گردی کا اشارہ کسی اور طرف کیا ہے۔ گویا ہم صرف طالبان کی دہشت گردی کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ ان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں اور بلوچستان کے باغیوں کا ایک گروپ‘ اسلام آباد کے اندر دہشت گردی کی وارداتیں کرتا ہے‘ تو اسے خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ کیا ان کی طرف سے دہشت گردی کی وارداتوں میں مزید تیزی کا انتظار کیا جا رہا ہے؟ کیا وہ بھی جب تک 50 ہزار پاکستانیوں کی جانیں نہیں لے لیتے‘ انہیں اہمیت نہیں دی جائے گی؟ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے‘ بلوچستان کے مسلح باغیوں کو دہشت گردی میں زیادہ تجربہ اور زیادہ مہارت حاصل ہے۔ اس کا ثبوت وہ بقول وزیر داخلہ‘ ملک کے ''محفوظ ترین شہر‘‘ میں ہلاکت خیز دہشت گردی کے‘ دو واقعات میں دے چکے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں