"NNC" (space) message & send to 7575

پستی کی آخری حد

آخر کار ہم پاکستانیوں نے بیرونی سفر کے لئے اپنے آپ پر پابندیوں کا نیاجواز فراہم کر دیا۔ یہ پابندی ہم نے خود کوشش اور محنت کر کے لگوائی ہے۔ پچھلے سال‘ پاکستان میں وائرس پھیلنے کی رفتار سست ہو گئی تھی۔ پولیو کیسز کی تعداد 8 تھی۔ جبکہ اس سال سے‘ اب تک 58 کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے۔ یعنی تھوڑے ہی عرصے بعد‘ پولیو کیسز میں 600فیصد ہوا۔ یہ اضافہ ایسے حالات میں ہوا‘ جب اقوام متحدہ کے ادارہ صحت اور دوست ملکوں کی جانب سے ‘بار بار انتباہ کیا جا رہا تھا کہ آپ کے ملک میں‘ پولیوپھیلنے کی رفتار بڑھتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کے پروگرام کے مطابق‘ 2018ء تک دنیا سے پولیو کے مرض کا مکمل خاتمہ کرنے کا منصوبہ ہے۔ 2018ء کے بعد‘ جس ملک میں پولیو کا مرض باقی رہ گیا‘ اسے سفری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی نہیں‘ جیسے جیسے پاکستان میں پولیو کے مرض کا خاتمہ ہونے کی بجائے‘ اس میں اضافہ ہونے لگا‘ ہمیں جلد جلد وارننگز دی جانے لگیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ وارننگز کے لہجے میں شدت آتی گئی۔ گزشتہ ایک سال سے عالمی میڈیا میں‘ پاکستان کے لئے خصوصی مضامین لکھ کر مسلسل انتباہ کیا جاتا رہا کہ وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ اگر آپ نے توجہ نہ دی‘ تو آپ کے ملک کو بیرونی سفر کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیا مجال ہے؟ ہماری حکومت‘ ہمارے محکموں‘ ہمارے افسروں اور ہمارے پالیسی سازوں کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔ اس کے برعکس پولیو ویکسین لگانے کے انتظامات کے لیے‘ قریباً 55 ملین ڈالر کی رقم بھی دی گئی۔ایسے بد بختوں کو کیا کہوں؟جنہوں نے یہ رقم خوردبرد کر کے‘ پولیو ویکسین کی مہم کو نتیجہ خیز نہ ہونے دیا۔
کیا فائدہ ایسی پارلیمنٹ کا؟ کیا فائدہ ایسی اسمبلیوں کا؟ کیا فائدہ وفاق اور صوبوں میں وزارت صحت کے ہاتھی پالنے کا؟ کیا فائدہ ڈاکٹروں کی تنظیموں کا؟ کیا فائدہ آزاد اور طاقتور میڈیا کا؟ ساری دنیا نے چیخ چیخ کر گلا بٹھا لیا کہ خطرہ سر پہ آ رہا ہے‘ اپنے بچوں کو اپاہج ہونے سے بچائو۔ دنیا 2018ء تک اس مرض کو ختم کرنے کا حتمی فیصلہ کر چکی ہے۔ جس ملک میں مہلت ختم ہونے کے بعد بھی پولیو کے مرض کا سراغ لگا‘ وہ عالمی برادری سے باہر ہو جائے گا۔ کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ کسی نے شور نہیں مچایا۔ صرف روزنامہ ''دنیا‘‘ واحد اخبار تھا‘ جس نے عالمی میڈیا میں شائع ہونے والے ہر انتباہی مضمون کا ترجمہ‘ اپنے صفحات پر شائع کیا۔میرا خیال تھا‘ شاید اخبار میں بار بار انتباہ پڑھ کر کسی کی آنکھ کھل جائے اور کوئی اس پر شور مچا دے۔ کچھ نہ ہوا اور جب پاکستانیوں کے بیرونی سفر پر پابندی لگا دی گئی‘ تو خبر آئی ''پولیو ویکسین لازمی قرار دینے کی سفارش۔ حکومتی ایوانوں میں ہلچل۔ وزارت صحت کا ہنگامی اجلاس بلانے کا فیصلہ۔ تمام صوبوں میں ہنگامی اقدامات پر غور و خوض۔‘‘ 
سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا؟
اگر میرے جسم میں پھرتی باقی ہوتی اور میں ہنگامی اجلاس میں بیٹھے‘ بے حس اور انسانیت دشمن افراد کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا‘ تو ایک ایک کے سر پر ‘ایک ایک چپت مار کر دس دس گندی گالیاں نکالتا اور کہتا کہ تمہاری ہوس زر نے پاکستان کا تو سب کچھ برباد کر دیا۔ ہمیں تاریکیوں میں دھکیل دیا۔ قاتلوں‘ ڈاکوئوں‘ راہزنوں اور اغوا کاروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ گیس کی لوڈشیڈنگ کر کے ہمارے چولہے ٹھنڈے کر دیئے۔ تمہاری کرپشن نے ہماری نئی نسل کو تعلیم کی دولت سے محروم کر دیا۔ ہمارے سکولوں اور کالجوں کے امتحانی مراکز میں پان والی گلی کی طرح کھلا سودابکنے لگا۔ باہر‘ امتحانی پرچے فروخت کرنے والے سودا بیچ رہے ہیں۔ پرچے حل کر کے دینے والے الگ آوازیں لگا رہے ہیں۔ حل شدہ پرچہ‘ اندر بیٹھے طلباوطالبات کوعلیحدہ پہنچائے جا رہے ہیں۔ یہ 
بچے پاس تو ہو جائیں گے۔ بڑے ہو کے سفارشوں سے نوکریاں بھی حاصل کر لیں گے۔ مگر اس کے بعد کیا کریں گے؟ وہی جو بقول عمران خان آج کی کرپٹو کریسی کر رہی ہے؟کرپشن کی دیمک نے ہمارے گھر کی ہر چیز کو اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ بظاہر کوئی محکمہ صحیح سلامت نظر آتا ہے‘ چھو کر دیکھو تو پرزے ہوا میں اڑتے نظر آتے ہیں۔ پالیسیاں تیارشدہ دکھائی دیتی ہیں‘ آزمائش کی پہلی ہی پھونک میں اڑ جاتی ہیں۔ ڈرگ سمگلنگ نے ہمیں ذلیل کیا۔ کرنسی سمگلنگ میں ہم رسوا ہوئے۔ انسانی سمگلنگ میںہماری شہرت ہوئی۔ ملاوٹ شدہ دوائیں۔ ملاوٹ شدہ غذائیں۔ملاوٹ شدہ کھانے۔ گندے پانی سے آلودہ دودھ۔ ملوں کے زہریلے پانیوں میں اُگی سبزیاں۔ چنے کے چھلکوں سے بنائی گئی چائے کی پتی۔ پسی مرچوں میں پسی اینٹیں۔ جعلی مشروبات۔ جعلی صابن۔ جعلی کریمیں‘ جو معصوم لڑکیوں اور بھولی بھالی عورتوں کے چہرے جلا دیتی ہیں۔ زہریلے رس بھرے برف کے گولے۔ جعلی ٹافیاں۔ ملاوٹ شدہ چاکلیٹ۔ جب ملاوٹ شدہ اور زہریلی اشیائے خوردنی کا جائزہ لیتا ہوں‘ تو میرا سر چکرا جاتا ہے۔ایک تو محنت سے ہونے والی کمائی‘ انتہائی قلیل ہوتی ہے اور اس کمائی سے ہمیں‘ بازار میں‘ بیماریاں‘ دائمی امراض اور اکثر اوقات موت فروخت کی جاتی ہے۔ ایسا بے لگام‘ بے لحاظ‘ بے رحم‘ بے غیرت اور غیرانسانی معاشرہ کیا کم تھا؟ کہ ہم معصوم بچوں کو پولیو کے قطروں سے محروم کر کے‘ آنے والی نسلوں کو ہاتھ پیروں سے بھی محروم کر رہے ہیں۔ اس جرم میں شریک ہر فرد پر رحم بھی کھایا جائے‘ تو وہ کم از کم موت کی سزا کا مستحق ہے۔ ورنہ اس کی اصل سزا تو یہ ہے کہ اس کے اپنے ہاتھ پائوں کاٹ کر کہا جائے کہ لو! تم بھی وہی زندگی گزارو‘ جو تم ہمارے بچوں کو دے رہے ہو۔ 
