جب کوئی نیا پاور پلانٹ لگتا ہے‘ تو لوگ دل ہی دل میں کہتے ہیں کہ ''مارے گئے‘‘۔ ڈر بجلی کی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہر نئے پاور پلانٹ کے ساتھ عوام کو اس بجلی کی قیمت بھی دینا پڑے گی‘ جو بنائی نہیں جاتی۔ دوسرے لفظوں میں عوام جو بل ادا کرتے ہیں‘ وہ دو چیزوں کا ہوتا ہے۔ آدھی رقم بجلی کی۔ آدھی لوڈ شیڈنگ کی۔ مجھے نہیں پتہ کہ نئے پاور پلانٹس کن شرائط پر لگائے جائیں گے۔ ہمیں تو یہ معلوم ہے کہ ہر بجلی کمپنی کو حکومت یہ ضمانت دیتی ہے کہ پلانٹ میں جتنی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو‘ حکومت اس کی پوری قیمت ادا کرنے کی پابند ہو گی۔ جو بجلی پیدا نہیں ہوتی‘ قیمت اس کی بھی وصول کی جاتی ہے۔ مثلاً اگر ایک پلانٹ 200 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ 100 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے‘ جو 100 میگاواٹ وہ پیدا نہیں کر رہا‘ قیمت اس کی بھی وصول کرتا ہے۔ اصل میں پیدا ہونے والی بجلی‘ کمپنی کو اتنا نفع نہیں دیتی‘ جتنا نفع اس بجلی سے ہوتا ہے‘ جو پیدا نہیں کی جاتی۔ جواز یہ رکھا گیا ہے کہ پلانٹ کو ایندھن سپلائی کرنے کی ذمہ داری حکومت نے لے رکھی ہے۔ وہ ایندھن سپلائی کرنے میں ناکام رہتی ہے اور نتیجے میں ایندھن کی کمی کے باعث‘ بجلی پیدا نہیں ہو سکتی‘ تو حکومت قیمت اس کی بھی ادا کرے گی۔ اسے بجلی 80میگاواٹ ملے یا 120 میگاواٹ‘ قیمت 200 میگاواٹ کی دینا پڑے گی۔
نہ پیدا ہونے والی بجلی‘ وہ کھاتہ ہے‘ جس سے بیوروکریٹ بھی فیض یاب ہوتے ہیں اور کمپنیاں بھی۔ اس وقت ملک میں بجلی کے جتنے پلانٹ موجود ہیں اگر وہ پوری گنجائش کے مطابق بجلی پیدا کرنے لگیں‘ تو لوڈشیڈنگ نہ صرف ختم ہو جاتی ہے بلکہ 5‘ 6ہزار میگاواٹ بجلی فالتو رہ جاتی ہے‘ جسے ہم کسی بھی پڑوسی ملک کو فروخت کر سکتے ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ اتنی پیداواری گنجائش کے باوجود‘ اپنے عوام کو اندھیروں میں زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایندھن فراہم کرنے کے ذمہ دار افسران‘ ایسی ترکیبیں لڑانے میں مصروف رہتے ہیں‘ ایسے ایسے بہانے گھڑتے ہیں‘ جن سے ثابت کیا جا سکے کہ مختلف وجوہ کی بنا پر‘ ایندھن مہیا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فیصلہ افسر اور کمپنی مالکان مل کے‘ کر لیتے ہیں کہ بجلی 50 فیصد پیدا کی جائے یا 60 فیصد؟ 50 یا 60 فیصد بجلی دے کر‘ کمپنی 100 فیصد کا بل بناتی ہے۔ جو 30 یا 40 فیصد بجلی پیدا نہیں کی گئی‘ حیلے بہانوں سے اس کا بل‘ عوام کو ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ عوام پر سارا بوجھ ڈالا جائے تو ہنگاموں کا اندیشہ ہے۔ اس کی ترکیب یہ نکالی گئی ہے کہ آدھا بوجھ عوام پر ڈال دو اور جو رقم کم رہ جائے‘ اسے گردشی قرضے کے کھاتے میں رکھ دو۔ اس طرح ہر مہینے قریباً پچاس ساٹھ کروڑ روپے کا‘ گردشی قرضہ بن جاتا ہے۔ جب یہ قرضہ تین چار سو یا پانچ سو ارب ہو جاتا ہے‘ تو وزارت خزانہ سے مطالبہ ہوتا ہے کہ کمپنی کے واجبات ادا کئے جائیں‘ ورنہ کمپنیوں کے پاس ایندھن خریدنے کا پیسہ نہیں ہے۔ بجلی کی سپلائی میں کمی آئے گی‘ جس سے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھ جائے گا اور عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ کمپنیوں کے قرضے ادا کئے جائیں تاکہ وہ بجلی پیدا کر سکیں۔ سالہا سال کی لوٹ مار سے افسروں اور کمپنیوں نے اتنا پیسہ کما لیا ہے کہ وہ جاری آمدنی میں کمی پیدا ہونے سے ڈرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ بجلی کی پیداوار میں اضافہ نہ ہو سکے۔ اس کی وجہ سے نہ تو ہائیڈرو پاور کی پیداوار میں اضافہ ہونے دیا جاتا ہے اور نہ ہی ایندھنوں سے۔ جتنی پیداواری صلاحیت بڑھے گی‘ اسی تناسب سے بجلی بھی پیدا کرنا پڑے گی۔ زیادہ پلانٹ لگ گئے‘ تو زیادہ بجلی بنانا ضروری ہو جائے گا‘ کیونکہ ہر کمپنی کی پیداواری صلاحیت کا 50 فیصد سے بھی کم خریدا جائے تو پیداواری یونٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہر کسی کو اس کا حصہ دینا پڑے گا۔ کمپنیاں اور افسر‘ جتنی کوشش چاہیں کر لیں‘ بجلی کی زیادہ پیداوار کو نہیں روک پائیں گے۔ ظاہر ہے‘ کمپنیوں میں آپس کا
مقابلہ بھی ہو گا۔ کوئی کمپنی یہ نہیں چاہے گی کہ بجلی پیدا کئے بغیر‘ جو وصولیاں دوسری کمپنیاں کر رہی ہیں‘ وہ ان سے محروم رہیں یا ان سے کم کمائیں۔ اس طرح کمپنیوں اور افسروں پر دبائو بڑھ جائے گا۔ مجبوراً انہیں ہر کمپنی سے کم از کم پچاس ساٹھ فیصد بجلی خریدنا پڑے گی‘ جو عوام کی ضروریات کے لئے کافی ہو گی۔کمپنیاں زیادہ ہو جانے سے‘ ان میں مقابلہ شروع ہو جائے گا۔ ہر کمپنی کی کوشش ہو گی کہ اسے 50 فیصد بجلی دے کر 100 فیصد کا بل ملتا رہے۔ کمپنیاں زیادہ ہونے کی بنا پر تمام کمپنیوں سے 50 فیصد بجلی خرید کر‘ 100 فیصد کا بل دینا مشکل ہوا‘ تو کمپنیاں اپنے اپنے نفع کو برقرار رکھنے کے لئے مطالبے کریں گی کہ ان سے بیس پچیس فیصد بجلی لے کر‘ پوری قیمت دی جائے۔ ایسا کرنا ممکن نہ ہو گا۔ عوام پہلے ہی جتنی بجلی لے رہے ہیں‘ اس سے زیادہ کا بل نہیں دے پائیں گے۔ چنانچہ کمپنیوں کا بجلی دیئے بغیر‘ بل لینے کا مقابلہ جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ پہلے ہی ضرورت سے زیادہ پیداواری پلانٹ موجود ہیں۔ ایندھن کی فراہمی سے معذوری کا بہانہ کر کے‘ انہیں بجلی پیدا کئے بغیر جو قیمت مل رہی ہے‘ وہ سب کو نہیں دی جا سکے گی۔ کمپنیاں اپنا نفع برقرار رکھنے کے لئے پیش کشیں کرنے لگیں گی کہ جتنا ایندھن حکومت سپلائی نہیں کر سکتی‘ اسے ہم خود مارکیٹ سے خرید لیں گے۔ آپ ہماری بجلی خریدیں۔ یہ مقابلہ موجودہ بجلی کمپنیوں اور متعلقہ حکام کی لوٹ مار ختم کر دے گا۔ سب کو حلال کی کھانا پڑے گی‘ جس کی ہمیں عادت نہیں رہی۔ جس شخص نے بیس پچیس سال پانی ملا دودھ پیا ہو‘ اسے اچانک خالص دودھ دے دیا جائے‘ تو معدہ خراب ہو جائے گا۔ اسی طرح جس نے زندگی بھر حرام کھایا ہو‘ اسے اچانک حلال کی روٹی دے دی جائے‘ تو وہ یقینا بیمار پڑ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے نظام سے وابستہ تمام افراد اور ادارے مشکل میں پڑ جائیں گے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر ملک کے اندر بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہو گیا‘ تو ان کا دھندہ چوپٹ ہو جائے گا۔ کمپنیاں اپنے پاس سے ایندھن خرید کر‘ بجلی مہیا کرنے لگیں گی۔ گردشی قرضے کی لوٹ مار ختم ہو جائے گی اور اوپر کی کمائی صرف اس بجلی تک محدود ہو جائے گی‘ جسے پیدا کر کے بیچنا پڑے گا۔ بغیر بجلی پیدا کئے نہ کمپنیوں کو لوٹ کا مال ملے گا اور نہ افسروں کو حصہ۔
مشکل یہ ہے کہ دنیا میں تجارتی مقابلہ سخت سے سخت ہوتا جا رہا ہے۔ جن سرمایہ داروں کو یہ پتہ ہے کہ پاکستان میں بجلی بہت مہنگی ہے اور اسے یہاں بیچ کر دوسرے ملکوں کے مقابلہ میں زیادہ نفع لیا جا سکتا ہے‘ تو وہ اپنا اپنا زور لگا کر منڈی میں کودیں گے۔ اپنے وسائل سے بجلی پیدا کر کے‘ فروخت کریں گے اور بغیر بجلی پیدا کئے‘ اس کی قیمت وصول کرنے کی گنجائش نہیں رہ جائے گی اور موجودہ کمپنیوں اور افسروں کی اندھی لوٹ مار ختم ہو جائے گی۔ یہ جو بجلی کے نئے نئے کارخانے لگ رہے ہیں‘ اس میں ہمارے حکمرانوں کا کوئی دخل نہیں۔ ان کا بس چلے‘ تو اسی بندوبست کو جاری رکھنا چاہیں گے‘ جس میں کمپنیوں اور حکمرانوں کو اندھادھند کمائی ہو رہی ہے۔ بغیر مال سپلائی کئے‘ اس کی قیمت وصول کر کے‘ موج اڑانا کس کو برا لگتا ہے؟ مگر برا ہو عالمی تجارتی مقابلہ آرائی کا کہ بیرونی حکومتیں اور ادارے‘ اچھی اچھی پیش کشیں کر کے‘ کارخانے لگانے چلے آ رہے ہیں۔ چین کے پاس اتنا وافر سرمایہ آ گیا ہے کہ وہ نئے سے نئے منصوبوں پر خرچ کر کے‘ اسے سرکولیشن میں رکھنا چاہتا ہے۔ روپے کا جتنا بہتر استعمال چینی جانتے ہیں‘ دنیا کی کوئی قوم نہیں جانتی۔ پاکستان کے ساتھ دوستی میں تلخ تجربات کر کے‘ چینیوں نے ہمارے ساتھ کاروبار کرنے کے طریقے سیکھ لئے ہیں۔ شروع میں وہ کروڑوں ڈالر کے بلاسود قرضوں کی پیش کشیں کر کے‘ ہمارا منہ دیکھتے رہ گئے۔ وہ ہمیں بار بار یاد دلاتے کہ ہم نے آپ کو بلاسود طویل مدتی قرضے دینے کے لئے‘ ڈالر سنبھال کے رکھے ہیں اور آپ لینے نہیں آتے۔ برسوں کے بعد انہیں سمجھ آئی کہ ہماری حکومتوں کو سود میں بچت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ آپ سود جتنا چاہیں لے لیں۔ ہمیں اپنے حصے کی رقم نہیں ملے گی‘ تو بلاسود قرض ہمارے کس کام کا؟ چینیوں نے یقینا سب ''طریقے‘‘ استعمال کر کے‘ پاکستان میں بزنس کرنا سیکھ لیا ہے۔ وہ افسروں کی خاطر مدارت‘ اپنے نفع میں سے کرتے رہیں گے اور بغیر بجلی پیدا کئے‘ قیمت وصول کرنے کی انہیں ضرورت نہیں۔ مگر موجودہ بجلی کمپنیاں اور ہمارے حکام‘ جلد ہمت ہارنے والے نہیں۔ وہ نئے منصوبوں کو پانچ دس سال تک مکمل ہی نہیں ہونے دیں گے۔ نواز شریف حکومت کو دو تین سال میں گرا دیا‘ تو گلشن کا کاروبار مزید کئی سال چل جائے گا۔ اس کے لئے سرتوڑ کوششیں ہو رہی ہیں۔ جب تک اسحق ڈار وزیرخزانہ ہیں ''دھندے‘‘ کو خطرہ نہیں۔ ہمیں بھی اچانک پوری بجلی ملنے لگی‘ تو ہم کیا کریں گے؟ ہمارا ملک اتنے برسوں سے اندھیرا نگری بنا ہوا ہے کہ لوڈشیڈنگ ہمارے معمولات کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ اچانک ختم ہو گئی‘ تو ہمارا کیا بنے گا؟
سٹاپ پریس: آج پی آئی اے کے تمام طیاروں کی آمدورفت بروقت ہوئی۔