پاکستان میں جب کوئی قتل یا کسی اہم شخصیت پر‘ کامیاب یا ناکام قاتلانہ حملہ ہوتا ہے‘ توافواہوں کی منڈیوں‘ بازاروں اور مارکیٹوں میں‘درجنوں ملزموں پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔ ایک قتل کے ذمہ دار ‘بیک وقت درجنوں بلکہ بیسیوں افراد نہیں ہو سکتے۔ میں بھی جانتا ہوں کہ کئی افراد مل کر قاتلانہ حملہ کر سکتے ہیں۔ مگر ٹارگٹ کلنگ کے پاکستانی ہنر میں‘ عموماً دو ترین افراد کارنامہ انجام دیتے ہیں۔ اول یہ کہ ایک واردات کے لئے دو یا تین سے زیادہ شوٹرز کا استعمال‘ فنی اعتبار سے خطرناک ہے۔ دو یا تین شوٹر‘ واردات کے بعد تیزی سے سڑکوں اور گلیوں کی بھیڑ میںغائب ہو سکتے ہیں۔ کراچی میں کم و بیش تمام اہم مقامات پر کیمرے لگائے گئے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ لوڈ شیڈنگ میں وہ کام کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر وہ لوڈشیڈنگ کے دوران بند ہو جاتے ہیں‘ توجس ادارے کے پاس لوڈشیڈنگ کی اجارہ داری ہے‘ وہ جرائم پیشہ لوگوں کو روزانہ دس بارہ گھنٹے کا فری ہینڈ دیتا ہے۔ کسی بھی جرم کے ارتکاب کے لئے اتنا وقت بہت ہوتا ہے۔ ضروری نہیں سب جرائم پیشہ‘ لوڈشیڈنگ کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوں۔ جن کو اپنے فن پر عبور ہو وہ دن دیہاڑے‘ عین کیمرے کے سامنے آ کر وارداتیں کرکے ‘ اطمینان سے رفوچکر ہو جاتے ہیں۔ ہم نے کیمرے تو درآمد کر لئے ہیں لیکن کیمروں کی رینج میں آئی ہوئی شکلیں پہچاننے کی مہارتیں درآمد نہیں کی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً ہم ٹیلیویژن پر واردات کرتے ہوئے مجرموں کو دیکھتے ہیں مگر ان میں سے95 فیصد کو نہیں ڈھونڈ سکتے۔ ہم اناڑیوں کا تو یہ کام ہی نہیں‘ لیکن جو ماہرین‘ کیمرے دیکھ کر ملزموں کی شناخت کرتے ہیں‘ مہارت میں ان کی اور ہماری کامیابیوں کے تناسب میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔
ناجائز اسلحہ کی چھان بین کے لئے‘ ہم نے سکینر بھی منگوا رکھے ہیں۔ رحمن ملک تو خیراب وزارت میں نہیں ہیں‘ لہٰذا وہ اپنے دور کی ہر برائی کے ذمہ دار قرار پاتے رہیں گے۔ رحمن ملک کا قصور نہیں‘ ہماری ریت ہی ایسی ہے۔امید ہے ملک صاحب برا نہیں منائیں گے۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ ہو سکتا ہے کل ان کی پھر باری آ جائے۔ ان دنوں چوہدری نثار کی باری چل رہی ہے۔اصولی طور پر ان کے محکمے کے اندر‘ جو بھی خرابی سامنے آئے گی‘ اس کا سہرا انہیں مجبوراً رحمن ملک کے سر باندھنا پڑے گا۔ میری رائے میں یہ اصول بدلنے کی ضرورت ہے۔ سہرا اسی کے سر باندھنا چاہیے‘ جو اس کا حقدار ہو۔ مثلاً رحمن ملک نے جو ناکارہ سکینر لگوائے ہیں‘ ان کی نشاندہی ملک صاحب کے دور وزارت میں ہو جانا چاہیے تھی۔ سوال پیدا ہو گا کہ یہ بندوبست کیسے کیا جا سکتا ہے؟ بیوروکریسی میں سمجھ دار افسر‘ نیا چارج لینے سے پہلے تمام ریکارڈ دیکھ کر ‘ ذمہ
داری قبول کرتے ہیں اور جب چارج لے لیتے ہیں‘ تو ہر اچھائی برائی کی ذمہ داری بھی خود قبول کرتے ہیں۔ وزیرحضرات ایسا کیوں نہیں کرتے؟ جیسے ہی انہیں چارج ملتا ہے‘ یوںلپک کر وزارت کی طرف جاتے ہیں‘ جیسے عقاب شکار پہ جھپٹتا ہے۔ اس وقت انہیں یہ فکر نہیں ہوتی کہ وزارت میں خرابی کہاں کہاں ہے؟ ان کی نگاہیں ان جھاڑیوں میں بیتابی سے جھانکتی ہیں‘ جن میں ''شکار‘‘ چھپا ہو۔ عام طور سے نئے وزیروں کے پہلے دو تین سال ''شکار‘‘ کی تلاش میں گزر جاتے ہیں۔لگتا ہے چوہدری نثار علی خاں نے وہ کام چند مہینوں میں کر ڈالا‘ جو دوسرے وزیر برسوں میں کرتے ہیں۔ وزارت کے مزے آنے لگے‘ تو دہشت گردوں نے جھنجھوڑ ڈالا۔ ہڑبڑاہٹ میں سکینرز کی رپورٹ منگوائی‘ تو پتہ چلا کہ وہ شروع سے ناکارہ ہیں۔ چوہدری صاحب کے مخالفین ضرور کہیں گے کہ انہیں 10مہینے وزارت چبانے کے بعد‘ اب پتہ چلا ہے کہ دارالحکومت کی سکیورٹی کے نظام میں سکینر بالکل ہی نابینا ہیں؟ چارج لیتے ہی انہوں نے خطے کے حساس ترین شہر اور پاکستان کے دارالحکومت میں سکیورٹی کے انتظامات کا فوری جائزہ کیوں نہ لیا؟ رحمن ملک تو کبھی کے جا چکے۔ وہ ہر خرابی کی ذمہ داری قبول کرنے کے اہل ہو چکے ہیں۔ چوہدری صاحب نے خرابی پہلے کیوں نہ پکڑی؟ یہ تو ایسے ہی ہے‘ جیسے کوئی سپاہی اپنا اسلحہ چیک کئے بغیر جنگ میں کود جائے۔ دشمن کی رینج میں پہنچے‘ تو بندوق سے گولی نہ نکلے۔ چوہدری صاحب نے جب وزارت داخلہ اور نیشنل سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالی‘ اس وقت دہشت گردی کی لہر زوروں پر تھی۔ نئی ذمہ داریوں کا تقاضا تھا کہ وہ پہلی فرصت میں اپنا اسلحہ چیک کرتے۔ گوریلا جنگوں میں دشمن اعلان کر کے حملہ نہیں کرتا۔ وہ اچانک جھپٹتا ہے اور واردات کر کے نکل بھاگتا ہے۔ بعد میں تو اشیاء اور عمارتوں کے ڈھیر‘ جان بچانے کے لئے بھاگنے والوں کے جوتے اور کپڑے اور حملے کا نشانہ بننے والوں کا خون ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ واردات کے بعد ذمہ دار وزیر یا اعلیٰ افسر‘ موقع پر آ بھی جائیں‘ تو اس کا فائدہ؟ مجھے تو دہشت گردی کی واردات کے بعد موقع پر آنے والے لیڈروں اور افسروں کو دیکھ کر پرانا فلمی گیت یاد آ جاتا ہے۔
لٹنے کے بعد ہوش میں آئے تو کیا کیا؟
غور کیجئے! کہ مرنے والے مر گئے۔ آنے والی تباہی آ گئی۔ واردات کرنے والے جا چکے۔بعد میں تباہی کے مناظر دیکھنے کی ضرورت کیا ہے؟ جو وزیریا افسر ‘ کسی علاقے یا شہر کی سکیورٹی کی ذمہ داری اٹھاتا ہے‘ تو اس کا اصل کام وارداتوں سے پہلے کا ہے۔ ذمہ داری سنبھالتے ہی‘ اسے سکیورٹی کے انتظامات کا جائزہ لینا چاہیے اور جو انتظامات اس کے علم میں لائے جائیں‘ موقع پر پہنچ کر ان کی آزمائشیں کرنا چاہئیں۔ کیمرہ ہے ‘ تو اسے چلا کر دیکھے۔ سکینر ہے تو اسے استعمال کر کے رزلٹ کا معائنہ کرے۔ سکیورٹی کے بندوبست میں کوئی رخنہ ہے‘ تو اسے بند کرے۔ اگر ایسا ہونے لگے‘ تو اسے لاشوں اور کھنڈرات کے نظارے دیکھنے کی ضرورت نہ رہے۔ وہ استعمال میں آنے سے پہلے پکڑے گئے راکٹوں اور بموں کی ڈھیریاں دیکھنے آئے۔ شہریوں کو تحفظ اور سکون کے ماحول میں زندگی کی خوشیوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دیکھنے جائے اور اپنی کارکردگی پر خوشی محسوس کرتا ہوا‘ اس پر فخر کرے۔ میں جب ایسے پرامن شہروں کو دیکھتا ہوں‘ جہاں سکیورٹی کے انتظامات برائے نام ہوں‘ وہاں کے لوگوں کے جان و مال محفوظ ہوں‘ وہ بلا خوف و خطر بھرپور زندگی گزار رہے ہوں‘ وہاں کا تحفظ اور امن حقیقی لیڈرشپ کا پتہ دیتا ہے۔ یہ بھی کوئی حکومت ہے کہ قدم قدم پر پہرے‘ جگہ جگہ ناکہ بندیاں‘ امن پسند شہریوں کی نقل و حمل میں قدم قدم پر رکاوٹیں۔ تلاشیاں۔ بیہودہ سوال و جواب‘ روزانہ کے استعمال میں آنے والے راستوں پر اچانک بندشیں۔ ٹیکسوں کی آمدنی‘ اسلحہ اور مسلح محافظین پر خرچ کی جاتی ہو اور جن شہریوں کو دہشت گردوں اور مجرموں سے بچانے کے لئے قومی دولت اندھادھند خرچ کی جا رہی ہو‘ وہ بھوک اور بیماریوں سے بچ رہیں‘ گولیوں اور بموں سے مارے جائیں۔ میں جب قیام پاکستان کے وقت کو دیکھتا ہوں‘ تو تقسیم کے موقع پردہشت اور درندگی کی جو لہر اٹھی تھی‘ وہ چند مہینوں میں ختم ہو گئی اور اس کے بعد ہمارے شہر اور دیہات امن کا گہوارہ تھے۔ رشوت برائے نام تھی۔ قتل کی خبر ہفتوں مہینوں میں آیا کرتی۔ لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کے واقعات کبھی کبھار ہوا کرتے۔ 66 سال میں ہم نے صرف دہشت گردی ‘ لوٹ مار‘ رشوت اور خونریزی میں کمال حاصل کیا ہے؟ اندھا دھند اسی راستے پر چلتے جا رہے ہیں۔ہر نئے سانحہ کے بعد حکمرانوں کے پہریداروں اور عوام کے عدم تحفظ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ گورنمنٹ کا سائز بڑھتا جاتا ہے۔ گورننس گھٹتی جاتی ہے۔ کیا ہم ایسی ہی صورتحال سے دوچار نہیں؟
نوٹ:- آج رئوف کلاسرا نے اپنے کالم میں وہ سارے اعترافات کر لئے ‘ جن کی بنیاد پر ایجنسیاں قتل کرتی ہیں۔اس سے ثابت ہوا کہ حامد میر پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کی تلاش کہیں اور کرنا چاہیے۔