پولیوکی وجہ سے‘ عالمی سطح پر پابندیوں کا مطلب ابھی ہماری سمجھ میں نہیں آرہا۔ پتہ اس وقت چلے گا‘ جب ان کا اطلاق ہوا۔ جب محکمہ صحت کے کسی افسر کو پاکستانی ڈاکٹر‘ فوری علاج کے لئے‘ بیرون ملک جانے کا مشورہ دے گااور اسے پولیو کے قطرے پلا کر سفر کے لئے 4ہفتے انتظار کرنا پڑے گا۔ میں تو چاہوں گا کہ سفر کا وقت آنے سے پہلے ہی موت اس کا قلع قمع کر دے۔ مگر بے گناہوں کا کیا ہو گا؟ عام آدمی تو پہلے ہی ہر طرف سے چوروں‘ ڈاکوئوں‘ ملاوٹیوں‘ جعلی ڈاکٹروں اور معاشرے کے دیگر ناسوروں کے عذاب میں‘ زندگی گزارتا ہے۔ اس غریب کو کسی مجبوری کے تحت فوری باہر جانا پڑے۔پولیو ویکسین کے قطرے پی کر 4 ہفتے انتظار کرنا پڑے گا‘ تو اس پر کیا گزرے گی؟ ان طالب علموں اور ملازمت کے لئے طلب کئے گئے‘ ضرورت مندوں کی حالت کے بارے میں سوچئے‘ جن کے داخلے یا ملازمت پر حاضر ہونے کی تاریخ‘ پانچ سات دن کی ہو اور وہ ویکسین کے قطرے پی کر 4ہفتے انتظار کرنے پر مجبور ہوں۔ طلبا داخلوں سے محروم رہ جائیں گے اور ملازمتیں پانے والے نوکریوں سے۔کسی کاکوئی عزیز یورپ یا امریکہ میں مر جائے اور اس کی میت پاکستان لانے والا کوئی نہ ہو اور جو وارث پاکستان سے میت لینے کے لئے تیار ہو‘ اسے 4ہفتے انتظار کرنا پڑے‘ تو اس خاندان کا حال کیاہو گا؟ میں نے صرف چند جھلکیاں دکھائی ہیں۔ ادارہ ''دنیا‘‘بار بار پولیو پر مضامین چھاپ اورنتائج سے خبردار کر رہا تھا‘ یہ ہماری ایک عاجزانہ سی کوشش تھی کہ شاید کوئی سوچ لے‘ شاید کسی کو خیال آ جائے ‘ شاید کوئی فوری تدبیر اختیار کرنے کے لیے بروقت سرگرم ہو جائے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ مجھے تو ایسی قوم کا فرد ہونے پر گھن آ رہی ہے‘ جو اپنے بچے گھر چھوڑ کر‘ دوسروں کے بچوں کی زندگی بچانے ‘پولیو کے قطرے پلانے آئے اور بچوں کے والدین اس پرخونخوار کتے چھوڑ دیں۔ کتے‘ فرشتہ صفت خاتون کے جسم سے بوٹیاں نوچ رہے ہوں اور وہ درد سے بلبلاتے ہوئے‘ مدد کے لئے پکار رہی ہو اور آپ کا تعلق اسی قوم سے ہو‘ جس کے افراد گھر سے مسیحائی کے لئے نکلنے والی ایک عورت پر‘ کتے چھوڑ کے‘ اس کے تڑپنے‘ بلبلانے اور چیخنے چلانے کا منظر دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے ہوں‘ تو آپ اپنا شمار انسانوں میں کر سکیں گے؟ سچی بات ہے کہ اب ہم اپنا مقام کھو چکے ہیں۔ ہم انسان کہلانے کے حق دار نہیں۔ 
نوٹ:- گزشتہ روز کالم میں ٹائپنگ کے کمال سے ''تھن من سکوائر‘‘ کی جگہ ''پھن من سکوائر‘‘ چھپ گیا۔ معذرت خواہ ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں